پاکستانی سفارتکاروں کی کارکردگی – ایک لمحہ فکریہ؟

آسٹریلیا میں بسنے والی پاکستانی کمیونٹی تقریباً 20 ہزار افراد پر مشتمل ہے ۔اکثریت میں پاکستانی سڈنی اور میلبورن میں رہتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کے عام لو گ محنتی اور ذمہ دار ہیں۔ یہ پاکستانی ڈاکٹر، انجینئر، کمپوٹر پروفیشنل سے لیکر سیکورٹی اور ٹیکسی بزنس سمیت مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں۔ پچھلے 25 سالوں میں میں نے پاکستانی کمیونٹی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ جس کی وجہ میری کمیونٹی کے لئے صحافتی اور سماجی خدمات ہیں۔ پچھلے 20 سالوں میں سینکڑوں  مضمامینپاکستان، پاکستانی کمیونٹی کے مسائل پر لکھ چکا ہوں۔دو سال کی انتھک محنت سے پاکستانیوں کی آسٹریلیا کے ساتھ تاریخی رشتوں پر مبنی ایک کتاب

(Australia For Pakistanis)

بھی قلمند کر چکا ہوں جو 2003 میں شائع ہوئی اور آج آسٹریلیا کی مرکزی لائیبریوں میں پاکستانیوں کی آسٹریلیا کے لئے خدمات کا شاہکار کے طور پر موجود ہے۔ 

– 1998

 میں پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستانیوں اور تمام کمیونیٹیز کے لئے انگلش اخبار شائع کیا، جو کہ آسٹریلیا میں پہلا ملٹی کلچرل اخبار تھا یہ اخبار 2006 تک صحافت کی اعلی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے شائع کرتا رہا اور اب آن لائن ویب سائٹ پرموجودہے۔پچھلے کئی سالوں سے پاکستانیوں کے لئے ہر ہفتہ اتوار کی رات دو گھنٹہ کا ریڈیو پروگرام پیش کر رہا ہوں جس میں صرف پچھلے دو سالوں میں بہت سارے پاکستانی قومی سیاسیدانوں اور بیوروکریٹس سے پاکستانی مسائل پر برائے راست بات چیت کر چکا ہوں۔ آج سے پندرہ سال پہلے پاکستانی رسم و رواج کو اپنی نئی نسل میں پروان چڑھانے کے لئے 1998 میں عیدالفطر کے موقع پر ، چاند رات عید فیسٹیول، شروع کیا ، جس کا شمار اب آسٹریلیا کے مرکزی پروگراموں میں ہوتا ہے ۔جس میں 2012 میں پندرہ ہزار سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی جو کہ آسٹریلیا کے سب سے بہترین وینیو سڈنی اولمپک پارک میں منعقد کیا جاتا ہے، اسِ میں 150 سے زیادہ اسٹالزسجائے جاتے ہیں اور پاکستانیوں کے علاوہ مختلف رنگ و نسل کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔پاکستان کے قومی دنوں کے موقع پر پاکستان کے کلچر اور روایات کو فروغ دینے کے لئے با مقصد بہت سارے پروگرام منعقد کئے غرض کہ اور بھی بہت سارے کام ہیں جو میری ویب سائٹ پر میری ذاتی پروفائل پر پڑھے جا سکتے ہیں۔ یہاں یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ مجھ سے زیادہ پچھلے 25 میں پاکستانی کمیونٹی کو انکے مسائل کو اور یہاں قائم مختلف گروپوں کو کون سمجھ سکتا ہے۔یہاں یہ بات بھی میں بڑے فخرسے کہنا چاہتا ہوں کہ آسٹریلیا میں بسنے والے عام پاکستانیوں نے کمیونٹی میں میری خدمات کے صلہ میں جو عزت دی ہے وہ میری خدمات سے کہیں زیادہ ہے جس کا میں پاکستانی کمیونٹی اور میری خدمات کا اقرار کرنے والے مخلص دوستوں کا ہمیشہ شکر گزار رہوں گا نیز ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کرتا ہوں کہ میں حق، سچ کے لئے اور کمیونٹی کو آسٹریلیا میں ایک باوقار کمیونٹی بنانے کے لئے تمام صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لاتے ہوئے جب تک زندگی قائم ہے کام کرتا رہوں گا۔
پاکستانی کمیونٹی میں یہاں اپنے اپنے حساب سے اور اپنے اپنے مقاصد کے لئے لوگ مختلف کمیونٹی پلیٹفارم بنا کر کام کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے ذاتی مقصد کے لئے کمیونٹی میں کام کرتے ہیں او ر کچھ پاکستان اور قومی جذبے سے شرشار ہوکر کام کرتے ہیں۔ یہاں اسِ معاشرہ میں ہر ایک کو حق ہے وہ جس طرح چاہے اور جس مقصد کے لئے چاہے کام کرے۔کون کسِ طرح کا کام کر رہا ہے اور کس نے کمیونٹی کو کیا دیا ہے اس کا فیصلہ یہاں بسنے والے کمیونٹی کے عام لوگ کرتے ہیں نہ کہ چند خود ساختہ قائدین۔
کمیونٹی کا ایک مسلہ جو میں پچھلے 20 سالوں سے دیکھ رہا ہوں اور ایک عام پاکستانی کا مسلہ سمجھتے ہوئے میڈیا اور عوامی جلسوں اور میٹنگوں میں مستقل اٹھاتا بھی رہا ہوں وہ ہے آسٹریلیا میں پاکستانیوں کو پاکستانی سفارتخانے اور کونسل خانے سے ملنے والی سروس کا معیار، پاکستانی صنعت، تجارت اور ہنر مند افراد کوآسٹریلیا میں متعارف کرانے میں سفارتکاروں کی کارکردگی اور پاکستانی سفارتکاروں کا کمیونٹی کی سیاست میں اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دخل اندازی۔اسکے نتیجے میں جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے سفارتکاروں نے میری کردار کشی کرنے کی کوشش بھی کی مگر عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور کیونکہ میرے اٹھائے گئے مسلوں کا تعلق عام آدمی سے ہے میر ے کام میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے ۔ آج میرے لئے خوش نصیبی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ میں اپنے قلم اور زبان سے آسٹریلیا میں عام پاکستانی کے مسائل کو ان ایوانوں اور اداروں تک پہنچاؤں جو دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے اور ان کو مراعات دینے کے دعوے کرتے ہیں۔
میں اسِ بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں اور اسِ پر یقین رکھتا ہوں کہ پاکستانی کمیونٹی کو اور پاکستانی تنظیموں کے ذمہ دار قائدین کو پاکستانی سفارتخانوں اور کونسل خانوں میں تعئنات افسرا ن کی عزت کرنی چائیے کیونکہ یہ پاکستان کے سرکاری نمائند ہ ہیں مگر ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ افسران جس کام اور ذمہ داری کے لئے پاکستان سے یہاں بھیجے جاتے ہیں اس کے بدلے میں انِ کو سرکاری خزانے سے اعلی مراعات اور تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ لحاظہ ان سفارتکاروں کی ضرور عزت کرنی چائیے اگر یہ صحح طور پر وہ کام سر انجام دے رہے ہوں جس کے لئے ان کو بھیجا جاتا ہے۔
اپنے عہدہ کا ناجائز فائدہ اٹھانا ایک جرم ہے۔میں یہاں اسِ بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کہ سفارتکاروں کا تقرر کسِ بنیاد پر ہوتا ہے کیونکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا یہ ا فسران صرف اور صرف وہ کام کرتے ہیں جن کے لئے یہاں بھیجے جاتے ہیں اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر عام پاکستانی کے لئے سفارتخانوں اور کونسل خانوں میں پریشانیاں کیوں؟ اور اگر جواب نا میں ہے تو پھر وہ کون لوگ ہیں جو ان سفارتکاروں سے ہمدردیاں رکھتے ہیں اور ان کی تعریفوں میں تحریری تصدیق فراہم کرتے ہیں۔ کیا کسی سفارتکارکو کمیونٹی کے انُ لوگوں سے جن کو وہ ذمہ دار لیڈران کہتے ہیں کسی تحریر ی تصدیق کی ضرورت پڑنی چائیے۔ اگر جواب نہیں ہے تو پھر اگر آسٹریلیا میں پاکستانی سفارتکاروں کے لئے ایسا ہو رہا ہے تو یہ کیوں ہو رہا ہے؟ اور یہ کون لوگ ہیں جو سفارتکاروں کویہ سرٹیفیکٹ فراہم کر رہے ہیں کہ وہ یہاں اعلی کام سر انجام دے رہے ہیں۔اور اگر یہ عام طریقہ کا ر ہے تو میں نے کم از کم اپنی 30 سالہ پروفشنل زندگی میں کسی اور ملک کے سفارتکاروں کے لئے ایسے خطوط شائع کرتے کسی دوسری کمیونٹی کے لیڈران کو نہیں دیکھا۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ سفارتکار ایسے لوگوں کو اپنے لئے برُے وقتوں کے لئے پالتے ہیں۔ اور ان سفارتکاروں کا برا وقت وہ ہوتا ہے جب ان سے کوئی ان کی کارکردگی پونچھ لے اور اگر پونچھنے والے کوئی نامور صحافی ہو تو پھر ان کے لئے معاملہ گھمبیر ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی کمیونٹی میں ہی نہیں ہر کمیونٹی میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جن کی دیرینہ خواہش سفارتکاروں کے قریب آنا ہوتی ہے۔ ان کی عقل و سمجھ میں سفارتکاروں سے ذاتی تعلقات قائم کرکے حکومتی اداروں میں تعلقات استوار کیے جا سکتے ہیں اورا پنے ذاتی کام با آسانی کر وائے جا سکتے ہیں ۔ بدقسمتی سے پاکستانی کمیونٹی میں کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو انِ سفارتکاروں کو ان کی عیش و آرائش فراہم کرتے ہیں اور پھر بدلے میں اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ پھر جب انِ سفارتکاروں کو اپنی کارکردگی ثابت کرنے کے لئے کوئی ثبوت کی ضرورت ہے تو یہ سفارتکار انِ ہی لوگوں کے پاس جاتے ہیں جنِ پر انہوں نے اپنی انویسٹمنٹ کی ہوتی ہے۔یہ سفارتکارکمیونٹی تنظیموں کے خود ساختہ لیڈران سے ریفرینس لیٹراسِ لئے حاصل کرتے ہیں تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ یہ دنِ رات پاکستانی کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور اتحاد میں مگن ہیں۔
جب کہ حقیقت اسِ سے مختلف ہے ۔ انِ سفارتکاروں چند مخصوص لوگوں سے ذاتی رسم و رواج کرنا، چند مخصوص کمیونٹی کے نام پر بنائی تنظیموں کے پروگراموں میں مہمانِ خصوصی بننا وغیر وغیر ہ سے دراصل کمیونٹی میں تفرقہ اور تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ان سفارتکاروں کا چند لوگوں اور چند تنظیموں سے تعلقات کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ انِ سفارتکاروں میں سے اکثریت کی خواہش یہ ہوتی ہیکہ کہ وہ جب اپنی سروس کی معیاد پوری کریں یا اگر انکی پاکستان واپسی کا حکم نامہ آئے تو یہ یہاں آسٹریلیا میں مستقل سکونت کے لئے آسٹریلوی امیگریشن میں درخواست داخل کر د یں۔ اسِ وقت آسٹریلیا میں کتنے ہی پرانے سفارتکار مستقل رہائش پذیر ہیں اور کچھ کا ارادہ مستقبل قریب میں ہے۔جس کے لئے ان کو پاکستانی کمیونٹی سے اپنی ملازمت کے دوران اچھی کارکردگی کے لیٹر چائیے جوکہ ایک اصولی اور سچے پاکستانی سے تو ملِ نہیں سکتے لحاظہ یہ پھر انہیں لوگوں کے پاس جاتے ہیں جن کو وہ عرصہ دراز سے پال رہے ہیں۔بدقسمتی آجکل یہ بازار زور و شور سے گرم ہے۔
میں بیس ہزار افراد پر مشتمل پاکستانی کمیونٹی کے انُ چند افراد سے یہ سوال کرتا ہوں جنہوں نے سفارتکاروں کی تعریفوں کے پل حال ہی میں ایک لیٹر کے ذریعے باندھے ہیں کہ اگر واقعی ان کی باتوں میں سچائی ہے اور جس کا ہمیں علم نہیں تو کیوں نہ عوامی پلیٹفارم اور میڈیا میں آکر عوام کو سفارتکاروں کے کارناموں کا بتائیں ان قابل احترام افراد کو پلیٹفارم ٹریبیون انٹرنیشنل (اخبار) اور وائس آف ٹریبون (ریڈیو) فراہم کریگا۔اور ساتھ ہی ہماری یہ دعوت سفارتکاروں کو بھی ہے کہ وہ آئیں اور ہمیں اپنی وہ کاریکردگی کے بارے میں بتائیں ہم آپ کی عوامی کارکردگی اپنے میڈیا میں شہ سرخیوں میں شائع کریں گے اور اپنے ریڈیو پروگراموں میں بھی نشر کریں گے۔
میں ان چند افراد سے یہ سوال کر تا ہوں جو اپنے آپ کو کمیونٹی کا ذمہ دارگردانتے ہیں کہا کہ آپ کی طرف سے سفارتکاروں کی کارکردگی پر مہر لگانے سے کیا عام لوگوں کے مسائل کم ہو جائیں گے؟ میرے پاس ایسے ایسے لوگ اپنے مسائل لیکر آتے ہیں کہ سن کر رونا آتا ہے ۔ مثال کے طور پر میں ایک پاکستانی کو ذاتی طور پر جانتا ہو جوی پچھلے بیس سالوں سے پاکستان اسِ لئے نہیں جا سکا کہ اس کا پاکستانی پاسپورٹ ایکسپائر ہوگیا تھا اور اب پاکستانی سفارتخانہ اسِ لئے دوسرا پاسپورٹ نہیں دے رہا کیونکہ بقول سفارتخانہ کے اس پاکستانی کے شناختی کارڈ کی تصدیق نہیں ہو پار ہی۔اس پاکستانی کے پاسپورٹ آسٹریلوی پاسپورٹ نہیں جس پر سفر کر سکے کونکہ یہ ابھی تک یہاں کا مستقل رہائشی بھی
نہیں ہو پایا ہے ۔ اسِ طرح کے بے شمار پاکستانیوں کے کیس میرے علم میں آتے ہیں جن کو میں ذاتی طور پر سفارتی عملے کے علم میں بھی لایا ہوں اور ان سے حل کرنے کی سفارش بھی کی ہے مگر کوئی سنوائی نہیں ہوئی۔
کیا وہ پاکستانی جو اپنے آپ کو کمیونٹی کا ذمہ دار لیڈر کہتے ہیں اپنے ضمیر کے مطابق یہ کہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستانی سفارتکاروں کو ان کی کارکردگی پر مہریں اس لئے لگاتے ہیں کہ وہ پاکستانی کمیونٹی کے لئے اعلی کام کر رہے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہو سکتا ہے آپ سفارتکار کا تو شاید مسلہ حل کردیں مگر آپ کے اسِ عمل سے ایک عام پاکستانی کا وہ مسلہ جو سفارتخانے سے منسلک ہے حل نہیں ہوگا۔
ذرا سوچئے!
سید عیتق الحسن،سڈنی آسٹریلیاء

Recommended For You

About the Author: Tribune