بقلم سید عتیق الحسن
بالآخر، پی ٹی آئی کی قیادت نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ جعلی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں، اور آج یعنی پندرہ اکتوبر کو ہونے والے ڈی چوک اسلام آباد کے احتجاج کو مؤخر کر دیا ہے۔ یہ بزدلانہ قیادت محض اس وعدے پر راضی ہو گئی کہ عمران خان کو ڈاکٹروں سے ملنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ اب تک یہ بھی واضح نہیں کہ وہ کون سے ڈاکٹر ہوں گے۔ عمران خان کی دو بہنیں، علیمہ خانم اور عظمی خانم، پہلے ہی جھوٹے مقدمات میں جیل بھیج دی گئی ہیں، جب کہ تیسری بہن نورین نیازی کو بھی عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ حیرت ہے کہ یہ بزدل قیادت اس بات پر بھی تیار ہوگئی کہ نورین نیازی کو بھی ملنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، سوائے ڈاکٹروں کے!
ہزاروں کارکن، جو عمران خان پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہیں، احتجاج کے لیے ڈی چوک پہنچنے اور جیل جانے کے لیے تیار تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ عمران خان کی رہائی اور حق میں آواز بلند کرنے کے لیے، شنگھائی کانفرنس کے دنوں میں احتجاج کرنے کا موقع سب سے زیادہ مؤثر ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کی تنظیمیں بین الاقوامی کانفرنسوں کے دوران احتجاج کرتی ہیں تاکہ عالمی برادری حقیقی صورتِ حال سے آگاہ ہو سکے۔ لیکن پی ٹی آئی کی قیادت، جو پہلے تک یہ دعویٰ کر رہی تھی کہ وہ عمران خان کی رہائی کے لیے جان کی پرواہ کیے بغیر نکلیں گے، رات کو حکومت کے ساتھ ایک ناکام معاہدہ کر بیٹھی کہ بس عمران خان کو ڈاکٹروں سے ملوا دیا جائے گا۔ کیا اس جعلی حکومت اور اسے پشت پناہی کرنے والے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر یقین کیا جا سکتا تھا؟
پی ٹی آئی کی قیادت، خصوصاً بیرسٹر گوہر، امین گنڈا پور، شیخ اکرم وقاص، سلمان اکرم راجہ، عمر ایوب خان، روف حسن، حماد اظہر، اعظم سواتی، شبلی فراز، علی محمد خان، شہریار آفریدی، فردوس نقوی اور ڈاکٹر علوی سمیت کئی دیگر رہنما، حقیقتاً آئی ایس آئی اور اسٹیبلشمنٹ سے خوفزدہ ہیں۔ وہ اب جیل جانے سے کتراتے ہیں اور بظاہر عمران خان کو جیل سے نکالنے میں بھی زیادہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔ دوسری جانب، پی ٹی آئی میں ایسے مرد، خواتین اور نوجوان کارکن بھی موجود ہیں جو اب بھی عمران خان کے لیے جان دینے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے اذیت برداشت کرنے کو تیار ہیں۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور موجودہ جعلی حکومت نے شنگھائی کانفرنس کو بے پناہ اہمیت دی ہے، حالانکہ یہ اتنی بڑی عالمی تنظیم نہیں ہے۔ یہ دس ممالک پر مشتمل پلیٹ فارم ہے جس کی قیادت چین اور روس کر رہے ہیں، اور اس میں بیلا روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، بھارت، پاکستان اور ایران شامل ہیں۔ اس پلیٹ فارم کا بنیادی مقصد امریکی بلاک کے مقابلے میں چین اور روس کے لیے ایک مضبوط علاقائی گروپ بنانا ہے۔ اس میں بھارت کی موجودگی کے ساتھ پاکستان کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہے۔ یہ گروپ چین اور بھارت کو قریب لائے گا اور پاکستان کو بھارت کے ماتحت رہ کر اپنی پالیسیاں ترتیب دینے پر مجبور کرے گا۔ مزید برآں، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک اس پلیٹ فارم کی سخت مخالفت کریں گے۔
پاکستان کی موجودہ حکومت عوام کو محض یہ دکھانا چاہتی ہے کہ اسے شنگھائی کانفرنس میں شامل ممالک نے تسلیم کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ، جیسا کہ میں نے اپنے کل کے انگلش آرٹیکل میں ذکر کیا، اس کانفرنس میں روس، چین اور بھارت پاکستانی حکومت پر سخت تنقید کریں گے اور اس پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر نہیں بلکہ اس کے ماتحت رہ کر خطے میں اپنا کردار ادا کرے، مسئلہ کشمیر کو بھلا دے، اور اسرائیل کو تسلیم کرے۔
دوسری جانب، کئی بے ضمیر پاکستانی میڈیا اور صحافیوں نے یہ ٹرینڈ چلانا شروع کر دیا ہے کہ “آپ کو عمران خان چاہیے یا پاکستان؟”۔ یہ وہی فراڈ سوال ہے جو ضیا الحق نے اپنی فوجی حکومت کو قائم رکھنے کے لیے قوم کے سامنے پیش کیا تھا، کہ کیا آپ کو پاکستان میں اسلامی نظام چاہیے؟ اگر چاہیے تو ضیا الحق کی حکومت کی حمایت کریں۔ ان جرنیلوں کی عقل اور ان کے حربے اس سے زیادہ نہیں سوچ سکتے۔