;سید عتیق الحسن، سڈنی، آسٹریلیا
کاربن ڈائی آکسائیڈ جسے عام طور پر گرین ہاؤس گیس کہا جاتا ہے، زمین پر زندگی کے لیے اہم ہے لیکن فضا میں کاربن کا زیادہ اخراج گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہا ہے، جس کے نتیجے میں قدرتی ماحول پر بہت دور رس نتائج مرتکب ہو رہے ہیں۔ صنعت کاری کے آغاز سے، جب سےکاربن سے بھرپور ایندھن جیسے کوئلہ، گیس اور تیل کے وسیع ذخیرے صنعتی عمل میں استعمال ہونے لگے، کرہ ارض کا درجہ حرارت خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا بھر میں سمندری طوفان، طوفانی بارشیں اور بڑے بڑے جنگلات آگ کا شکار ہو رہے ہیں ۔ بہت سی چھوٹے چھوٹے جزیرے والی اور ساحلِ سمندر پر آباد شہر تباہی کے دہانے پر ہیں ، بتدریج سمندری سطح میں اضافے سے پیدا ہونے والے سونامی ا ور سمندری طوفانوں سے چھوٹی چھوٹی آبادیاں صفہ ہستی سے مٹتی جا رہی ہیں۔
انسان کی جدید ترقیوں اور صنعتکاری کے نتیجہ میں جو ماحولیات کے منفی اثرات عالمی سطح پر زمین کے ماحول اور ہوا میں پھیل رہے ہیں اسکے ذمہ دار بھی خود انسان بالالخصوص ترقی یافتہ ممالک ہیں ۔ جو جتنا بڑا صنعتی ملک ہے وہ اتنی ہی زیادہ کاربن کا فضا میں اخراج کر رہا ہے،جیسا کہ چین (28٪)، امریکا (15٪)، ہندوستان (7٪)، روس (5٪)، اور جاپان (3٪)، اس کے بعد جرمنی، ایران، جنوبی کوریا، سعودی عرب، انڈونیشیا، کینیڈا، میکسیکو، جنوبی افریقہ، برازیل، ترکی، آسٹریلیا، برطانیہ، پولینڈ، اٹلی، اور فرانس ، وہ ممالک ہیں جو دنیا کے کاربن اخراج کا 1% سے 3% پیدا کرتے ہیں۔ . باقی ممالک دنیا کے کاربن کے اخراج میں 21 فیصد حصہ ڈالتے ہیں۔ بلاشبہ، کیونکہ کاربن کے اخراج میں نمایاں اضافہ پچھلے ڈھائی سو سال سے شروع ہونے والے صنعتی انقلاب کے ساتھ شروع ہوا ہے، بہت سے ممالک جیسے کہ برطانیہ میں کاربن کے اخراج کی تاریخی سطح اس مقدار سے زیادہ ہے جو وہ آج پیدا کررہے ہیں۔ اس سارے منظر نامہ نے انسانوں اور کرہ ارض پر موجود تمام جانداروں کے لیے ایک بحران پیدا کر دیا ہے۔
عالمی ماحولیات کے بحران، زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو روکنے اور کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لئے سب سے پہلے ۱۹۹۵میں ایک عالمی کانفرنس اقوام متحدہ کے زیر احتمام جرمنی کے شہر برلن میں منعقد ہوئی، جسے کانفرنس آف دی پارٹیز (کوپ) کہا گیا۔ یہ کانفرنس ہر دوسال میں دنیا کے کسی بھی بڑے شہر میں منعقد کی جاتی ہے جس میں دنیا کے ممالک کے سربراہان، ماحولیات کے شعبہ سے منسوب سائنسدان، اور عالمی مہم ساز ، منصوبہ بندی کے ماہرین اور بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کے مالکان شریک ہوتے ہیں۔
اس سال اس کانفرنس کا چھبیس واں اجلاس (کوپ ۲۶) ۳۱ اکتوبر سے ۱۳ نومبر کو اسکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں منعقد ہوا ۔
کانفرنس میں 200 ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، برازیل، آسٹریلیا، کینیڈا اور بھارت کے کینیڈا سمیت اہم ممالک کے سربراہان نے شرکت کی ۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو محسوس کرنے والی ریاستوں کے نمائندوں نے زمین کو بچانے کے لیے درکار فوری اقدام پر جذباتی انداز میں متاثر کن تقاریر کیں ۔
مہمان خصوصی، سر ڈیوڈ فریڈرک ایٹنبرو کے وکیل اور فطرت و موسمیاتی تبدیلی پر سیکڑوں دستاویزی فلموں کے پروڈیوسر، نے اپنے شاندار خطاب سے سامعین کو سکتے میں کر دیا جب انہوں نے کہا کہ وہ دیکھ رہے ہیں کسِ طرح انسان نے اس زمین سے فوائد اٹھائے ہیں اور اس پاک و صاف زمین میں آلودگی پیدا کی ہے، آج یہ زمین ہم سے بدلہ لینے کے لئے تیار ہے۔ اگر زمین نے ہم سے بدلہ لیا تو اس کرہ ارض پر کوئی جاندار نہیں بچے گا۔ انہوں نے کہا کہ قدرت کے ذریعے زمین نے ہمیں ناقابل بیان خوبصورتی، خوراک، ہوا، پانی، گرم اور سرد موسم، صحرا، خوبصورت ساحل اور سمندر کے گہرے خزانے، برف سے ڈھکے بلند و بالا پہاڑ اور پینے کے پانی کے لیے طویل دریا دئیے مگر ہم انسانوں نے بدلہ میں زمین کو کیا دیا؟ آلودگی، بڑھتا ہوا درجہ حرارت، اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔ آج، جس سرزمین پر ہم رہتے ہیں وہ ہم سے پوچھ رہی ہے: ‘میرے ساتھ کیا گیا اور کیوں کیا گیا صرف اور صرف انسانون نے اپنے مفاد کے لئے میرے اندر موجود ذخائر کو بے دردی سے استعمال کیا۔ ایٹنبرو نے کہا اس زمین نے ہمیں برف سے ڈھکے اونچے پہاڑ اور آئینے کی طرح چمکتے صاف سمندر دئیے لیکن تم انسانوں نے اسِ زمین کو کیا دیا؟ آج یہ زمیں ہم سے سوال کر رہی ہے!کیا تم انسانوں کو زمین پر زیادہ زندہ رہنے کا حق ہے؟ نہیں، آپ کا کوئی حق نہیں ہے اور میں (زمین) آپ سے یہ حق چھین لوں گی اگر آپ اپنی مفاداتی ترقی کے نام پر مجھے اور میری (زمین) کی حفاظت نہیں کر سکتے تو تم انسانوں سے بدلہ لینے کا میرا پورا حق ہے۔ ۔” ایٹنبرو نے کانفرنس میں کہا، آج ترقی یافتہ ممالک اور انکے پیچھے پیچھے ترقی پذیر ممالک زمین سے کوئلہ، تیل ، گیس اور دوسری معدنیات نکالنے میں مصروف ہیں۔ یہ معدنیات ہم بڑی صنعتوں کو چلانے اور دنیا میں آمد و رفت کے لئے جہاز سے لیکر کاروں استعمال کر رہے ہیں مگر یہ نہیں سوچ رہے آخر یہ کب تک چلے گا۔ آج اس صنعتوں سے عالمی طور پر اتنا زیادہ کاربن فضا میں چھوڑا جا رہا ہے کہ اب انسانوں کا شہروں میں سانس لینا مشکل ہو گیا ہے۔ انسانوں میں مہلک بیماریاں خاص طور پر پھیپڑوں کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
سر ڈیوڈ نے عدم مساوات کا مسئلہ بھی اٹھایا، کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں جن لوگوں نے اس مسئلے کو پیدا کرنے کے لیے کم سے کم کام کیا ہے وہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جب کہ طاقتور اور ترقی یافتہ ممالک کرہ ارض کی تباہی کی قیمت پر زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
کا مقصد کاربن کے اخراج کی روک تھام اور زمین کے درجہ حرارت کو کم کرنے کے لئے ایک عالمی محاہدہ کرنا تھا جس پر تمام ممالک کو دستخط کرنے تھے۔ حالانکہ COP26
پچھلے 25 اجلاسوں میں یہ ہی ایجنڈا لایا جا رہا ہے مگر اسِ کانفرنس تک تمام ممالک کسی ایک محاہدہ پر یکجا نہیں ہو سکے۔ اجلاس میں عالمی رہنماؤں نے خطاب کیا، اور عالمی موسمیاتی تبدیلیوں اور کاربن کے اخراج سے ہونے والی تباہی کی کہانیاں سنائی گئیں، اور کاربن کے اخراج کو روکنے کے لیے عالمی منصوبوں پر زور دیا گیا، لیکن کانفرنس کے آخری دن تک کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ اور پھر بھی بھارت سمیت چند ممالک نے حتمی معاہدے کے مسودے پر اعتراض کیا اور پھر اسِ کانفرنس کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے پچھلی کانفرنسوں کی طرح بالآخر ایک مصالحتی محاہدہ پر دستخط ہوئے جس میں کاربن کے اخراج میں کمی لانے، کوئلہ اور گیس کی کانوں کو بند کرنے اور ان سے چلنے والی فیکٹریوں کو جدید ٹیکنالوجی، بجلی اور شمسی توانائی پر تبدیل کرنے کے لئے ہدف مقرر کرنے کے لئے ہر ملک کام کریگا جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا۔
اور اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ کرونا وائرس کی عالمی وباکی وجہ سے ماحولیات پر کام نہیں ہو سکا اور نہ ہی پچیسویں کانفرنس میں کئے جانے والے وعدوں کو پورا نہیں کی جا سکا۔
افتتاحی تقریب میں آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، لیبیا، لکسمبرگ، جمیکا، یونان، بنگلہ دیش، سویڈن، فلسطین، ایسٹونیا، فجی، سلووینیا، اسرائیل، جمہوریہ چیک سمیت دیگر ممالک کے سربراہان کی تقاریر ہوئیں۔ انٹیگوا اور باربوڈا، تھائی لینڈ، سوڈان، نیپال، موریطانیہ، ویت نام، جارجیا، لیسوتھو، بیلیز، پولینڈ، بھارت، آسٹریا، نیدرلینڈز، قازقستان اور مراکش۔ کانفرنس کے دوسرے اور تیسرے دن پچاس سے زائد چھوٹے اور اہم ممالک کے سربراہان مملکت نے بھی شرکت کی۔
اس کانفرنس سے ساحلی ممالک اور جزائر کے نمائندوں نے بھی خطاب کیا جن کے وجود کو موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرہ لاحق ہے جیسا کہ مالدیپ، بنگلہ دیش، گیانا، تووالو، بارباڈوس اور ساموا نے بھی کانفرنس سے خطاب کیا۔ ان ممالک کے رہنماؤں نے جذباتی طور پر اپنی آوازیں بلند کیں اور ترقی یافتہ اقوام سے اپیل کی کہ وہ انہیں بچائیں، دنیا پر زور دیا کہ وہ سن لیں اس سے پہلے کہ یہ ممالک بڑھتے ہوئے سمندروں میں ڈوب جائیں، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے خشک سالی اور آگ کا سامنا کرنے والے ممالک کے نمائندوں نے بھی عاجزی کے ساتھ معاشی طور پر طاقتور ممالک سے بغیر کسی تاخیر کے ان کی مدد کرنے کی اپیل کی۔
موسمیاتی تبدیلی کی مہم چلانے والوں کا کہنا تھا کہ دنیا کے امیر ترین اور ترقی یافتہ ممالک اپنے ذاتی مفادات کے لیے اس زمین کو تباہ کر رہے ہیں جس پر ہم رہ رہے ہیں اور جس کی برکات ہم ہزاروں سالوں سے مزے کر رہے ہیں۔ لہٰذا، جن قوموں نے کوئلہ، گیس، تیل اور دوسری معدنیات کے استعمال سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے، ان کا فرض ہے کہ وہ فوری کارروائی کریں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں صنعت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے نام پر زمین سے کوئلہ، گیس، تیل نکال کر دولت مند ہو گئی ہیں۔ انہوں نے اپنے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا ہے اور خود کو بھاری قیمت پر امیر بنایا ہے۔
دو سو سال پہلے تک زمین کا درجہ حرارت ہر سو سال بعد نصف ڈگری بڑھتا تھا لیکن اب ہر بیس سال بعد نصف ڈگری بڑھ رہا ہے۔ اگر درجہ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو 2030 تک بہت سے جزیرہ نما ممالک سمندر کی نظر ہو جائیں گے کیونکہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے اونچے اونچے پہاڑوں اور ایٹلانٹیکہ میں برف مسلسل پگھل رہی ہے۔ دنیا کے دس بڑے ممالک ساحل پر واقع ہیں۔ ان ممالک کو سمندری طوفان اور سونامی کا خطرہ ہے۔ آج، ساموا، مالدیپ، بارباڈوس، اور بہت سے جنوبی امریکی جزیروں کو وجو کو خطرہ لا حق ہے۔ موسمیات کی تبدیلی اور درجہ حرارت میں کمی لانے کے لئے عالمی مہم چلانے والوں نے کہا کہ ہم زمین سے کوئلہ اور گیس نکالنے پر کب پابندی لگا سکیں گے؟ ہم کب کوئلے اور گیس کو بطور ایندھن بند کر کے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی طرف رجوع کر سکیں گے؟
آج بھارت، امریکہ، چین، جاپان اور روس، کاربن کے دنیا کے پانچ سب سے بڑے اخراج کرنے والے ممالک، ان سوالات کے جوابات دینے کے معاملے میں اب بھی ایک صفحے پر نہیں ہیں۔ آج کاربن کا اخراج کرنے والے بڑے ممالک کاربن کے اخراج کو صفر تک لانے کے اہداف کیوں نہیں طے کر سکتے؟ آج کانفرنس میں شریک دو سو ممالک کے نمائندے اس بات پر متفق ہوں اور ایک عالمی ایگریمنٹ پر دستخط کرین کہ کوئلہ کے استعمال کو سلسلہ دنیا سے ختم کیا جائے گا اور ۲۰۳۰ تک زمین کے درجہ حرارت کو ایک اعشاریہ پانچ فیصد سے زیادہ نہیں بڑھنے دیا جائیگا اور پھر ۲۰۵۰ تک کاربن کے اخراج کو صفر درجہ پر لایا جائیگا۔ لیکن بھارت اور چند دیگر افراد کی مزاحمت کی وجہ سے معاہدے کو تبدیل کرنا پڑا اور ایک ٹھوس موقف کی بجائے کانفرنس کے مشترکہ ایگریمنٹ میں مصالحتی زبان استعمال کی گئی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیریس نے عالمی رہنماؤں کو کئی تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک بین الاقوامی فنڈ بنانے کی ضرورت ہے اور ایسے ممالک کو فنڈ دینے کی ضرورت ہے جو فوری طور پر اپنی صنعت کو کوئلہ ، گیس اور پیٹرول سے بجلی ، شمسی توانائی اور جدید انرجی پر تبدیل کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ تمام معاشی طور پر طاقتور اور امیر ممالک کو کھلے دل سے آگے آنا ہوگا اور غریب ممالک کو اسِ مشترکہ ایجنڈے پر عمل کرانے میں مالی مدد کرنی ہوگی۔
جب کانفرنس کا مشترکہ بیان اپنے آخری مراحل میں تھا، ہندوستان نے کوئلہ سے چلنے والی صنعت کو بجلی سے چلنے پر مرحلہ وار ختم کرنے کے عزم کے بیان پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ ہندوستان کی صنعت کوئلے پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ اگر ہندوستان کوئلے کو ختم کرنے کا عہد کرتا ہے تو اس سے ہندوستان کی بہت سی بڑی کمپنیوں پر شدید اقتصادی اثرات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ بھارت نے بالآخر کانفرنس کے ایگریمنٹ میں اس بات پر اتفاق کیا کہ ایگریمنٹ کی تحریر کو تبدیل کیا جائے اور یہ تحریر کیا جائے کہ کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کیا جائے گا جوکہ ماضی کے ہونے والے عالمی محاہدوں میں بھی پہلے سے تحریر تھا۔ بہت سے اہم ممالک اس تبدیلی سے ناراض ہو ئے اور کہا کہ یہ ایک بار پھر چند ممالک کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کانفرنس کا وہ مقصد حاصل نہ ہو سکا جس کے لئے یہ کانفرنس منعقد کی گئی اور ایک بار پھر ہمیں اگلی کانفرنس کی طرف دیکھنا پڑیگا۔
کانفرنس کا افسوسناک پہلو یہ تھا کہ کہ دو سو ممالک کے نمائندے، کسی حتمی معاہدے پر متفق نہیں ہو سکے، نظرثانی شدہ معاہدے کی توثیق کر دی گئی، اور کانفرنس ختم ہو گئی۔
موسمیاتی تبدیلیوں اور کاربن کے اخراج کے خلاف آواز اٹھانے والے بہت سے مہم چلانے والوں نے کو ایک شرمناک کانفرنس قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک عالمی شو ڈاون تھا جسے بہت سے بڑے اور اہم ممالک نے محض ملنے اور جلنے کے موقع کے طور پر لیا ہے۔ بارحال تلخ حقیقت یہ ہی ہے کہ انسان ہی اسِ کرہ ارض پر اپنی بربادی کا ذمہ دار ہوگا۔بدقسمتی سے عالمی ماحولیات کی تبدیلی، کرو ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور فضا میں کاربن کے اخراج کا مسلہ وہیں کا وہیں کھڑا ہے اور یہ زمین رفتہ رفتہ اس طرف کامزن ہے جہاں اس زمین پر آباد تمام جاندار ایک دنِ ختم ہوجائیں گے اور یہ زمین پھر اسی مقام پر پہنچ جائے گی جہاں لاکھوں سے سال پہلے تھی اور بنی نوح انسان اس زمین میں دفن ہو جائے گا۔
سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا