عمران خان اور ڈاکٹر قادری صاحب کے لئے فیصلہ کن گھڑی آن پہنچی

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا؛

culture-of-corruption-in-pakistan-politicsڈاکٹر علامہ  طاہر القادری  کا انقلاب مارچ اور عمران خان کا آزادی   مارچ کے  سلسلے میں جاری  دھرنوں  کے ہر گزرتے لمحات کے ساتھ وہ تما م سیاسی اور مذہبی جماعتیں جوtalaba-Ijtima_2011_34 پاکستان میں رائج بدعنوان نظام کا حصہ ہیں اور جنہوں نے پاکستان میں پچھلی پانچ دھائیوں میں  فرقہ، زبان، صوبہ  اور مقامی قومیت کی سیاست کو پروان چڑھایا  اور حقوق، جمہوریت اور آزادی جیسے  الفاظ کو صرف اور صرف اپنی  ذاتی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا  آج سب تیزی  اپنے نظام کو بچانے میں سے سرگرمِ عمل  ہیں۔ آصف علی زرداری  صاحب جو صدارت ختم ہونے کے بعد اپنا زیادہ وقت دبئی کے محل میں گزارتے ہیں اپنے بیتے اور حواریوں سے ساتھ پاکستان پہنچ چکے ہیں اور نواز شریف کے رائونڈ محل میں ایک مرتبہ پھر جوڑ توڑ کی سیاست چمکانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ الطاف حسین  صاحب لندن بیٹھ کر کچھ لو اور دو کے فارمولے پر عمل کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی جس نے پاکستان میں ہمیشہ مفافقت کی سیاست کی ہے خیبر پختوں خواہ میں اپنی تھوڑی بہت حاکمیت کو بچانے میں سرگرم ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے ایک مرتبہ پھر فرقہ واریت کی بنیاد پر لوگوں کو سڑکوں پر لانا شروع کر دیا ہے۔غرض کہ ہر وہ سیاسی و مذہبی جماعت جو پاکستان میں موجود کرپٹ حکومتی  نظام کا حصہ رہے ہیں آج اس نظام کو بچانے میں متحد نظر آتےہیں۔ نواز شریف جن کو پہلے کبھی باقاعدگی سے قومی اسمبلی  کے  اجلاس میں حاضر ہونے کا خیال نہیں آیا اور جنہوں نے صرف اور صرف بیرونی دوروں اور  وہاں تجارتی محاہدوں کے علاوہ کچھ نہیں  کیا آج قومی اسمبلی میں بیٹھ ہر ان ہزار عورتوں اور مردوں کو ذلیل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں جو باہر کھلے آسمان کے نیچے پاکستان میں تبدیلی کی جنگ لڑنے   کے لئے جمع  ہیں۔

 انِ حالات میں اب اصل امتحان عمران خان اور ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کا ہے جنہوں نے بلاشبہ  اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں لوگوں کو عورتوں اور بچوں سمیت دارالخلافہ کے مرکز میں جمع کرنے میں ناصرف کامیاب ہوگئے بلکہ پچھلے دس روز سے  یکجا کئے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب انکے مخالفین  جو پاکستان کے بدعنوان نظام کو بچانا چاہتے ہیں اور جو اسِ نظام کو بڑی بدکرداری سے جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا نام دیتے ہیں اپنی  پوری  میں کوشش  میں ہیں  کہ  عمران خان اور قادری صاحب کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا جائے۔ آج عمران خان اور طاہرالقادری اور انکے ساتھیوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر ان کے مطالبات بات چیت اور سیاسی لین دین سے ہی حل ہونے تھے تو پھر اتنی بڑی جہدوجہد کی کیا ضرورت تھی۔ اگر عمران خان اور طاہرالقادری نے ان سیاسی مداریوں سے جو آج سب متحد ہیں بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا اور کسی طور اپنی بنیادی مانگ سے پیچھے ہٹے تو میری یہ عبارت ثابت کریگی کہ پاکستان میں پھر یہ بدعنوان ٹولہ عمران خان اور طاہرالقادری کے خلاف ایسی مہم شروع کریگا کہ شاید عمران خان اور طاہرالقادری  کی سیاسی  جماعتوں کے اپنے کارکن  انکا ساتھ چھوڑ دیں۔

آج عمران خان اور طاہرالقادری کا ہر گزرتا لمحہ بہت نازک اور قیمتی ہے اور انکی سیاسی قسمت کا فیصلہ کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ دوسری جانب  نہ  صرف نواز شریف برادران بلکہ اسِ سارے کرپٹ نظام کے کھلاڑیوں کو یہ ٹورنامنٹ جیتا سکتا ہے۔ عمران خان اور طاہر القادری کو یہ سوچنا چاہیے کہ کھلے آسمان کے نیچے بارش  جیسے موسم میں کب تک یہ قائدین ہزاروں لوگوں کو لیکر بیٹھے رہ سکتے ہیں کیونکہ دوسری طرف سیاسی مداریوں کو لمحہ با لمحہ موقع ملِ رہا ہے کہ وہ اپنے کھیل کو عملی جامع پہناتے رہیں۔ لحاظہ طاہرالقادری صاحب اور عمران خان کو آج فیصلہ کرنا ہوگا کہ اب انہوں نے آگے ایوانوں کی طرف مارچ کرنا ہے یا پھر گھروں کی طرف لوٹ جانا ہے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune

Comments are closed.