پاکستان ، اسلام اور عوام

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

711 عیسوی میں بنو امیہ  کی اسلامی سلطنت کے  مراکش کے ایک  نوجوان فوجی   جنرل طارق بنِ زیاد نے 7000 ہزار فوجی جوانوں کے ساتھ اسپین پر حملہ کیا پھر سات سال کی جدو جہد کے بعد اسپین پر اسلام کا پرچم لہرایا مگر ریاست پر  مکمل  کنٹرول اور امن قائم نہیں ہو سکا۔ طارق بنِ زیاد نے مقامی عیسائی اور یہودیوں، منحرف مسلمانوں کی آواز کو طاقت کے ذریعہ سے دبانا چاہا ،اور طاقت  کے زورسے اسلام نافظ کرنے کی کو شش کی مگر مکمل کامیابی نہیں ملِ سکی  اور نا ہی سلطنت مضبوط ہو رہی تھی۔

 پھر 756 عیسوی میں ایک اور مسلمان خلیفہ  امیر عبدلرحمن کا دور آیا۔ امیر عبدلرحمن نے ملک میں اصلاحات شروع کیں۔ جگہ جگہ تعلیمی درسگاہیں قائم کیں،  لائیبریریاں بنائیں، کھیل کود کے لئے پارک تعمیر کئے، عوامی بیت الخلا  بنائے،  غرض کہ عام آدمی کی  حالت بہتر بنانے اور ان میں علم و شعور پیدا کرنے کے لئے بے مثال کام کئے۔ اسِ کے ساتھ ساتھ عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے مختلف طبقوں کو قریب لانے کے لئے بین مذاہب مجالس کا اہتمام، مشاعروں اور بحث و مباحثوں کا انعقادکا عمل جاری کیا، تخلیقی کام کرنے والوں کے فن پاروں کی نمائشیں جیسی سرگرمیوں کا باقاعدہ اہتمام شروع کیا گیا۔آزادیِ رائے  ،  ایک  دوسرے کے عقائد کو سمجھنے، انکا احترام کرنے  اور  اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت  کے لئے ضابطہ اخلاق بنایا گیا۔ امیر عبدلرحمن کی اُس طرزِ حکومت سے اسپین میں امن و آتشی کا انقلاب برپا ہوا۔ عیسائی اور یہودی ، مسلمانوں کے ساتھ مل کر ملک و قوم کے مفاد میں کام کرنے لگے،اور اسپین کی حکومت دنیا کے لئے ایک مثالی ریاست بن گئی۔ اسپین کے اسِ دور کو گولڈن ایج (یعنی سنہرا دور) کا نام دیا گیا جو 1031 عیسوی تک قائم  رہا۔

تاریخ ہمیں  سکھاتی ہے کہ طاقت سے کوئی بھی مذہب اور عقیدہ کسی  پر تھوپا نہیں جا سکتا ۔ اگر اسلام کی بات کریں تو طاقت سے شریعت یا اسلامی قانون کسی پر نافظ نہیں کئے جا سکتے۔اگر کسی آدمی نے سگریٹ نوشی کر نی ہے یا شراب پینا ہے تو وہ کسی نہ کسی  طریقے سے اپنی خواہش پوری کر ہی لے گا۔ کسی کے گھر کی چار دیواری میں کوئی بھی جا کر نہیں دیکھ سکتا کہ کون گناہ کما رہا ہے کون ثواب۔انِ چیزوں کا تعلق سلسلہ وار معاشرہ کی تربیت ، تعلیم اور شعور سے ہے۔نہ  تو خالی تعلیم سے، نا خالی تربیت سے کسی انسان میں شعور پیدا ہوتا ہے ، تعلیم و تربیت دونوں لازم و ملزم ہیں۔ جس معاشرہ کے افراد میں تعلیم  ہو مگر تربیت نہ ہو تو اس معاشرہ میں پڑھے لکھے چور، ڈاکو اور منافق پیدا ہوتے ہیں جو معاشرہ  اور ریاست کی تباہی کا ضامنِ ہوتے ہیں۔

اگر آج  پٌاکستان میں ہمارے اسلام کے ٹھیکیدار ،  حکمران اور سیاستدان  حضرت عمر بن خطاب کے دور کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ انہوں نے کسِ طرح سے دنیا کو سیاسی، سماجی، جمہوری، معاشی، ریاستی،  اور دفاعی اصلاحات دیں ، جن کی  بنیاد پر آج مغربی ترقی یافتہ معاشرہ انحصار کرتا ہے تو انہیں پھر کسی آئین اور قانون کے جھگڑوں میں پڑنے کی ضرورت نہ پڑے۔

 دنیا کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا  اصلاح پسند جس نے دنیا کوعظیم ریاستی نظام دیا،  قومی تعمیر کاسسٹم  دیا، فلاحی ریاست کا تصور دیا، عدل و انصاف کرنے کا طریقہ سکھایا ، مساوات کا نظام بخشا،دوسرے مذاہب اور قوموں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سکھایا وہ اسلام  کے دوسرے خلیفہ  حضرت عمر بن خطاب تھے۔ عمر بنِ خطاب  کے راستے پر چل کر اسپین کے خلیفہ امیر عبدلرحمن جیسے کتنے خلفہ نے دنیا میں اسلام کی عظیم ریاستیں قائم کیں اور  دوسری قوموں کو اپنے عمل اور مساوات کے نظام سے متاثر کیا۔

 آج پاکستان میں جو بنایا ہی گیا تھا انصاف ، مساوات اور بنیادی حقوق کے سنہری اصولوں کو قائم کرنے کے لئے۔ وہاں انصاف، مساوات اور بنیادی حقوق کی بات تو ایک طرف آج انسانیت نظر نہیں آتی۔ آج بڑے بڑے داڑھیوں والے ،  اور بڑی مساجد کے خطیب اپنی سوچ کا نظام بندوق کے زور پر نافظ کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے وہ ہر عمر اور طبقہ  انسانوں کو قتل کرنا اپنی حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں جو انکی سوچ سے اختلاف رکھتے ہیں۔ آج قران و سنت کو ٹی وی مباحثوں اور پریس کانفرنسوں میں لاکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جو انکا فلسفہ ہے وہی شریعت ، قران و سنت ہے۔یہ بھی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

آج پاکستانی قائد حکومت  کے اندر اور حکومت سے باہر، پاکستانی سیاستدان اور مذہبی لیڈران دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ ہم کسِ قسم کے لوگ ہیں کہ  جن کے پیسے سے پاکستان کا خزانہ چل رہا ہے اور  جب خزانے میں پیسے ختم ہوجاتے ہیں، جب  سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کو پیسے نہیں ہوتے تو آئی ایم ایف اور وولڈ بینک سے سود در سود پر قرضے لیے جاتے ہیں  جو اسلام میں حرام ہے، اور دوسری جانب ملک میں دہشتگردی پھیلا کر شریعت نافظ کرنا چاہتے ہیں اور وہ شریعت جس میں صر ف انکے فقہ اور سوچ کے لوگ مسلمان اور ایمان والے ہیں باقی سب منحرف اور انکو مارنا جنت میں جانے  کی ضمانت  ہے۔

روس کے ساتھ لڑنا ہویہ  امریکہ سے ہتھیار اور ڈالر وصول کرتے  ہیں  اور جب اپنی مرضی کی ریاست بنانی ہو اور لوگوں پر اپنی مرضی کی حکمرانی کرنی ہو تو امریکہ اور مغربی نظام کو گالیاں دیتے ہیں۔

آج پاکستان کو خطرہ امریکہ اور مغرب سے نہیں بلکہ ان وحشی درندوں سے ہے جوہر اس شخص کو اسِ دنیا سے فارغ کرنا چاہتے ہیں جو ان کی سوچ پر لبیک کہنا نہیں چاہتا۔ لحاظہ اگر پاکستانی عوام کو اپنی  اور پاکستان کی سلامتی چاہیے تو انِ بیمار ذہنوں کے خلاف میدان میں نکلنا ہوگا ،اِن لوگوں کو اسیُ طرح سے مارنا ہوگا جس طرح سے یہ لوگوں کو مار رہے ہیں۔ شایدانہی جیسے لوگوں کے لئے خون کا بدلہ خون ہے۔

آج پاکستانی حکومت انِ لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہے یا پھر ڈرپوک بنی ہوئی ہے۔ مگر پاکستان فوج دنیا کی ایک عظیم طاقت ہے ، آج انہیں میدان میں آنا ہوگا اور انکے خلاف اعلانِ جنگ  کرنا ہوگا۔

 آج ایک ابھرتی ہوئی  پاکستانی سیاسی جماعت کے قائد کہتے ہیں کہ ہم نے طاقت کا استعمال بنگلادیش میں بھی کیا تھا تو کیا ہوا ، ہماری فوج کو بنگالی مکتی باہنی اور بھارتی فوج نے ملِ کر مارا ، ہماری فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا اور ہمارے ہاتھ سے مشرقی پاکستان چلا گیا اور بنگلا دیش بن گیا۔ سن کر نا صر ف تعجب ہوا بلکہ افسوس بھی ہوا کہ کیا انِ صاحب کو بنگلادیش بننے کے اسباب پتہ نہیں۔ بنگلادیش میں کوئی مذہبی جنونیت کا مسلہ  نہیں تھا۔ بنگلادیش میں کوئی دہشتگرد تنظیمیں قتل و غارت گر ی نہیں کر رہی تھیں۔ بنگلادیش بننے کی وجہ ناانصافی اور ریاستی تعصب تھا۔کسی بھی سیاسی یا جغرافیائی سیاسی مانگ پر چلانے والی تنظیموں اور انکے پیروکاروں کا موازنانہ مذہبی انتہا پسندوں سے نہیں کیا جا سکتا۔یہ مذہبی انتہا پسند  تو پاکستان کے نظام کو ہی  نہیں مانتے ، یہ تو اپنی مرضی کا خلیفہ اور اپنی مرضی کی شریعت پاکستان میں نافظ کرنا چاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کی 19 کروڑ عوام انکے آگے سر جھکادے۔ انِ کا صرف ایک علاج ہے کہ انِ کو بھی اُسی طاقت سے جواب دیا جائے جس کا یہ مظاہرہ کر رہے ہیں اور جس  طاقت سے یہ اپنے عزائم پورے کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام ایک امن پسند مذہب ہے، جو سب کے ساتھ ملکر چلنا   اور رہناسکھاتا ہے ۔ پاکستانی عوام کو بھی دنیا کے ساتھ عزت اور انسانی رشتوں کی بنیاد پر عزت سے رہنا ہے۔ کوئی ملک پاکستان پر زور  و زبردستی نہیں کر رہا  کہ پاکستانی   انکے نظام کو اپنائیں اگر ہم نے کوئی مغرب کا نظام اپنایا ہوا ہے تو یہ ہماری مجبوری ہے ہم چاہیں تو اس سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں مگر اسے کے  لئےمعاشی و دفاعی اعتبار سے خود کفیل ہونا پڑیگا۔ ورنہ جن سے قرضے لیتے ہیں انکی سننی بھی پڑیگی۔

آج اگر پاکستان کو طالبان اور مذہبی جنونیوں سے بچانا ہے اور نا اہل حکمرانوں اور بد عنوان سیاسی مداریوں اور منافق مذہبی ٹھیکیداروں سے جان چھڑانی ہے تو پاک فوج کو ملک کا نظام صرف اور صرف پاکستان اور عوام کے مفاد میں اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا اور پھر ہر اسُ دشمن عناصر سے اسی طرح سے نمٹنا ہوگا جو انکا علاج ہے اور ملک میں عدل و انصاف، برابری، بنیادی حقوق کی آزادی سب کو بلا تفریق دینی ہوگی، پاکستان کو بدعنوانیوں اور بدعنوانوں سے  پاک کرنا ہوگا اور آئین اور قانو ن کو سب سے بالاتر بنانا ہوگا۔ 

Recommended For You

About the Author: Tribune