مسلمان اور مغرب

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء

دوسری جنگِ عظیم کے بعد،امریکہ نے سا ئنس اور تکنیک کے میدان میں منفر د اور بے مثا ل کا میا بیا ں حا صل کیں.آج کل کے سبک رفتار کمپیو ٹر اور وسیع عالمی مواصلا ت وغیرہ نے دنیا کو ایک عا لمی شہر میں تبدیل کر نے اور بنی نوع انسا ن کو غیر تخیلّا تی آسو دگی فرا ہم کر نے کی بدولت امریکہ کو ایک فا خر قوم بنا دی اور امریکہ کو با قی دنیا پر ایک منفرد سبقت دِلا دی ہے. امریکہ نے اپنی سائنسی ترقی کو دنیا میں سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لئے بھی بھرپور استعمال کیا۔ امر یکہ کا آقائی عمل اور فلسطین سمیت بہت سے بین الااقوامی معملات میں صرف اپنا مفاد سامنے رکھنا اور چھوٹے کمزور ممالک کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنے کی پالیسی نے امریکہ کے لئے تیسری دنیا خصوصی طور پر اسلامی ممالک کے عوام میں نفرتیں پیدا کردیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ مستقل دوھرے سلوک کی وجہ سے آج امریکہ اور اس کے قریبی حامی آسٹریلیاء اور برطانیہ کے خلاف بدلہ کی آگ میں مبتلہ انفرادی گروپوں سے پریشان ہیں۔
آج امریکہ اور اس کے آسٹریلیاء سمیت مغربی حمایتی ممالک اندرونی اور بیر ونی طور پر دہشت گرد حملوں کا شکار ہے. ۱۱ ستمبر 2001 کے امریکہ میں حملے کے بعد امریکہ نے اپنی مغربی حامی ممالک خصوصی طور پر برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جنگ لڑ نے کی ایک کڑی مہم کا آغا ز کیا ہے. امریکہ ، برطانیہ اور آسٹریلیا کی اس مشترکہ جنگ کی
انتقا می کار وا ئیو ں کا نشانہ مسلمان ممالک میں موجود مختلف اسلامی گروپ بنے ہیں. آ ئیے ما ضی میں ذرا جھا نکیں اور اس بات کا جا ئزہ لیں کہ مسلما ن امریکی مفا دا ت پر ایسے حملو ں کے کس حد تک ذمہ دار ہیں اور مسلما ن کیو ں امریکی فیصلو ں سے نا خوش ہیں.
ہم جا نتے ہیں کہ توا نا ئی استعما ل کر نے کی مہا رت نے امریکہ کو اس با ت پر مجبو ر کیا ہے کہ وہ اضا فی توا نا ئی کے ذخا ئر کیلئے اپنی جغرا فیا ئی حدو د سے باہر نظر ڈالے. دنیا کے سب سے بڑ ے تیل کے مستعمل ہو نے کی وجہ سے، اپنی تیل کی ضر و ریا ت پو ری کر نے اور آ را م دہ معیا رِ زندگی کیلئے جد ید دور کے سا ما نِ تعیش کے حصو ل کیلئے امر یکہ کو عر ب کی خلیجی ریا ستو ں پر انحصا ر کر نا پڑ تا ہے. اپنے کا رو با ری ادارو ں کو تیل کی مسلسل فرا ہمی کو یقینی بنا نے کیلئے امریکہ کو مختلف ملکو ں سے تجا ر تی تعلقا ت قا ئم کر نے پڑ تے ہیں اور عر ب کے تیل کے ذخا ئر پر اپنی گر فت مضبو ط رکھنے کیلئے اپنے خفیہ خدما ت کے ادارو ں کے ذریعے پہلے سے سو چے سمجھے منصو بوں پر عمل کرنا پڑتا ہے.
صدا م حسین سے لیکر اسامہ بِن لا دین اور طالبا ن تک، تما م بحرا ن امریکہ کے خفیہ تجا رتی معا ہدوں اور اسکے خفیہ خدما ت کے ادا روں کے منصو بو ں کا با لواسطہ نتیجہ ہیں. انسا نی ظلم و جبر کی ہر بد قسمت داستا ن کے پیچھے، کسی نہ کسی طرح سے امریکی مفا دا ت دفن ہیں جو کہ ہر کمزور کو امریکی طا قت کے رحم و کرم پر ڈال دیتے ہیں. افسو س کا مقا م یہ ہے کہ ایسے تما م مظا ہر مسلم دنیا کی میراث ہیں. اور یہ ان خا ص وجو ہا ت میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے مسلما ن با ا لعموم آسٹریلیاء، مغر بی دُنیا اور با ا لخصو ص امریکہ کیلئے غم و غصے کے جذ بات اور غیر دوستا نہ رویہ رکھتے ہیں. مسلما نو ں کی کثیر تعدا د امریکہ کو اپنا دشمن سمجھنے کی بجا ئے امریکہ کی مسلما نوں پر ظالما نہ کار وا ئیوں کی وجہ سے اس کے خلاف انتقا می احسا سا ت رکھتی ہے. دلچسپ با ت یہ ہے کہ یہ قد ر تی رویہ صر ف مسلما نوں تک ہی محدود نہیں ، بلکہ تیسر ی دُنیا کے غیر مسلم مما لک بھی امریکہ کے خلا ف ایسے ہی نفر ت کے جذ با ت رکھتے ہیں.آج نفرت کے اس دائرے میں امریکہ ہی نہیں بلکہ امریکہ کا ساتھی ہونے کے ناطے آسٹریلیا ، جوکبھی ایک غیر سیاسی اور غیر جانبدار ملک سمجھا جاتا تھا ، بھی شامل ہے۔
اگر ہم تا ریخی تنا ظر میں اس با ت کا جا ئزہ لیں تو ہمیں معلو م ہو گا کہ یہ حا لا ت پچھلے چند سا لوں یا دہا ئیو ں کی پیدا وار نہیں ہیں. پہلی جنگِ عظیم میں مسلما نو ں پر ظلم و ستم،دوسری جنگِ عظیم کے دو ران مسلما نوں کا خو د غر ضا نہ مقا صد کیلئے استعمال، سلطنتِ بر طا نیہ کے ہا تھو ں برِ صغیر پا ک و ہند میں مغل با دشا ہوں اور ترکی میں خلا فتِ عثما نیہ کی شکست، عر ب علا قوں پر قبضہ اور فلسطینیو ں کا پا نچ دہا ئیو ں تک جا برا نہ استحصا ل، انڈو پاک تنا ز عے میں پچا س سا لہ مسئلہ کشمیر پر اقوا مِ متحدہ کی قرار دا دوں سے چشم پوشی، اقوا مِ متحدہ کے زیرِ سا یہ بو زنیہ اور کو سو و وکے مسلما نو ں کا نسلی صفا یا ؛ یہ سب مہذ ب اتحا دیو ں کے ہا تھو ں مسلما نو ں کے استحصا ل کی نفر ت انگیز دا ستا ن کے صر ف چند شہ پا رے ہیں. مسلما ن اقوا م اِ ن خو ن ریز تنا ز عو ں کو مغر بی دُنیا کی تقسیم کر و اور حکو مت کر و کی حکمتِ عملی کے حوا لے سے دیکھتے ہیں. پچھلے پچا س سا لو ں میں مسلما نا نِ عا لم بد تر ین انسا نی حقو ق کی خلا ف ور زیو ں کا نشا نہ بنے رہے ہیں جو کہ کسی بھی طر ح سے ریا ستی دہشت گردی سے کم نہیں تھا. عا لمی سطح پر مسلما نو ں کو اپنے خلا ف مسلسل بے رحما نہ کا ر وا ئیو ں کا سا منہ رہا ہے. ا ن تما م وا قعا ت نے نہ صرف مغر بی دُ نیا اور مسلما نو ں کے درمیا ن بلکہ مشر ق اور مغر ب کے درمیان خلا کو بھی وسعت دی ہے۔.
مغر بی دُ نیا کا سر ما یہ دا را نہ نظا م کا تصّور اسلام کے بنیا دی اصو لو ں کے با لکل متضاد ہے. اگر ایک طرف ما دیت پرست دُ نیا اور اُسکے عرب پتی سر ما یہ دا را نہ نظا م کے بل بو تے پر کا میا بی سے ہمکنا ر ہیں ، تو دوسری طرف اسلا م روزِ اوّل ہی سے مفلسوں، تنگ دستو ں اور مظلو مو ں کا پسند یدہ عقیدہ رہا ہے. در حقیقت، اگر مغرب سے موا زنہ کیا جا ئے تو اسلام کا فروغ مشر ق میں ذیا دہ تر تیسری دُنیا کی اقوا م میں ہوا . حتی کہ یو رپ میں بھی اسلا م کا فروغ معا شر ے کے نچلی سطح کے طبقو ں اور افرا د میں ہوا.
ْآج مسلما نا نِ عا لم مسلم دُنیا کے ہر سیا سی اور جغرا فیا ئی تنا ذعے میں واضح طور پر امریکہ کا بالواسطہ اور بلا واسطہ کردار دیکھ سکتے ہیں. عرب زمین پر اسرا ئیل کا قیا م اور فلسطینیو ں کے حقو ق سے چشم پوشی ، مقبو ضہ کشمیر میں مسلسل ہندو ستا نی ظلم و ستم، مشر قِ وسطی میں تیل کے ذخا ئر پر اپنی مکمل گرفت کیلئے مستقل امریکی اڈو ں کا قیا م، کبھی نہ ختم ہو نے والی عرا ق پر معا شی پا بندیا ں جو کے ہر سا ل ہزا رو ں بچو ں کو موت کی نیند سلا رہی ہیں، روسی فو جو ں کے ہا تھو ں چیچنیہ میں مسلما نو ں کا قتلِ عا م، افغا نستا ن میں سو ویت یو نین کے اخر اج کے بعد طو طا چشمی کی حکمتِ عملی جو کہ ہزا رو ں جا نو ں کے ضیا ع کا با عث بنی، بو زنیا میں مسلما نوں کا نسلی استحصا ل اور اسی طر ح کے دوسرے بے شما ر وا قعا ت میں مسلما نوں پر ظلم و ستم کا امریکہ کو ذمہ دار ٹھہر ا نے اور امریکہ کو اپنی انتقا می کا روا ئیو ں کا مرکز بنا نے میں مسلما نِ عا لم نے اپنے آپ کو حق بجا نب سمجھا . اب سوا ل یہ پیدا ہو تا ہے کہ امریکہ کیو ں اپنے آپ کو دُنیا کی سب سے بڑی قو م یعنی مسلمان کے خلا ف ہر تنا زہ میں ملو ث کر رہا ہے؟ اس کا جوا ب بہت آسا ن ہے. اول تو امریکہ اپنی تیل کی ضرو ریا ت کو پو را کر نے کیلئے تیل کی مسلسل فرا ہمی چا ہتا ہے جس کے ذخا ئر ذیا دہ تر مسلما نو ں کے قبضے میں ہیں اور دوئم امر یکہ غیر معمو لی طا قت کی حیثیت سے اپنی بقا کے خلاف اسلا م کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے. اس مقصد کے حصول کیلئے امر یکہ کی یہ دیرینہ خوا ہش ہے کہ وہ ایک طرف تو تیل کے تما م ذخا ئر پر اپنی گرفت مضبو ط رکھے اور دوسری طرف مسلما نا نِ عا لم کی سر گرمیوں پر بھی کڑی نظر رکھے. علا وہ ازیں، امر یکہ مسلم مما لک کے سا تھ اپنے تعلقا ت میں دوغلی حکمتِ عملی اپنا ئے ہو ئے ہے. امر یکہ کیلئے درست اور غلط کا تصّور اپنے مفا دات تک محدود ہے جو کہ وقت کے سا تھ بد لتے رہتے ہیں. امریکہ اور مسلم مما لک کے درمیا ن پُر امن اور خو شگوار تعلقا ت اُ س وقت تک استوار نہیں ہو سکتے ، جب تک امر یکہ اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے دُنیا میں اور خا ص طور پر مسلم مما لک میں اپنی سیا ست کا دوھرہ کھیل بند نہ کرے. امر یکہ صرف اپنی غلط خا ر جہ حکمتِ عملی کی و جہ سے دہشت گردی کی سر گر میو ں کا مرکز ہے جس کا خمیازہ اس کے حامی ممالک آسٹریلیا اور برطانیہ کو بھی اٹھانا پڑھ رہا ہے. جب تک امر یکہ عا لمِ اسلا م کے حقیقی اندیشو ں کی اس بنیادی وجہ کا حل نہیں نکا لے گا ، اس وقت تک دہشت گردی کے سا ئے اسی طرح امر یکہ اور اس کے مغربی ساتھی ممالک پر لہرا تے رہیں گے. اس حقیقت سے ِ انکا ر نہیں ہے کہ ۱۱ ستمبر کا حا دثہ امریکی تا ریخ کا بد ترین سا نحہ تھا، جس میں تین ہزار سے سے زا ئد معصوم انسا نی جا نیں ضا ئع ہوئیں. مگر یہ بھی سچ ہے کہ تا ریخِ عا لم میں اس طرح کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے. جہا ں تک انسا نی جا نو ں کے ضیا ع کا تعلق ہے، بو ز نیا ، کو سو وو، ویت نام، کمبو ڈیا، لا ؤ س،ایل سلوا ڈور، نکا را گووا، ہیرو شیما اور نا گا سا کی میں اس سے زیا دہ جا نیں ضا ئع ہو ئیں.
ٖپا کستا ن میں سابق امریکی سفیر ، را بر ٹ مِلام، کے بقول ؛ دہشت گرد وہ لوگ ہیں جن کے پا س بہت کم عوا می اور اخلا قی مدد ہو تی ہے اور وہ سیا سی عمل کے ذریعے اپنے مطا لبا ت نہیں منوا سکتے؛ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ بے مددتو تھے انڈو نیشین فوج کے وہ سپا ہی جنہو ں نے ۱۹۶۵ء میں امریکہ کی سر پر ستی کے ذریعے سو ئیکا رنو کی حکومت کا تختہ اُ لٹا تھا. جب وہ بر سرِ اقتدا ر تھے، تو امریکی سفیر ، مارشل گر ین، نے انہیں پا نچ ہزار اہم سیا سی مخا لفو ں کی فہر ست فرا ہم کی. ۱۹۹۰ء میں پہلی دفعہ سی آئی اے نے اس با ت کا انکشا ف کیا کہ فو ج نے ان سب کو ہلا ک کر دیا تھا. را بر ٹ جے ما ر ٹن ، جنہو ں نے امریکی سفا رت خا نے کے سیا سی حصے میں خدما ت سر انجام دیں، بیا ن دیا کہ امر یکی سفیر نے جو فہرست فرا ہم کی تھی، اس کو فو ج کی ایک بہت بڑی مدد قرار دیا گیا تھا. جب انڈو نیشین آرمی نے ان سیا سی حر یفو ں کو ختم کر دیا ، تو امر یکی سفا رت خا نے نے اس با ت کو یقینی بنا نے کیلئے کہ ان کا مکمل خا تمہ ہو گیا ہے ان کے نا موں کی با قا عدہ جا نچ پڑ تا ل کی. کیا تا ریخ کی یہ سب سے بڑی سیا سی خو ن ریزی امریکی پشت پنا ہی اور مدد سے کی گئی دہشت گردی کے ذمرے میں نہیں آتی، جس میں وہ مقا صد تشدّ د کے ذریعے حا صل کئے گئے جو کہ عوامی اور اخلا قی مدد سے نا ممکن تھے۔.
دہشت گردی کی تعریف کے مطا بق، کو سو و و میں امریکہ کی سر پر ستی میں فو جی عمل ایک مکمل دہشت گردی کے ذمرے میں آ تا ہے اور اس میں ان مقا صد کو بڑی منصو بہ بندی کے ذریعے حا صل کیا گیا جو کہ سیا سی عمل اور عوامی اور اخلا قی مدد کے ذریعے نا ممکن تھے. اگر یہ ایک دہشت گردی کے خلا ف جنگ تھی تو ایسی جنگ کا آغا ز روس کے خلا ف کیو ں نہیں کیا گیا جس نے چیچنیا میں اس سے ذیا دہ سنگین تبا ہی اور قتلِ عا م کیا یا پھر کشمیر میں ہندو ستا نی ظلم و جبر کے خلا ف. اور پھر آج جو بے گناہ عراقی اپنے مارے جا رہے ہیں انہیں کس زمرے میں شمار کیا جانا چاہیے ۔ ا مریکہ دہشت گردی کے خلا ف جنگ کا دعو ی کر تا ہے. تو پھر وہ ایل سلوا ڈور میں اور گو ئٹے ما لا میں کس کی پشت پنا ہی کر رہا تھا؟ قا تلا نہ اور دہشت گرد ریا ستیں جو کہ امریکہ کی فو جی پشت پنا ہی سے عمل میں ہیں، ان کو جمہو ری سمجھا جا تا ہے۔ لو گو ں کو مار نے کیلئے اپنی مر ضی کے مطا بق بم گرا نا اورعوا م کو خو ف و ہرا س کا نشا نہ بنا نا ، کیا دہشت گرد ی کے ذمر ے میں نہیں آتا؟ مثا ل کے طور پر، اسر ا ئیل کی لبنا ن میں سر گر میا ں، اسکی تیو نس میں پی ایل او کے صدارتی مر کز اور عرا قی ایٹمی تنصیبا ت پر بمباری اور امریکہ کی ایک چھو ٹے کمبو ڈین علا قے پر اندھا دھند بمبا ری جس نے دوسر ی جنگِ عظیم کے دور ا ن بمبار ی کو بھی پیچھے چھو ڑ دیا ، کیا دہشت گر دی نہیں ہے۔.
کیا کسی ملک کی تما م آباد ی کو مجبور کرنا، خوا تین اور بچے جو ایک طویل عر صہ سے بھوک اور بیما ری کا شکا ر رہیں جیسا کہ عرا ق میں ہو رہا ہے ، کسی سو چے سمجھے منصو بے کے مطا بق اپنے مقا صد حا صل کر نے کے مترا دف نہیں ہے جو کہ اس خو فنا ک لیکن یقینی خو ن ریزی کے بغیر نا ممکن تھا؟ اس بات کا بہت کم امکا ن ہے کہ امریکہ جنو بی ویت نا م اور ڈومینیکن جمہو ریہ میں حملے،تبا ہی اور قتلِ عا م کو دھشت گردی کا نام دے. کیا کمبو ڈیا اور لا ؤ س میں سو چے سمجھے منصو بے کے تحت خو ن ریزی اور تبا ہی امریکی انتظا میہ کی نظر میں دہشت گردی نہیں ہے؟
دنیا میں سی آئی اے کی زیرِ نگرا نی ہو نے وا لی تما م کار وا ئیا ں، کرائے کے ٹٹو ؤں کی بھر تی، اپنی خفیہ پو لیس تنظیم کی خو ف و ہرا س کے ہتھکنڈوں میں تر بیّت ، لیبیا میں صدا رتی دفا تر پر بمباری، ایر ا نی مسا فر طیا رے کی تبا ہی، عر اق میں اندھا دھند عوامی علاقوں میں فوج کے ذریعے خونریز کاروائیاں سیدھا دہشت گردی کس زمرے میں آتا ہے . انسا نی تا ریخ میں بد ترین غیر انسا نی فعل کا ار تکا ب اس وقت ہوا تھا، جب امر یکہ نے دوسری جنگِ عظیم میں ہیرو شیما اور نا گا سا کی پر ایٹمی بمبا ری کی تھی جس سے پلک جھپکتے ہی لا کھو ں لوگ ہلا ک اور اتنی ہی تعداد میں لوگ معذور ہو گئے تھے. جا پا نیو ں کے خلا ف ایٹمی ہتھیا رو ں کا استعما ل بلا جوا ز تھا، جبکہ وہ پہلے ہی ہتھیار ڈالنے پر آما دہ تھے۔.
کسی نے آج تک اس بات کا ذِکر کرنابھی گوارہ نہیں کیا کہ امریکہ کو ہزاروں ویت نا میوں اور جا پا نیو ں کے قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہرا ئے یا امریکی سپہ سا لا روں کے خلا ف ان کے خلیجی جنگ کے دوران جنگی جرا ئم پر عا لمی عدا لتِ انصا ف میں مقدمہ دائر کیا جا ئے. حتی کہ مو جو دہ افغا ن جنگ کے دو ران، امریکہ کی سر پرستی میں قلعہ جنگی کے مقا م پر چو دہ سو جنگی قیدیو ں کا قتلِ عا م کیا گیا۔.
دہشت گردی کے خلا ف موجو دہ جنگ میں، تما م مہم کو مسلما نو ں کے خلاف سر گر میوں تک محدود رکھا گیا ہے.
اسا مہ اور طا لبان کے ملو ث ہونے کے بار ے میں شوا ہد مکمل طور پر عوام کے سامنے نہیں لائے گئے ۔ کیوں اسا مہ بن لا دین اور صدا م حسین ہی کو نشا نہ بنا یا گیا ہے؟ ان کے درمیان بہت مما ثلت ہے. مثا ل کے طور پر، دو نو ں ہی امریکہ کے خو سا ختہ عفریت ہیں اور دو نوں کو مختلف ادورار اور حا لا ت میں سی آئی اے مکمل مدد اور پشت پنا ہی فرا ہم کر تی رہی ہے. صدام حسین تو بش سینئر کا جگری دوست رہا ہے. لیکن پھر حا لات نے پلٹا کھا یا اور وہی صدا م حسین کویت پر حملہ کر نے کے جرم میں سرِ فہر ست تھا. امریکہ نے عر اق کے خلاف ایک اتحاد بنایا ، سعو دی عرب اور دوسرے مسلم ملکو ں کو استعمال کیا اور عرا ق پر حملہ کر دیا. عرا ق کے عوام اب روزانہ اپنی جانوں کے ذریعے امریکہ پر اعتما د کر نے کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ .
مشہو رِ ذما نہ ضر ب ا لمثل ہے ایک تیر سے دو شکار ، جو کہ امریکہ کے موجودہ کردار پر پوری بیٹھتی ہے. ایک طرف تو وہ ان اسلا می بنیا د پرستو ں سے جو کہ امریکہ کی بقا کیلئے ایک مسلسل خطرہ ہیں اور دوسری طرف وسطی ایشیا میں تیل کے ذخا ئر پر اپنی گر فت مضبو ط کر نا چا ہتا ہے . لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان سارے معاملات میں امریکہ کا رتو مفاد ظاہری طور پر نظر آتا ہے مگر آسٹریلیا ء جیے الگ تھلگ ملک کا اس طرح سے افغانستان کے بعد عراق میں ساتھ دینے کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا سوائے اس کے کہ آسٹریلیا ء ایک اپنی بقا اور بیرونی خطرات سے حفاظت کا صرف ایک حل سمجھتا ہے کہ امریکہ کا کھل کر ساتھ دیا جائے بھلے اس کی قیمت دوسرے ملکوں سے دشمنی پھر ہی کیوں نہ ہو۔
قیا مِ امن ، با ہمی ہم آہنگی اور دہشت گردی کا خا تمہ ہر قو م کا دیر ینہ خو ا ب ہے بشرط کہ ایما ندا ری سے اس جنگ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ ہی کے طور پر لیا جائے نہ کہ اپنے مفا دات کو تحفّظ دلا نے کی مہم۔ آج آسٹریلیاء کو خامخواہ امریکہ اور برطانیہ کی طرح ایک دہشت گردی کا خوف اور گروپوں اور انتہاہ پسند طاقتوں سے ہے جو امریکہ سے تو کی اسباب کی وجہ سے بدلہ کی آگ رکھتے تھے مگر آسٹریلیا ء کے دشمن کبھی بھی نہیں رہے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune