بقلم سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
آج پاکستانی قوم بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے پریشان ہے۔ تمام پاکستان چاہے پاکستان میں ہوں یا بیرونِ ملک بارشوں اور سیلاب کے متاثرین کے لئے چندے جمع کر رہے ہیں۔
کچھ کے لئے تو یہ چندہ مہم سیاست مچکانے اور اپنی ذاتی نمائش کا ذریعہ بھی ہے۔ پاکستان کا خزانہ خالی ہے اور حکومت نا اہلوں، چوروں اور لٹیروں کے ہاتھوں میں قید ہے لحاظہ نا تو سرکاری خزانے میں متاثرین کی مدد کے لئے کچھ ہے اور نا ہی دوسرے ممالک اب معمول کے بھکاریوں کی امداد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان کے برے وقتوں میں کئی دوست اور انسانی ہمدر ممالک نے پاکستان کی بے انتہا مدد کی مگر نا تو وہ امداد پوری طرح سے متاثرین تک پہنچی اور نا ہی پاکستان کے حکمرانوں نے اسُ سے کوئی سبق سیکھا بلکہ متاثرین کے لئے آیا کروڑوں ڈالر چور سیاستدانوں اور حکمرانوں کی جیبوں میں گیا۔
آج ہندوستان کے پاس 5,334 پانی کے ڈیم (ذخائیر) ہیں جو چین اور امریکہ کے بعد پانی کے ذخائیر کی تیسری بڑی تعداد ہے۔ امریکہ میں تقریباً 10,000 پانی کے ذخائیر ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے ہمسایہ ملک چین کے پاس 23,841 بڑے ذخائیر ہیں اور یہ دنیا کے کلُ آبی ذخائر کا 41 فیصد ہے۔ یہاں تک کہ سری لنکا میں 350 بڑے اور 12000 درمیانے اور چھوٹے ذخائر ہیں۔
پاکستان کو بنے ہوئے 75 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ انتہائی شرمناک اور مجرمانہ فیل ہے کہ پاکستان میں صرف 73 آبی ذخائر ہیں۔ یہ شاید واحد ملک ہو جہاں نئے ڈیم بنانے کا نیا منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس پر پاکستان کے چاروں صوبوں کے درمیان سیاست شروع ہو جاتی ہے اور پھر منصوبہ فائیلوں کی نظر ہو جاتا ہے۔
کالاباغ ڈیم پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع میانوالی میں کالاباغ کے مقام پر دریائے سندھ پر ایک مجوزہ ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم تھا، جس پر 50 سال سے زیادہ عرصے سے نسلی اور علاقائی بنیادوں پر شدید بحث ہوتی رہی اور بالآخر یہ عظیم منصوبہ فائیلوں کی نظر ہو گیا۔ اگر یہ عظیم آبی ذخیرہ تعمیر ہو جاتا تو یہ پاکستان کے بہت سے شہروں اور خاص طور پر سندھ کے دیہاتوں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا سکتا تھا، ساتھ ہی اس آبی ذخیرے سے 3600 میگاواٹ بجلی بھی پیدا کی جا سکتی تھی جو پاکستان کی بجلی کی ضرورت کو پورا کر سکتی تھی ۔ اس کے باوجود سندھ اور بلوچستان کے سیاستدان نے اس عظیم منصوبہ پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔ پاکستانی قوم کی بدنصیبی اور تباہی کی ایک مثال ہے ۔ پاکستان میں آج تک بڑے شہروں اور قصبوں کے لئے مستقبل کو سامنے رکھ کر کسی منصوبے کا عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔ اور ہوبھی کیسے جب پاکستان پر مسلحط مافیا کا مقصد صرف اپنا پیٹ بھرنا ہے قوم جائے جہنم میں۔
دنیا ہر سال سیلاب کے متاثرین کے لئے امداد نہیں دے سکتی اور نہ امداد، چندوں اور بھیک پر ریاستیں چلتی ہیں۔ سمندر پار پاکستانی کب تک پاکستان میں متاثرین کی مالی مدد کرتے رہیں گے۔ ہر سال امداد، چندہ اور دوسرے ممالک سے بھیک مانگنا دریاؤں اور نہروں کے کنارے رہنے والے پاکستان کے غریب عوام کو بچانے کا مستقل حل نہیں ہے۔ اس کا واحد حل ہے کہ زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر( ڈیم )بنائے جائیں تاکہ شمال میں پہاڑوں سے آنے والے قدرتی پانی کو پاکستان کی تمام سرزمین عبور کر کے بحیرہ عرب میں جانے کی بجائے ذخیرہ کیا جا سکے اور اسی پانی کو اللہ کی نعمت سمجھ کر آبپاشی کے استعمال کیا جا سکے اور بجلی کے میدان میں پاکستان خود کفیل ہو سکے۔
سندھ اور بلوچستان میں نام نہاد قوم پرست گروہ اور ان کے رہنما کہتے ہیں کہ وہ اپنی جانیں دے دیں گے لیکن کالاباغ ڈیم کبھی نہیں بننے دیں گے۔ اب وہی مضحکہ خیز اور جاہل لیڈر دنیا سے اس وقت بھیک مانگ رہے ہیں کہ ان کی عوام کی مالی مدد کی جائے کیونکہ سندھ اور بلوچستان کے غریب لوگ سیلاب سے مر رہے ہیں اور کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں ۔ اسِ وقت ان متاثرین کے پاس کچھ نہیں بچا ہے کہ وہ زندہ بھی رہ سکیں !
جب تک پاکستان میں مخلص، قابل، محب وطن اور عوام کا درد رکھنے والے قائدین کے ہاتھوں میں حکومت نہیں آئے گی اور پاکستان کی تعمیر و ترقی اور قومی پروجیکٹس کی بنیاد سیاست اور تعصب سے بالا تر ہوکر صرف ملک اور قوم کے مفاد میں مستقل بنیادوں پر نہیں رکھی جائے گی پاکستان اسی طرح سے دنیا میں ذلیل ہوتا رہے گا اور وہ وقت اب دور نہیں کہ پاکستان کا دیوالیہ ہو جائے ۔ پھر دنیا کی طاقتیں پاکستان سے یہ دکھاوے کا نیوکلیر پاور بھی اپنے قبضہ میں کر لیں گی اور ریاست کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیں گی ۔ اللہ انصاف کرنے والا ہے پاکستانیوں کے کرتوت بھی ایسے ہیں کہ انِ کو کوئی حق نہیں کہ وہ سرکاری خزانے کا ساٹھ فیصد سے زیادہ دفاع اور نیوکلر اسلحہ کے پروگرام پر خرچ کریں اور عوام تباہ کاریوں، بھوک و افلاس سے مر رہے ہوں۔
مشرقی پاکستان علیحدہ ہونے کے بعد بھی پاکستانی حکمرانوں نے کچھ نہیں سیکھا۔ آج پڑوسی ہندوستان اور بنگلادیش کی معیشت اور سکہ پاکستان سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ خطہ کے وہ ممالک جنہوں نے ساٹھ اور ستر کی دھائی میں پاکستانی ماہرین بلا کر اپنے ملک میں نئے منصوبوں کی بنیادیں ڈالیں، معیشت کے منصوبے کھڑے کئے مثال کے طور پر ملیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا، متحدہ عرب امارات آج یہ ممالک کہاں کھڑے ہیں اور پاکستان کہاں ہے۔ آج پاکستان کے سربراہاں ممالک سے بھیک مانگنے جاتے ہیں۔ یہ اپنی غلطیوں کا علاج نہیں کرتے اور اللہ کے آسرے پر بیٹھے رہتے ہیں تو اللہ بھی اس قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے لئے کچھ نہیں کرتی۔
سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا