کیا سندھ کا مسلہ صرف ایم کیو ایم اور پی پی پی کا ملاپ ہے؟

سید عتیق الحسن

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے فوج کو ملک کی باگ دور سنبھالنے کا مشہوردیا اور ساتھ ہی پچھلے چند مہینوں سے جاری  پی پی پی اور سندھ حکومت پر لان تان کے بعد اب  حسبِ روایات یہ اطلاعات آر ہی ہیں کہ ایم کیو ایم نے سندھ حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر انِ خبروں میں حقیقت ہے تو لوگوں کو پریشان نہیں ہونا چائیے کیونکہ پی پی پی اور ایم کیوایم کے درمیان طلاق اور نکاح کا معاملہ کوئی نیا نہیں ، مگر اسِ نئے نکاح  کی بازگشت   ایم کیوایم کےگورنر  سندھ  گورنر عشرت العباد  کی سربراہی میں ایم کیوایم کے نمائندوں اور آصف علی زرداری  کے درمیان دوبئی میں ہوئی ملاقات کے دوران  سنائی دی  ۔ گورنر سندھ عشرت العباد آصف علی زرداری سے ملنے دوبئی کسِ حیثیت میں گئے؟  یہ ملاقات دبئی میں کیوں ہوئی کراچی میں کیوں نہیں؟سابق صدر آصف علی زرداری دبئی میں کیوں مقیم ہیں اور کیا  صوبے کے گورنر کی یہ ہی ذمہ داریاں ہیں جن کو وہ نبھا رہے ہیں، اور یہ کہ یہ رحمن ملک ہی کیوں الطاف حسین اور آصف علی زرداری کے درمیان ثالثی کردار ادا کرتےہیں، یہ   سوالات  بہت معنی خیز بھی ہیں اور  پس منظر بھی  رکھتے ہیں۔ مگر انِ  سب باتوں  سے کیا سندھ کے اردو  اور سندھی بولنے والے غریب شہریوں  کے بنیادی مسائل حل ہو جائیں گےاور   پھر اسِ کی ضمانت کون دے گا کہ کل کسی اور مانگ کے لئے ایم کیو ایم  پھر سندھ حکومت سے الگ  نہیں ہوگی اور  ایک مرتبہ پھر لوگوں کو سڑکوں  پھر نہیں لائے گی  اور   نہ ہی ہڑتالو ں کا سلسہ شرع نہیں کیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا یہ سیاسی  کھیل برسوں سے چل رہا ہے۔ یہ دونوں پارٹیاں سندھ میں حکمرانی کے لئے ایک دوسرے کی ضروت ہیں جن کا سندھ کے عام آدمی کی حالت بہتر بنانے  اور ایک دوسرے کو قریب لانے سے کوئی تعلق نہیں۔

شائع  ہونے  والی خبروں کے مطابق ایم کیو ایم کو سندھ کی حکومت میں صحت، آئی ٹی، بلدیہ ، ایکسائز اینڈ ڈیوٹیز کی وزاتیں ملیں گی اور ساتھ ہی کچھ اعلی  بیوکروکریٹس بھی ایم کیو ایم کی مرضی سے تعئنات کئے جائیں گے۔ کیا سندھ کے شہری علاقوں کے اردو بولنے والے سندھیوں کے مطالبات اور مسائل  کا حل چند وزاتیں اور افسروں کی تعئناطی  ہے۔ اگر یہ سب کچھ سندھ کے عوام کی بہتری کے لئے ہے تو  ابھی کچھ عرصہ پہلے تک بلدیاتی حلقہ بندیوں کے خلاف ایک دوسرے کے خلاف ہتک آمیز باتیں  کیوں کی جارہی تھیں اُس وقت سندھ کی بقا  اور امن کیوں یاد نہیں آرہا تھا۔  

کیا یہ ہی وہ مانگیں تھیں یا اختلافات تھے جس کی  بنا پر ایم کیوایم نے سندھ حکومت کو چھوڑا تھا۔ کیا یہ ہی وہ مسائل  تھے جس کی نشان دہی ایم کیوم ایم  کےسربراہ ا لطاف حسین نے اپنی لمبی لمبی ٹیلیفونک تقریروں میں کی تھی ۔

کیا سندھ کے اردو بولنے والے  ایم  کیو ایم کے مطالبات  منوانے اور حکومت حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ  استعمال ہوتے رہیں گے۔  کیا کراچی اور حیدرآباد کی عوام ایم کیو ایم کی گاڑی کے پرُزے  ہیں   جن کو جب چاہے ایم کیوایم کے قائد اپنے مطالبات منوامنے کے لئے بطور عوامی طاقت استعمال  کرتے رہیں گے۔ میں ایم کیوایم کے وجود  کی  داستان اسِ مضمون  میں قلم بند نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اب یہ سب پر عیاں ہے مگر اسِ حقیقت کو کیسے جھٹلایا  جا سکتا ہے کہ ایم کیوم ایم صرف اور صرف کوٹہ سسٹم کے خلاف ایک رد عمل کے طور  وجود میں آئی تھی اور اس کے قائد الطاف حسین نے سندھ کے اردو بولنے والوں کو سندھی نہیں بلکہ  مہاجر کہا تھا، اور سندھ کے شہروں میں پانچویں قومیت مہاجر کے نعرے لگوائے اور یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ  مہاجروں  کے حقوق کے لئےجدوجہد کریں گے  پھر  انہوں نے اپنی  جماعت کا منشور تبدیل کرتے ہوئے  جماعت کا نام مہاجر قومومنٹ سے متحدہ قومی مومنٹ کردیا اور  دعوی کیاکہ وہ  پاکستان کے تمام طبقوں کے حقوق کی بات کر یں گے  جو بہت اچھی بات ہے مگر کیا انکو حقوق ملِ گئے جن سےالطاف حسین نے وعدہ کیا تھا؟ کیا حقوق اور کیا جدو جہد! بیس سالوں میں سندھ کے شہر قبرستان بن گئے  ہیں۔ سندھ کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور مضبوط ہوگئی۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں ایسی سیاست اختیار کی کہ جس کے رد عمل پر سندھ کے  شہری  علاقوں کے اردو بولنے والے  ایم کیوایم سے ہمدردیاں بڑھائیں اور لوگ ایم کیو ایم کو ہی صرف اپنا مسیحا سمجھیں  اور دوسری  جانب  سندھی بولنے والے پی پی پی کے ساتھ جڑے رہیں۔  

آج سندھ کی سیاست  کا منظر نامہ  یہ ہے کہ جب تک ایم کیوایم شہری علاقوں میں اپنا ووٹ  بینک   قائم رکھے گی سندھ میں پی پی پی حکومت میں رہے گی۔ سندھ میں پی پی پی ایک جامع منصوبہ بندی  سے ایم کیوایم کے ساتھ ایسا سلوک رکھا ہے اور  الطاف حسین کے لئے ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ  الطاف حسین اور ایم کیوایم صرف اور صرف اپنی بقا  کی جنگ میں  ہی مصروف رہیں اور سندھ اردو بولنے والے سندھیوں یہ سوچ بر قرار رہے کہ اگر انکو کوئی بچا سکتا ہے تو وہ بیس سالوں سے لندن میں قیام پذیر الطاف حسین اور انکی جماعت ایم کیو ایم  ہے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune