پاکستانیوں! بس اب آپکے لئے ایک انتخاب کرنا رہ گیا ہے!
پاکستان بچانا ہے یا نہیں
;بقلم سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
میں جس محلہ میں حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوا اُس آبادی سے محلک فوجی چھائونی تھی۔ اسِ چھائونی کے علاقے میں میدان بھی ہوا کرتا تھا جس میں ہم تقریباً ہر روز کرکٹ کھیلنے جایا
کرتے تھے۔ یہ ساٹھ کی دھائی کے آخری سال تھے، میں اسُ وقت پرائمری و ہائی اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ فوجی چھائونی میں اکثر فوجی بھائی عوامی تقریبات منعقد کیا کرتے تھے جس میں ہم کبھی کبھی تو گھر پر بتائےبغیر بھی چلے جایا کرتے تھے مگر ہاں چھ ستمبر کو ہر سال ایک بہت بڑا فوجی میلہ سجتا تھا جس میں ہم خاندان کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ اسِ میلے میں فوجی اسلحہ کی نمائش ، فوجی پریڈ اور ۶۵ کی جنگ میں بھارت سے چھینے گئے اصلحہ اور بھارتی فوجیوں کی وردیاں بھی نمائش میں رکھی جاتی تھی۔ ہر شخص فوجیوں کو فوجی بھائی کہ کر مخاطب کرتا تھا۔ ہم سب فوجی بھائیوں کو جہاں کہیں دیکھ لیتے کھڑے ہوکر سلام کرتے اور فخر محسوس کرتے تھے۔
پھر جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی۔ نظریہ پاکستان اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے قول پڑھنے شروع کئے۔ پاکستان میں ہونے والے عوامی مسائل ، قوم کے حقوق، اور اقتدار کی سیاست کا یا تو مطالعہ کیا یا پھر اپنی نو عمری سے لیکر آج تک دیکھنے ، سمجھنے اور اب عمر کے اسِ حصہ میں واقعات کے نچوڑپر تجزیہ کرنے کی صلاحیت اللہ تعالی کے کرم سے پیدا ہوئی ۔میں نے پچھلے چالیس سالوں میں ہزاروں مضامین پاکستان کے قومی و عوامی مسائل، پاکستان کی قومی سیاست اور حکمرانوں کے اقتدار پر مسلحط ہونے پر قلم بند کئے ہیں۔ اپنی کتاب شناخت کے قیدی میں صرف ایک طبقہ کے ساتھ جاری نا انصافیوں کو قلم بند کیا ہے اور پھر اس کو مثال بنا کر پاکستان کے مسائل کا حل اور مستقبل کے بارے میں تحریر کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کتنے لوگوں نے میری تحریری پڑھیں ہیں۔ خیر میرا یہ سب کچھ بیان کرنے کا مقصد اب اسِ کے سوا اور کچھ نہیں بچا بیان کرنے کو کہ آج جو کچھ پاکستان کی سیاست، اقتدار کے ایوانوں، سیاستدانوں اور جرنیلوں کی کارستانیوں اور اسُ پر عوام کا رویہ ، سلوک اور سوچنے کا انداز اور قومی منافقت بام عروج پر ہے۔ میرے نزدیک اس کی صرف وجہ نظریہ پاکستان کو پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد دفن کرنا ہے ۔ مشرقی پاکستان کی عوام کے بنیادی حقوق سے انحراف ، پاکستان میں جرنیلوں کی چند خاندانوں، وڈیروں، چودھریوں اور قبائلی سرداروں کے گٹھ جوڑ سے ملک کے اقتدار پر مستقل قبضہ اور پھر عوام کی منافقت، ذاتی مفاد اور لالچ پر قومی مفاد کو قربان کرنا ہے۔
آج سے پہلے تک ملک میں بدعنوان، بے ایمان، ملک کی دولت لوٹنے والوں اور جرنیلوں کی حکمرانی تھی مگر اب فوج کی عدلیہ اور اقتدار پر کنٹرول اور مجرموں کو اقتدار میں بٹھا کر اپنے بیرونِ ملک آقائوں کے مشن کو پورا کرنا ہے۔ پاکستانیوں! میں اور میرے جیسے سینکڑوں تجزیہ نگار اور صحافی پچھلی کئی دھائیوں سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ اگر ہم نے ہوش کے ناخون نہیں لئے تو پاکستان کا حال شام، عراق، ایران، مصر، اور یمن کی طرح کر دیا جائے گا۔ پاکستانی نوجوانوں!پاکستان میں خونریزی اور پاکستان کو تقسیم کرنے کے پروگرام کو اب مکمل کیا جا رہا ہے، اور یہ سب کچھ پاکستان پر مسلحط کئے جانے والے مجرموں کے ذریعہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جا رہا ہے۔
میرے پیارے پاکستانیوں اب سوال عمران خان کے اقتدار میں رہنے یا نا رہنے کا نہیں بلکہ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم پاکستان کو قائم رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ یہ ہی سوال محب وطن پاکستانیوں نے مشرقی پاکستان میں جاری فسادات اور خون ریزی کے وقت کیا تھا مگر پاکستان پر قابض حکمرانوں نے ایک نہ سنی، کیونکہ اسُ وقت بھی بیرونی آقائوں کا حکم بجا لایا جارہا تھا اور آج بھی لایا جارہا ہے۔ آج بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کے مشن پر کام ہو رہا ہے اور یہ کام پاکستان میں مسلحط کئے جانے والے حکمرانوں سے ہی کرایا جارہا ہے۔ آج ملک دشمن اور بیرونی طاقتوں کے غلاموں کو اقتدار پر بٹھا دیا گیا ہے۔ اسِ سے زیادہ شرم اور بے غیرتی کیا ہوگی کہ آج پاکستان کا وزیر اعظم ایک منی لانڈنر اور کرپٹ ترین شخص ہے اور اسکا وزیر خارجہ ایک ملک دشمن بھارتی ایجنٹ کا ۳۳ سالہ بیٹا ہے۔آج پاک فوج کو گالیاں دینے والوں اور پاکستان سے بھاگے ہوئے مجرموں کو پاکستان کے پاسپورٹ جاری کئے جارہے ہیں اور پاک فوج کے جرنیل انکو سلوٹ کررہے ہیں کیونکہ بیرونی آقائوں کا حکم ہے!
اے اللہ بے شک تو انصاف کرنے والا ہے ، شاید یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ پاکستانیوں نے اپنے بزرگوں کی قربانیوں اور بانی پاکستان کے نظریہ کو دفن کرکے امریکہ اور برطانیہ کی غلامی کو اپنی آزادی اور جان کی امان سمجھ لیا ہے۔ اے اللہ بے شک موت و زندگی اور عزت و ذلت تو بس تیرے ہاتھ میں ہے۔
پاکستانیوں آج بھی اگر آپ نے مصلحت کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کی تو عراق کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ عراق کی دس لاکھ فوج اور سینکڑوں جرنیل کہا گئے؟ آج کہاں گئی وہ فوجی طاقت اور عراقیوں کی حکمرانی۔ آج عراق پر امریکہ کا قبضہ ہے۔ اور اب باری پاکستان کی ہے۔ اگر آج بھی اس چیز کا شکار رہے کہ یہ خراب ہے اور وہ اچھا ہے تو یاد رکھئے نا یہ اقتدار رہے گا، نا یہ سیاستدان اور نا ہی یہ فخریہ فوج اور اسکے ایٹمی اثاثے ۔ اگر ہم نے ان سب کو بچانا ہے اور زندہ قوم بن کر رہنا ہے تو پاکستان کو بچانا ہو گا۔ آپ کو سب پتہ ہے کہ اب آپ کو کرنا کیا ہے، کیونکہ آپ کے پاس اب فیصلہ کرنے کے لئے زیادہ انتخاب نہیں ہے۔ آج صرف ایک چیز کا انتخاب کرنا ہے۔ پاکستان بچانا ہے یا نہیں؟
سید عتیق الحسن سڈنی آسٹریلیا