پہلے گالی پھر معافی؛ مہاجر سے نفرت؛ وڈیروں کا پرانا ہربہ

بقلم سید عتیق الحسن:

خورشید شاہ نے لفظ مہاجر اور سندھ کے اردو بولنے والوں کو مہاجر کہہ کر جو کچھ کہا وہی ان کے ذہن کی  اصل حقیقت ہے اور بعد میں جو معافی مانگی وہ انکی ضرورت تھی

Khursheed Shahعام فہم رکھنے والا بھی خورشید شاہ کا صاف اور تعصب بھرا بیان سمجھ سکتا ہے کہ انہوں نے کھلے اور سیدھے الفاظ میں کہا کہ مہاجر ایک گالی ہے، ہم مہاجروں کو سندھ میں رہنے دیں گے۔ خورشید شاہ کے اسِ بیان پر مجھے تو نا کوئی حیرانی ہوئی اور نا کوئی تعجب کیونکہ خورشید کا بیان ترجمانی کرتا ہے سندھ کے وڈیروں کے ذہن  کا جس میں   چاہے، بھٹو خاندان ہو، زرداری خاندان ہو، مخدوم خاندان ہو یا پھر کوئی اور کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جاگیرداروں، چودھریوں اور وڈیروں کا یہ پرانہ طریقہ کار ہے کہ پہلے اپنی طاقت  کے بل بوتے پر دوسرے پر وار کرو  اگر وار غلط سمت میں چلا جائے تو پھر فورا معافی مانگ لو۔ خورشید شاہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ خورشید شاہ نے لفظ مہاجر اور سندھ کے اردو بولنے والوں کو مہاجر کہہ کر جو کچھ کہا وہی ان کے ذہن کی  اصل حقیقت ہے اور بعد میں جو معافی مانگی وہ انکی ضرورت تھی کیونکہ کچھ گھنٹے بعد ہی اسِ وڈیرہ اشرافیہ کو اپنا ایک نو عمر قائد بلاول زرداری کو کراچی میں اُسی طرح لانچ کرنا تھا جس طرح ایک گائیگ اپنے شاگرد کو لانچ کرتا ہے۔

خورشید شاہ کے بیان پر ردِ عمل کے طورپر ایم کیو ایم کے سرگرم لیڈرحیدر عباس رضوی  نے فورا ہی خورشید شاہ کو منہ توڑ جواب دیا ۔ جس کے بعد زرداری اور بھٹو خاندان حرکت میں آ گئے اور خورشید شاہ کو فوری معافی مانگنے کے لئے کہا  اور پھر خورشید شاہ نے پالتو کتے کی طرح حکم پر عمل کیا اور  جس طرح سے خورشید شاہ نے کئی بار معافی مانگی اور نا صرف  اپنے آپ کو بلکہ اپنے پورے خاندان کو بھی مہاجر کہا اُس سے یہ نظر آرہا تھا کہ یہ تمام لوگ بلاول زرداری کے لانچ  کرنے  اور کراچی کے جلسے سے کتنی امیدیں لگائیں بیٹھیں ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر الطاف حسین اور انکی جماعت صرف اور صرف سندھ کے اردو بولنے یا سندھ  کے  شہری علاقے کے باشندوں کے مسائل پر ہی  اپنے  آپ کو اور اپنی جماعت کے مقصد کو مرکوز رکھتی   اور  مستقل مزاجی سے صرف اسیِ ایجنڈے کے لئے جہدو جہد قائم رکھتے تو اب تک سندھ کے وڈیرے اور استحالی طبقہ سند ھ کی عوام کے مسائل کے آگے جھک گیا ہوتا یا پھر سیاسی میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہوتا۔ سندھ کے عوام کو بلا امتیاز اُس وقت تک انکے بنیادی حقوق میرٹ پر نہیں مل سکتے جب تک سندھ سے وڈیرہ سسٹم اور موروثی سیاست ختم نہیں ہوتی۔ یہ  زرداری،بھٹو، مخدوم، یا اور کوئی وڈیرہ خاندان سندھ کے کسی بھی طبقہ  کے  مسائل سے کسِ طرح سنجیدہ ہو سکتے ہیں  یہ  تو ذہنی طور پر اپنے آپ کو صرف اور صرف بادشاہت کرنے کے لئے پیدا ہونا سمجھتے ہیں۔

آج  آصف علی زرداری  ، انکے بیٹے بلاول زرداری اور انکے ساتھ جو بھی مفاد پرست ٹولا ہے انکو آج قائد اعظم کا مزار اور کراچی یاد آگیا ورنہ انکا   اصل ٹھکانہ تو لاڑکانہ  اور گھڑھی خدا بخش ہے۔

جہاں تک قیام پاکستان کے وقت ہجرت اور مہاجروں کی بات ہے تو ہجرت صرف اردو بولنے والوں  نے ہی نہیں کی اور نا ہی صرف ہجرت کرنے  والے لاکھوں  لوگ صرف سندھ کے شہروں میں ہی آکر آباد ہوئے تھے۔ پاکستان کے قیام کے وقت اور اسکے بعدہندو پاکستان سے ہندوستان کوچ کر گئے ، لاکھوں  ہندو سندھ سے ہندوستان گئے اور لاکھوں مسلمان ہندوستان سے سندھ میں ہجرت کرکے آئے اور پھر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک بین الاقوامی محاہدے کے ذریعہ ہجرت کرنے والوں کو پاکستان کا شہری تسلیم کیاگیا۔یقینا خورشید شاہ اور سندھ کے تمام وڈیر ے اسِ حقیقت کو جانتے ہیں کیونکہ لاکھوں  سندھی  ہندوں  ہندوستان کوُچ کرجانے کے طفیل میں ہی اور اس سے پہلے انگریزوں کی غلامی کے صلہ میں  ہی  انکو جاگیرداری نصیب ہوئی  تھی۔

 یہ حقیقت ہے کہ جی ایم  سید   ، رسول بخش پلیجو  ،  ذوالفقار علی بھٹو  سے لیکر کسی بھی سندھ کے بڑے سیاسی لیڈر اور وڈیرے کو  لے لیجئے ان سب کے باپ دادا کسی نہ کسی وقت میں سندھ میں آکر آباد ہوئے ہیں، کوئی پنجاب سے، کوئی بلوچستان سے، کوئی سرحد، کوئی ترکی سے، کوئی عرب سے تو کوئی افغانستان اور ایران سے آکر سندھ میں آباد ہوئے تھے۔ اگرمیں  انِ سب ’ مرسوں مرسوں سندھ نا دیسوں‘ کے نعرہ لگانے والوں کے خاندانوں کا  شجرہ بیان کروں تو ایک کتاب شائع  ہو سکتی ہے۔ بار حال اگر تاریخ کے پننوں کا مطالعہ کریں تو سندھ کے اصل یا قدیم باشندے جو ہزاروں سال سےسندھ میں  آباد تھے وہ  ہندو قومیں  ہیں  جنہیں یہ سندھ کے قوم پرست کوہلی یا بھیل کہتے ہیں سندھی نہیں کہتے۔یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے  آسٹریلیا میں یہاں کے اصل اور قدیم باشندوں کو  ابارجینیز  کہا جاتا  ہے اور  جس طرح سےامریکہ میں وہاں کی زمین کے  اصل وارثوں کو  ریڈ انڈین کہا جاتا ہے۔  سندھ سے پیا ر جتانے والے سیاستدانوں  کے سیاسی سفر کا جائزہ لیں تو   حقیقت سامنے آتی  ہے  کہ اِنہوں نے  سندھیوں  اور  سندھ حقوق کے نام پر صرف اپنی سیاست چمکائی  ہےاور اسکو اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا ہے۔

پاکستان کی بدقسمتی اور تباہی کی اصل وجہ یہ جاگیردار  اور انکے جاگیردارانہ رویہ  ہیں۔ یہ اپنے آپ کو پیدائشی طور پر پاکستان کا وارث سمجھتے ہیں اور پاکستان کے اقتدار کی خاطر یہ کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ یہ اُنہی لوگوں کے جان نشین ہیں جنہوں نے پاکستان کے ٹوٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔  پاکستان تو کیا اگر صوبہ سندھ کا جسِ کے یہ اپنے آپ کو وارث کہتے ہیں اقتدار حاصل کرنے لئے سودا کرنا پڑا تو یہ اس میں دیر نہیں لگائیں گے، کیونکہ ان کی اصل پناہ گاہیں انُ انگریزوں  کی ریاستیں ہیں جن کی بدولت انِ کو پاکستان کے موجودہ صوبوں میں جاگیرداری اور قبائلی سرداری ملیِ۔ذوالفقار علی بھٹو کا باپ شاہنواز بھٹو کا اصل تعلق مشرقی پنجاب سے تھا مگر وہ  ریاست  جوناگڑہ کے نواب کا  عیوان تھا لحاظہ جونا گڑھ کا  رہائشی تھا اور وہیں سے آکر سندھ میں  آباد ہوا تھا ۔ شاہنواز بھٹو    انگریزوں  کا وفادار تھا اور جونا گڑھ (جسے اب گجرات کہا جاتا ہے) کے نواب کی ریاست  ختم کرنے میں شاہنواز بھٹو  نے  اہم کردار ادا کیا تھا جس   کے صلہ میں شاہنواز بھٹو کو  انعام و اکرام کے طور پر  انگریزوں نے سر کے لقب سے نوازہ اور   سیکڑوں ایکڑ زمین لاڑکانہ کے قریب شاہ نواز بھٹو کے نام کردی اور یوں بھٹو خاندان سندھ کی ملکیت کے ٹھیکیدار بن گئے۔ انکے باب دادا  ’بھٹو‘ سے پہلے ’وٹو‘ کہلاتے تھے مگر سندھ میں آنے کے بعد یہ بھٹو بن گئے۔

ذوالفقار علی بھٹونے اپنی سیاست کا آغاز ایک فوجی آمرجنرل  ایوب خان کی فوجی حکومت میں وزارت  لیکر کیا، ایوب خان جو خود پٹھان تھے انُ کو موصوف ڈیڈی کہتے تھے۔جب ایوب خان کو چھوڑ کر بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی تو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ سندھ کے بڑے بڑے وڈیرے اور سیاسی قائدین پییلز پارٹی میں شامل ہوگئے بعشمول ذوالفقار علی بھٹو کے چچا زاد بھائی ممتاز علی بھٹو کے ۔ممتاز علی بھٹو کو پہلے سندھ کا گورنر اور پھر وزیر اعلی بنایا گیا۔ مگر جب ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے کیس میں ضیا الحق کے دور میں پھانسی دی گئی  اورپھر جب پاکستان  پیپلز پارٹی کے لیڈران پر ضیاالحق نے گھیرا تنگ کیا تو  بجائے اس کے کہ یہ ضیاالحق اور اسکی فوجی حکومت کے خلاف آخر دم تک تحریک چلاتے ان میں سے کئی تو ملک سے فرار ہوگئے، کچھ روپوش ہوگئے اور کچھ ضیارالحق کی حکومت میں شامل ہوگئے۔ اگر تھوڑی بہت ذوالفقارعلی بھٹو کے لئے تحریک چلائی  گئی تو وہ پی پی پی کے عام کارکن  اور جیالے تھے جنہوں نے لمبی لمبی  جیلیں  کاٹیں۔ ممتاز علی بھٹو نے سندھ نیشنل فرنٹ کے نام سے  پنجاب کے خلاف  ایک نئی جماعت بنائی اور سندھ اور بلوچستان کے عوام کو پنجاب کے خلاف اور پاک فوج کے خلاف کھڑا کرنے کی بھرپور مہم چلائی۔ کچھ عرصہ پہلے سندھ کا گورنر یا وزیر اعلی بننے کے مقصد میں   نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شامل تھے مگر نواز شریف کو خود ہی سندھ میں کوئی پذیرائی نہ مل سکی تو آج کل  موصوف تحریک انصاف  کے دروازے پر دستک  دے رہے ہیں۔ سندھ کے ایک اور  وڈیرہ  غلام مصطفی جتوئی  کو ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ کا وزیر اعلی بنایا،  جس کےزمانے میں سندھی زبان کا لسانی بل سے لیکر دھی اور شہری کوٹہ سسٹم سندھ میں نافظ کیا گیا۔ سندھ میں اردو اور سندھی کا نام لیکر سندھ کی عوام  کو تقسیم کیا گیا   اور  سندھی عوام سے ہمدردی کے نام پر اپنے اقتدار کو جاری و ساری رکھا۔  سندھ کا یہ استحصالی  ٹولہ آج بلاول زرداری سے ایک مرتبہ  پھر اُسی سیاست کا دوبارہ آغاز کرانا چاہتے ہیں۔

 ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پاکستان میں مومنٹ فار ڈیموکرسی(ایم آر ڈی)  کی تحریک شروع کی گئی جس کے دوران  غلام مصطفی جتوئی کے بیٹے نے نواب شاہ میں ایک فوجی گاڑی پر فارئرنگ کی جس کے نیتجے میں کئی فوجی  شہید ہوگئے۔ غلام مصطفی جتوئی نے اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لئے ضیاالحق سے ڈیل کی۔ اپنی الگ سیاسی جماعت نیشنل  پیپلز پارٹی بنائی اور پیپلز پارٹی کے بہت سے جیالے جتوئی کی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ یہ ہے انِ وڈیروں کی وفاداریوں کی داستانیں  اور  سندھ دھرتی اور پاکستان سے پیار کرنے والوں کے سیاسی کارنامے۔ یہ  لوگ سندھ کے باشندوں کی ترقی، تعلیم اور بنیادی حقوق کے دشمن ہیں۔کیونکہ سندھ کے عام آدمی کو جس دنِ اسکے  بنیادی حقوق ملِ گئے اس دنِ ان جاگیرداروں اور انکے نظام کی موت ہوگی۔

آج سندھ کے چھوٹے چھوٹے قصبوں اور گائووں سے سرکاری خرچہ پر محکوم لوگوں کو بسوں اور ٹرینوں پر کراچی لایا جارہا ہے تاکہ کراچی  کے جلسے میں لوگوں کی تعداد کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کریں کہ سندھ  کی  عوام اِنہیں  وڈیروں   اور موروثی سیاست کے الم برداروں سے پیار کرتی ہے اور انکے نظام کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

سندھ کے دھی علاقوں میں جہاں کم پڑھے لکھے محنتی کسان اور ہاری  آباد ہیں اور جن کو یہ اپنا غلام سمجھتے ہیں اور انکا  استحصال   یہ کبھی  قرضے دینے کی صورت میں،کبھی  انکے بچے بچیوں کی شادیوں کا خرچ اٹھانے کے لالچ میں ، یا پھر انکے بچوں کو شہروں میں نوکریاں دلانے کے لالچ میں کرتے چلے آرہے ہیں  اورانہیں چیزوں کے عیوض یہ مظلوم عوام سے انکا ووٹ خریدتے ہیں۔

 انتخابات کے دوران ان کو گاڑیوں میں بھر کر لایا جاتا ہے اور اپنی  مرضی کے مطابق ان سے بیلٹ پیپرز پر ٹھپکے لگوائے جاتے ہیں، جس کی بنیادپر پھر  عوامی نمائندے بن کر اسمبلیوں میں جاکر اپنی پسند کے قوانین  بناتے ہیں۔

مگر اب  سندھ  کا  سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ پچھلے ساٹھ سالوں میں سندھ کی ڈیموگرافک  تبدیل ہوچکی ہے۔ پچھلے تقریبا پندرہ سالوں سے پاکستان میں مردم شماری نہیں گی گئی بشمول صوبہ سندھ کے۔کراچی میں اردو اور سندھی بولنے والوں کے علاوہ ایک بڑا طبقہ پشتو اور پنجابی بولنے والوں کا آباد ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں اردو بولنے والے جو سندھ میں پیدا ہوئے ہیں 60 فیصد سے زیادہ آباد ہیں۔ یہ تمام طبقات سندھ کے بڑے بڑے وڈیروں کے کنٹرول میں نہیں ہے جس سے سب سے بڑا خطرہ سندھ کے وڈیروں   کو ہے جو کہ اپنے جاگیرداری نظام کی وجہ سے سندھ کے اقتدار کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ سندھ کی دہی اور شہری تقسیم سندھ کے وڈیروں کے فائدہے میں ہے ۔ سندھ کے سیاسی منظر نامہ کا ایک رخُ تو یہ ہے کہ الطاف حسین  اور انکی  ایم کیو ایم  سندھ میں بل واسطہ یا بلا واسطہ علیحدہ صوبے کا مطالبہ کررہی ہے تو دوسری جانب   سندھ کی تقسیم سندھ کے بڑے وڈیروں کے مفاد میں  بھی ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں  ہوا  تو سندھ کی نئی نسل چاہے اُس  کا تعلق کسی زبان  بولنے والے سے  ہو وہ ایک نہ  ایک دنِ جاگیروں اور وڈیروں اور انکی سیاسی جماعتوں کے خلاف کھڑے ہو نگے۔

بارحال موجودہ سیاسی منظر نامہ میں بلاول زرداری کا کراچی میں جلسہ جیسا بھی ہو دیکھنا یہ ہوگا کہ عمران خان کے لاڑکانہ کے جلسے کو کتنی اہمیت ملتی ہے اور پھر طاہر القادری اور عمران خان کے انقلاب اور نئی فکر کا پیغام سندھ کے عام آدمی تک کسِ حد تک موثر ہوتا ہے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune

1 Comment

  1. Pingback: viagra generic

Comments are closed.