سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے نظریاتی دشمن آزادی سے پاکستان توڑنے کے جرم میں ملوث رہے، اور آج بھی آزادی سےاپنی مذموم کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ آج تک کسی کو پھانسی پر لٹکایا نہیں گیا سوائے ذوالفقار علی بھٹو کے گو کہ بھٹو پاکستان توڑنے کی سازش میں شریک جرم تھا مگر اس کو پھانسی ایک قتل کے مقدمہ میں ہوئی۔
آج سندھ کے وڈیرے ساستدان، سندھو دیش کے کارندے، اور پیپلز پارٹی سندھ کے سیاسی پنڈت بمعہ آصف زرداری اور بلاول زرداری پاکستان توڑنے کی سازش کر رہے ہیں۔ الطاف حسین اور نواز شریف بھی پاکستان کے خلاف بھارت سے ساز باز میں ملوث ہیں۔ بلاول زاداری اورمراد علی شاہ امریکہ میں پاکستان دشمنوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔مشرقی پاکستان میں جب مجیب الرحمن بنگالیوں کے حقوق کے نام پر بنگلادیش کی تحریک چلا رہا تھا تو اسُ وقت ذوالفقار علی بھٹو نے مجیب الرحمن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ادُھر تم ادِھر ہم۔ آج آصف زرداری نے نواز شریف کو یہ اندیہ دیدیا ہے کہ ادُھر تم ادِھر ہم۔ یہ پیغام لیکر بلاول زرداری امریکہ کے پاس گیا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ریاستی ادارے یہ باتیں پاکستانی عوام کے سامنے نہیں لارہے۔ مگر میڈیا میں کام کرنے والے میرے جیسے لوگوں کے علم میں یہ کاروائیاں سامنے آرہی ہیں۔
سندھ میں ایک مرتبہ پھر لسانی فسادات پھیلانے اور قتل عام کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ آئی ایس آئی اور آئی بی کو یہ خبریں موصول ہو رہی ہیں مگر خاموش ہیں۔ پنجاب کی عوام کو سندھ میں پاکستان توڑنے کی سازشوں سے بے خبر رکھا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے مشرقی پاکستان میں بنگلادیش تحریک کے وقت کیا گیا تھا۔
بلاول زرداری کشمیر میں کھڑے ہوکر یہ کہتا ہے کہ اگر کشمیر یوں کے لئے کسی جماعت نے آواز اٹھائی ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے، سعید غنی کہتا ہے کہ کشمیر کے لئے سب سے پہلے آواز ذوالفقار علی بھٹو نے اٹھائی اور کشمیر کی آزادی ہی پیپلز پارٹی کے وجود کی وجہ بنی تھی۔ یہ بے غیرے کسِ دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے ہیں حقیقت یہ ہے انکو پاکستان کے استحکام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔بلاول زرداری اور پیپلز پارٹی سندھ کے ان پاکستان دشمن عناصر کی یہ سب بکواس پاک فوج اور خفیہ ایجنسیاں خاموشی سے کیوں دیکھ رہی ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی نے کشمیر یوں کے حقوق کے لئے اقوام متحدہ میں 1948 کی منظور قرار داد کو روندا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو کا بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ محاہدہ تھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کے فیصلہ کے مطابق کشمیر میں عوامی رائے شماری کرکے کشمیریوں کی مرضی کے مطابق کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے کو ایک طرف رکھ کر محاہدہ کیا کہ کشمیر کے مسلہ کا فیصلہ بھارت اور پاکستان دوطرفہ بات چیت کے ذریعہ کریں گے جس کے بعد سے بھارت آج تک پاکستان سے کشمیر پر بات نہیں کرنا چاہتا اور کبھی کریگا بھی نہیں، کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں جایا کرتے۔ سمجھ میں نہیں آتا کس طرح سے سندھو دیش تحریک، بلوچ لیبریشن فرنٹ،تحریک طالبان پاکستان، اور کئی پاکستان خلاف چھوٹے بڑے گروپ سندھ، بلوچستان اور شمالی پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور انکو چلانے والے سندھ اور بلوچستان کے سیاسی قائدین آزادی سے پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں جلسے کر رہے ہیں۔
سندھ پیپلز پارٹی کے بدعنوان افسران، سندھ کے وڈیروں اور سندھو دیش کے لیڈران نے کراچی کو بربادکر دیا ہے۔ وفاق سے ہر سال اربوں روپے سندھ کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت وصول کر رہی ہے اور یہ پیسہ آصف زرداری، بلاول زرداری اور انکے حواریوں کے غیر ملکی بینکوں میں جا رہا ہے۔ پاکستان کے ریاستی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کا اس کا علم ہیں مگر پھر بھی خاموش ہیں کیوں!
سندھ کے شہری عوام بالخصوص مہاجروں کا اتحصال پچھلے چالیس سال سے جاری ہے۔ کبھی الطاف حسین کو استعمال کرکے، کبھی پیپلز پارٹی کے سندھی وڈیروں کے ذریعہ کبھی سندھی دیش تحریک کو چلانے والے غنڈوں کے ذریعہ، مگر ریاست، فوج، اور خفیہ ادارے خاموش ہیں، کیوں! جب تک کراچی اور سندھ کے شہر مہاجروں کے ہاتھ میں رہےکراچی، حیدرآباد اور سکھر ترقی کر تے رہے۔ پھر مردم شماری میں دھاندلی، جعلی ڈومیسائل اور کوٹہ سسٹم کو استعمال کرکے مہاجروں کو شہروں کو چلانے والے تمام اداروں سے فارغ کر دیا گیا، اور پاکستان کی ریاست اور خفیہ ادارے خاموش تماشائی بنے رہے اور آج بھی ہیں۔ بے نظیر کے حکم پر کراچی میں فوجی آپریشن کیا گیا اور ہزاروں نوجوانوں کو قتل کیا گیا۔ آج کئی ریٹائرڈ فوجی افسران اسِ بات کا اعتراف میڈیا میں آکر کرتے ہیں۔ پاکستان کے سینئر سیاستدان چودھری شجاعت نے میڈیا کو ایک انٹرویو میں اس آپریشن کی تصدیق کی۔
اگر سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجروں نے الطاف حسین کا ساتھ دیا اور متحدہ قومی مومنٹ میں شامل ہوئے تو اس کے پیچھے سندھی وڈیروں اور سندھ کے حکمرانوں کا مہاجروں کے خلاف متعصب نظام تھا۔ ریاست اور فوج کو اسِ متعصب نظام کو ختم کرنا چائیے تھا تو الطاف حسین اور ایم کیو ایم خود ہی ختم ہو جاتی مگر نہیں ضیاالحق اور پرویز مشرف نے ایم کیو ایم کو طاقت بخشی تاکہ پیپلز پارٹی کے خلاف انکو استعمال کیا جائے، اور اسکا انجام یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کے بدعنوان اور سندھ کے وڈیروں نے سندھ کے سرکاری نظام پر قبضہ کر لیا۔
آج کراچی ایک کھنڈر نظر آتا ہے۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر، میر پور خاص کی اکثریتی عوام کے پاس ان شہروں کو چلانے کا اختیار نہیں۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور گاؤں سے پیپلز پارٹی کے بدکار وڈیرے سندھ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر جی بھر کر عیاشی سے سندھ کی سرکاری دولٹ لوٹتے ہیں۔ کراچی میں ڈکیتیوں اور لوٹ مار میں سندھ پولس میں بھرتی جرائم پیشہ لوگ ہیں۔ پاکستان کی ریاستی اداروں اور فوج کو اسکا علم ہے مگر خاموش ہیں، کیوں؟
ابھی بھی وقت ہے، کراچی کو سندھ سے الگ کیا جائے جیساکہ کراچی کا اسٹیٹس پاکستان کے قیام کے وقت تھا۔ کراچی کی شہری حکومت میرٹ پر قائم کی جائے، کراچی کو چلانے کے کراچی کے لائق لوگوں کو آگے لایا جائے اور اہم عہدوں پر رکھا جائے۔ سندھ کو تین صوبوں میں تقسیم کیا جائے، سندھ جنوبی (جو کراچی اور اسکے اطراف کے علاقوں پر مشتمل ہو)، سندھ وسطی جو حیدرآباد اور اس سے ملحق قصبہ اور چھوٹے شہرپر مشتمل ہو، اور سندھ شمالی جو لاڑکانہ، خیرپور وغیرہ پر مشتمل ہو، تو آج سندھ کے حالات، سندھ کی بلا تفریق عوام اور سندھ کا نظام درست ہو سکتا ہے اور انِ پاکستان دشمن اور کرپٹ وڈیروں اور سیاسی پنڈتوں سے بھی جان چھوٹ سکتی ہے۔ میں نے سندھ کی تقسیم پر ایک مفصل تجویز دستاویز کی شکل میں شائع کی ہے، جو https://www.rightsofmuhajirs.org/sindh-should-be-divided-into-three-provinces-on-administrative-grounds
پر موجود ہے۔
اب بھی وقت ہے سندھ کو پاکستان سے ٹوٹنے سے بچایا جا سکتا ہے، اگر اب بھی سندھ میں ہنگامی بنیادوں پر پاکستانی وفاق اور ریاست نے ایکشن نہیں لیا تو اللہ نہ کرے پاکستان کے ساتھ دوبارہ بنگلادیش والا سانحہ ہو سکتا ہے اور محب وطن پاکستانی پھر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
پاکستان زندہ باد۔