پھر حالتِ زار پر رونا آیا!

:سید عتیق الحسن

MQM finally decides to join PPP againپاکستان میں رونما ہونے والے حالات پر افسوس  ہوتا تھا اور رونا بھی آتا تھا مگر اب اسِ قسم کے واقعات  اور وارداتیں رونما ہو رہی ہیں کہ ساتھ ساتھ  شرم بھی آتی ہے۔ حامد میر پر حملہ اور   پھر میڈیا کے ذریعہ پاکستان کے دفاعی اداروں اور انکے ذمہ داروں پر الزامات  پر میں نے فورا ہی اپنے فطری ردِ عمل کے نتیجہ میں ایک مختصر سا بیان شوشل میڈیا پر شائع کیا مگرا س کے بعدشرمندگی اور افسوس میں اسِ قدر ڈوبتا گیا کہ مزید تجزیہ کرنے کا دلِ ہی نہیں  چاہا۔ جسِ میڈیا کے حدود و اربع پر فخر ہوتا تھا آج شرمندگی آتی ہے کیونکہ میں بحیثیت ایک ادنی صحافی اور تجزیہ نگار یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ایسا  بھی وقت آئے گا جب اپنے پیشہ سے منسلک اداروں کی کارکردگی پر تجزیہ نگاری کرنی پڑیگی۔ بارحال حامد میرکے ساتھ ہونے والے حادثہ اور اس پر جیو گروپ نے جو کچھ کیا اس پر مجھ سے بہتر بہت سے صحافی حضرات اور تجزیہ نگاروں نے روشنی ڈال دی ہے لحاظہ میں اب مزید کچھ نیا نہیں لکھنا چاہتا ۔ ہاں ایک اور شرمندگی کا مقام کہوں یا سیاسی واردات سندھ میں  رونما ہوئی جس پر میری نظر سے کوئی خاطر تجزیہ  نہیں گزرا کیونکہ ہو سکتا ہے یہ سیاسی  واردات کسی تجزیہ نگار کے لئے کسی قدر دلچسپی کا سامان نہ ہو۔

پہلے تو یہ کہ مہاجر اتحاد تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سلیم حیدر صاحب پر قاتلہ حملہ ہوا جس میں اللہ نے انکی جان  محفوظ رکھی اور اب ملنے والی خبروں کے مطابق وہ تیزی سے صحتیاب ہو رہے ہیں۔ جان سب کی برابر ہے چاہے حامد میر ہو یا سلیم حیدر۔ بارحال  یہ وہی ڈاکٹر سلیم حید ر ہیں جنہوں نے الطاف حسین سے بھی پہلے سندھ میں اردو بولنے والوں کے مسائل پر اپنی سیاست شروع کی۔ میں یہ باتین سنی سنائی معلومات کی بنیاد پر نہیں بیان کر رہا بلک اسُ زمانہ میں میں خود بھی طالبعلم تھا اور طلبا   سیاست میں عملی حصہ لیتا تھا۔حامدمیر کے حملہ پر تو الطاف حسین صاحب کا بیان فوری  آگیا مگر سلیم حیدر پر قاتلانہ حملہ پر کوئی بیان نہیں آیا، کیوں؟الطاف حسین صاحب کو شعر و شاعری کا بڑا شوق ہے مگر شاید وہ یہ شعر بھول گئے؛ ’کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘۔ بارحال میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی کے خلاف زیادتی یا ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں تعصب نہیں برتنا چاہیئے۔

اب آئیے بات کرتے ہیں، متحدہ قوومی مومنٹ (ایم کیو ایم)  اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی کچھ عرصہ طلاق کے بعد دوبارہ نکاح کی۔ شاید میرے قارائین کو یاد ہوگا  میں نے  چوبیس مارچ کو اپنے ایک تجزیہ جس کا عنوان تھا ، کیا سندھ کا مسلہ ایم کیوایم اور پی پی پی کا ملاپ ہے، میں بیان کیا تھا کہ کسِ طرح سے ایم کیوایم اور پی پی پی نے اب سندھ کو سیاسی طور پر اپنے کنٹرول میں کر لیاہے۔ میں اسِ سے پہلے بھی پچھلے بیس سالوں میں سینکڑوں مضامین سندھ کی سیاست پر لکھ چکا ہوں ، جس کی وجہ میری پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ہی نہیں بلکہ اسُ زمین میں پیدا ہونے سے لیکر عملی طور پر زمانہ طالبعلمی میں سیاست میں حصہ لینے  اور پھر اپنے اوپر گزرنے واقعات اور مشاہدات میرے سامنے موجود ہیں۔ میں نے  الطاف حسین سے پہلے ’مہاجر، پنجابی ، پٹھان متحدہ محاذ‘  کا نعرہ لگانے والے نواب  مظفر  کی حیدرآباد میں سیاست بھی دیکھی ہے اور سندھ میں جی ایم سندھ کی جئے سندھ تحریک کا متحرک ہونا بھی دیکھا ہے۔ میں نے حیدرآباد میں سلیم حیدر اور بہت سارے سیاسی طلبا کا کوٹہ سسٹم کے خلاف  تحریک چلانا بھی دیکھا ہے اور کراچی میں الطاف حسین سے پہلے الطاف حسین قریشی صاحب کا مہاجروں کے حقوق کے نام پر لوگوں کا اکٹھاکرنا بھی دیکھا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر مجھے یہ باتیں یاد ہیں تو سندھ کے شہریوں کو کیوں یا د نہیں؟

سندھ کے عوام کو کیوں یاد نہیں چاہے وہ سندھی  زبان بولنے والوں ہوں یا اردو زبان، کہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی  اور اسکے بانی ذوالفقار علی بھٹو  اور انکے سیاسی رفقہ کار سندھ کے بڑے بڑے سیاسی جاگیردار ہی تو تھے جنہوں نے سندھ کے عوام کو زبان کے نام پر تقسیم کیا اور سندھ میں دہی اور شہری کوٹہ تعلیم اور ملازمتوں میں نافظ کیا؟ سندھ کے عوام کو یہ یاد کیوں نہیں کہ الطاف حسین نے اسی سلیم حیدر، اور کئی قتل ہو جانے والوں ساتھیوں کے ساتھ مل کر کوٹہ سسٹم کے خلاف کھڑے ہونے کا عزم کیا اور مہاجر  اسٹوڈینٹس فیڈریشن شروع کی ،جس کے بعد اسُ طلبا تنظیم کو  مہاجر قومی مومنٹ کا نام دیا؟ سندھ کے اردو بولنے والوں کو یہ یاد کیوں نہیں کہ الطاف حسین کے بہت ہی قریبی ساتھیوں نے  الطاف حسین کو چھوڑ کر مہاجر اتحاد تحریک بنائی  جس میں سے کچھ تو مارے گئے اور کچھ گمنامی کی زندگی گزاررہے ہیں؟ سندھ کے اردو بولنے والوں کو کیوں یاد نہیں کہ  جب سب سے پہلے الطاف حسین نے مہاجر قومی مومنٹ  کو متعارف کرانے کے لئے  سندھ  بھر میں جلسے جلوس کئے تو اس کو محافظ جی ایم سید اور ممتاز علی بھٹو نے فراہم کئے۔

سندھ کے سندھی بولنے والوں کو اور سندھ کے اردو بولنے والوں کو یہ یاد کیوں نہیں کہ جب سب سے پہلے الطاف حسین نے بے نظیر بھٹو  کے ساتھ ایم کیو ایم اور پی پی پی کے درمیان ۱۹۸۸ میں ایک محاہدہ کیا تو اس محاہدہ کے وقت بھی بے نظیر کے ساتھ پی پی پی کی طرف سے ہی قائم علی شاہ تھا اور آج بھی قائم علی شاہ ہے؟ سندھ کے سندھی بولنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ پی پی پی کے سندھ کے لیڈران ایک وقت میں ایم کیوایم کو سندھ میں دہشتگردی  کی ذمہ وار  تنظیم کہتےہیں اور پھر دوسرے وقت میں انکو اپنے ساتھ سندھ کی وزارتوں میں حصہ دار بناتے ہیں ؟

سندھ کے اردو بولنے والوں کو یہ یاد کیوں نہیں کہ اُن کا مسلہ سوائے کوٹہ سسٹم کے اور کچھ نہیں تھا جو کوٹہ سسٹم کے نفاظ سے تیس سال بعد آج تک  بھی ختم نہیں ہوا ؟ مگر الطاف حسین نے انِ تیس سالوں میں کوٹہ کو ٹہ سسٹم کی بانی جماعت پی پی پی سے ہر قسم کے محاہدے کیے ، حکومت میں شراکت داری کی مگر کوٹہ سسٹم  پر دو ٹوک بات نہیں کی؟

سندھ کے سندھی بولنے والے یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ پی پی پی جو سندھ میں سندھی بولنے والوں کی واحد محسن جماعت کہلاتی ہے سندھ میں سوائے سندھیوں سے ووٹ لے کر پنجاب کے چودھریوں سے سیاسی سازباز کرتی ہے اور سندھ کارڈ استعمال کرکے مرکز میں وزارت عظمی کی کرسی حاصل کرتی ہے اور سندھ میں صرف استحصال کے سندھی  عوام کو کچھ نہیں دیا؟ سندھ کے سندھی عوام کو کیا پتہ نہیں کہ جو جماعت اپنے آپ کو عوامی جماعت کہتی ہے اس کے سندھی قائدین تقریبا تمام سندھ کے بڑے بڑے اور ظالم وڈیرہ ہیں، کل انکے باپ تھے تو  آپ بیٹے؟

سندھ کے اردو بولنے والوں نے کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال دیکھی ہے جہاں دو جماعتوں کا ملاپ انکے قائد جب چاہیں کردیں اور جب چاہیں الگ ہوجائیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم نے سندھ میں پیدا ہونے والے سندھیوں کے دو بڑے لسانی طبقوں کی  آئندہ   نسلوں کے لئے الگ الگ کر دیا ہے اور اب اسِ کا صرف اور صرف فائدہ پی پی پی اور ایم کیوایم کو ہے، کہ جب وقت کی ضرورت ہو تو ایم کیو ایم حزبِ اختلاف کی نسشتوں پر بیٹھ جائے اور جب چاہے اقتدار میں شامل ہو جائے۔ آج سندھ میں عملی طور پر کوئی موثر حزبِ اختلاف نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب پی پی پی اور ایم کیو ایم سیاہ کرے یا سفید سندھ کے مالک ہیں؟ کیا اسی کا نام جمہوریت اور عوام کی مرضی ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سندھ میں پی پی پی اور ایم کیو ایم کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے اردو اور سندھی بولنے والے آج دو جماعتوں کے پیچھے کھڑے تقسیم ہیں مگر انکے لیڈر ان ایک ساتھ اقتدار کے مزے لے رہے ہیں؟ کیا سندھ کے عوام کو  لفظ منافقت اور مفاہمت میں کوئی فرق نظر نہیں آتا؟

 اور اگر پھر بھی  سندھ کی عوام  خوش ہیں ؟ اور اگر پھر آپ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے سیاسی کارناموں سے مطمعین ہیں اور اگر پھر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دو جماعتیں ہیں جو اردو اور سندھی بولنے والوں کی زندگیوں میں امن ، پیار و محبت بھر دیں گی اور سندھ سے تمام متعصبانہ نظام کا خاتمہ کردیں گی؟  تو پھر شاید وہ سب کچھ ایک خواب اور میرے اور میرے جیسے فکری لوگوں کا وہم تھا جو ہم نے اپنی نو عمری سے اب تک سندھ میں دیکھا اور ان سیاسی لیڈران کی سوانح عمری میں دیکھا ہے، اور یہ کہ شاید میرے یہ تجزیہ ہی غلط ہیں۔

تو پھر لگے رہیے ان ہی جماعتوں کے پیچھے اور انِ ہی اپنے سیاسی آقائوں کے پیچھے شاید آپ کو آپکی منزل ملِ جائے اور ہمیں شرمندگی

Recommended For You

About the Author: Tribune

1 Comment

Comments are closed.