آج، پاکستان سیاسی عدم استحکام، لاقانونیت اور سماجی بدامنی سے دوچار، مالی دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے۔ نظام بدعنوانی اور نااہلی اس قدر گہرا ہے کہ صرف متواترانقلابی تحریک جس کی قیادت عوام خود کر رہے ہوں، بامعنی تبدیلی ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ سید عتیق الحسن
فوج کو کسی ملک کی خودمختاری اور سلامتی کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے، جسے اس کی قوم اور سرحدوں کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔دفاع ایک ایسا ادارہ ہے جس کو عوام احترام اور عزت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ پاکستان میں مسلح افواج کے لیے یہ احترام تاریخی طور پر کچھ مختلف نہیں رہا۔ پاکستان کے عوام نے اپنی فوج کو بہت عزت دی ہے، قوم کے محافظ کے طور پر پاکستانی قوم نے فوج کے کردار پر بھروسہ کیا ۔ تاہم، قومی فخر کے اس چہرے کے پیچھے ایک افسوسناک حقیقت پوشیدہ ہے- پاکستان کی فوج، اپنے آغاز سے ہی، نہ صرف دفاع کا ایک آلہ رہی ہے بلکہ غیر ملکی طاقتوں، خاص طور پر انگریزوں کے زیر اثر اور جوڑ توڑ کا آلہ کاربھی رہی ہے، جس کی سامراجی میراث بدستور پریشان ہے۔
۱۹۴۷ جب پاکستان برٹش انڈیا سے علیحدہ ملک بن کر دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا تو پاکستان کی دفاع بنیادیں برطانوی سرپرستی میں رکھی گئیں۔ برطانوی (یا آسٹریلیا کے سفید فام انگریز ) اعلی فوجی اہل کارون نے پاکستان کی افواج نا صرف تشکیل کی بلکہ ابتدائی چند سالوں تک فوج کے اعلی چیف اور فوج کے کلیدی عہدوں پر فائز رہے ۔ یہاں تک کہ ملک کی پرائم خفیہ ایجنسی، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو بھی اسی اثر و رسوخ میں ڈھالا گیا اور دس سال تک آئی ایس آئی کی باگ دوڑ انگریزوں کے ہاتھوں میں رہی، جس کا اثر آج تک قائم ہے۔ آزادی کے بعد کئی سالوں تک، برطانوی جرنیلوں نے پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہوں کے طور پر خدمات انجام دیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ نوجوان قوم کی فوج برطانوی مفادات سے ہم آہنگ رہے۔ جب عالمی قوت کا کردار برطانیہ سے امریکہ کے ہاتھ میں آیا تو پاکستان کی دفاع اور خفیہ ایجنسیاں بھی امریکہ کے زیر اثر آگئیں۔ آج بھی فوج کے نئے چیف کی تقریری امریکہ اور برطانیہ کی خوشنودی کے بغیر ممکن نہیں۔
جب تک پاکستان مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا، مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان سیاست میں بابلد تھے ، سوائے آل پاکستان مسلم لیگ جس کا بھی عملی خاتمہ ایک فوجی جرنیل ایوب خان کے ہاتھ سے ہوا۔ پاکستان میں جمہوری نظام کا قیام اور عوام کے بنیادی جمہوری حقوق اور آزادی کو جمہوری اور عدل و انصاف کے اصولوں سے دور رکھا گیا۔ ملک کے مستقبل کو محفوظ رکھنے والے مضبوط جمہوری اداروں کی تعمیر کی ضرورت کو بہت کم سمجھا گیا۔ ترجیح یہ ہونی چاہیے تھی کہ فوج کو ایک پیشہ ور ادارے کے طور پر ریاستی امور سے الگ رکھا جائے۔ افسوسناک پہلو یہ رہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایک سال میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے اور پھر قائد اعظم کے دست راست اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بیرونی اور اندورنی سازش کے ذریعہ شہید کرکے ، پاکستان میں حقیقی جمہوری نظام کا گلہ گھونٹ دیا گیا۔ بانیانِ پاکستان نے جن جمہوری قوائد و ضوابط اور عدل و انصاف کا نظام رائج کرنا تھا انکو فوج جرنیلوں نے آہستہ آہستہ ریاستی امور سے الگ کر دیا اور بلآخر برطانوی سامراج کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے ۱۹۵۱ میں، جنرل ایوب خان کو پہلاپاکستانی آرمی چیف مقرر کیا گیا، اور ساتھ ہی جنرل ایوب خان کو سول حکومت میں وزیر دفاع بھی بنا دیا گیا تاکہ فوج کا عمل دخل جمہوری عمل میں شامل رہے- جس کا مطلب یہ تھا کہ دوہری طاقت کا عہدہ رکھتے ہوئے فوج کو براہ راست سویلین نظام میں مداخلت کرنے کی اجازت دی گئی۔ یوں فوج کے اسِ عمل دخل سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر فوج کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا آغاز ہوا۔ یوں اس الجھن کے نتائج اگلی چند دہائیوں میں واضح طور پرظاہر ہو گئے۔ ۱۹۵۷ میں، مشرقی پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور بدامنی کی وجہ سے ہنگامی حالت کا اعلان کرکے ایمرجنسی نافظ کر دی ، جس کا فیصلہ اسکندر مرزا نے ایوب خان کے زیر اثر کیا۔ پھر ۱۹۵۸ میں وہ بھیانک وقت پاکستان کی ریاست پر آیا جب جنرل ایوب خان نے پاکستان کی تاریخ کے پہلے مارشل لاء کا آغاز کرتے ہوئے ایک صدر اسکندر مرزا کو معزول کر دیا۔ جنرل ایوب خان کا مارشل لا کا نفاذ برطانیہ اور امریکہ کی مرضی سے عمل میں لایا گیا۔یوں ملک میں فوجی قبضوں اور مداخلتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس سے فوج کو پاکستان کی ریاست کی حکمرانی مل گئی ۔اسِ کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ یہ چاہتا تھا اور اسکی تائید امریکہ بھی کرتا تھا کہ پاکستان کو ایک مملکت تو بنا دیا ہے مگر یہ یقین کیا جائے کہ پاکستان میں جنا ح کے دو قومی نظریہ اور ایک آزاد اسلامی فلاحی ریاست کبھی نہیں بننے دینا۔مشرقی پاکستان کے سیاستدان فوجی آمریت سے خوش نہیں تھے اور پاکستان میں ایک آزاد جمہوری نظام چاہتے تھے مگر مشرقی پاکستان کے سیاستدان مغربی پاکستان کے فوجی جرنیلوں بالالخصوص جنرل ایوب کے آگے بے بس تھے۔جنرل ایوب خان نے مغربی پاکستان میں اپنی فوجی طاقت کے تحت ریاست کو قابو میں تو کر رکھا تھا مگر مشرقی پاکستان کی عوام اور سیاستدان قابو سے باہر تھے۔ لحاظہ ایوب خان نے برطانیہ اور امریکہ کی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا کہ ایسے حالا ت پیدا کئے جائیں کہ مشرقی پاکستان کی عوام (بنگالی) خود ہی پاکستان سے جان چھڑا کر علیحدہ ملک کی مہم چلانے پر مجبور ہوجائیں۔
مغربی پاکستان (جو اب پاکستان ہے) فوج نے سیاست دانوں کے ایک ایسے طبقے کی پرورش کی جو اس کے زیر اثر کام کرتے تھے۔ جمہوریت کے نام پر ایسا جعلی نظام کو جنم دیا جس کی مادرِ ملت محترمہ فاطمہ، مجیب الرحمن اور مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں نے مخالفت کی۔
۱۹۷۱میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے دوران حکمران جرنیلون طرف سے جمہوری اصولوں کو بالا طاق رکھ کر ایک آمرانہ نظام قائم کیا گیا جس کو جمہوریت کا نام دیا گیا۔ پھر مشرقی پاکستان کی عوام کی بنیادی مانگوں اور جمہوری حق کو نظر انداز کیا گیا جس کے نتیجہ میں اور فوج کے مشرقیی پاکستان میں خونی آپریشن کے نتیجہ میں پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش کی آزاد ریاست کے طور پر ابھرا۔ یہ المناک واقعہ سیاسی دور اندیشی اور جمہوری اصولوں سے انحراف اور عوام کے بنیادی جمہوری حقوق کے نتیجہ میں عمل میں آیا جس کی ایک تویل اور بھیانک کہانی اب تاریخ کے پنوں میں درج ہے جو اسِ آرٹیکل کا موضوع نہیں ہے۔ بارحال آج بھی ۱۹۷۱ کی بازگشت پاکستان کے مختلف حصوں میں گونجتی ہے۔ بلوچستان میں، علیحدگی پسندانہ جذبات عروج پر ہیں، جو کئی دہائیوں سے نظر انداز کیے جارہے ہیں ، اور بلوچوں پر جبر اور استحصال کا سلسہ جاری ہے۔
خیبرپختونخوا میں مرکزی حکومت کی پالیسیوں اور فوجی آپریشنز سے بڑھتی ہوئی ناراضگی پشتون آبادی میں مایوسی کا باعث بن رہی ہے۔ اگر ان شکایات کا ازالہ نہ کیا گیا تو اس بات کا بہت قوی امکان ہے کہ یہ صوبہ بھی ایک دن آزادی کا مطالبہ کر سکتا یت اور ملک کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتا ہے ۔
اسی طرح پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لوگ سطح پر تو خاموش دکھائی دے رہے ہیں لیکن اس کے اندر احساس محرومی ، گہری مایوسی اور نا انصافیوں کی داستان چھپی ہوئی ہے۔ اگر کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور مہاجروں کو انکے بنیادی شہری حقوق نہیں دئیے گئے تو جو آج مہاجر مختلف گروپوں میں تقسیم کر دئیے گئے ہیں یہ سب دوبارہ الطاف حسین کی چھتری تلے اکھٹے ہو کر الگ صوبہ کا نعرہ لگائیں گے۔ الطاف حسین کے بہت سے پیروکار، جو کبھی مہاجر برادری کی غالب سیاسی آواز تھے، اب دوبارہ خاموشی سے منظم ہو رہے ہیں۔ اگر موجودہ جابرانہ نظام جاری رہا تو مہاجروں کی آزادی کی تحریک بڑی طاقت کے ساتھ شروع ہو سکتی ہے ۔ان کے مطالبات کے ساتھ، کچھ تو کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی وکالت کرتے ہوئے، اسے اپنے سیاسی اور سماجی حقوق کے حصول کا واحد قابل عمل راستہ سمجھتے ہیں۔
اندرون سندھ میں سندھودیش کے مطالبات بھی زور پکڑ رہے ہیں، جو موجودہ پی پی پی حکومت کی ناکامی اور سندھیوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی کی وجہ سے ہے۔ بہت سے لوگ پی پی پی کی سندھ حکومت کو محض فوج کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں، آصف زرداری کو کچھ لوگ عوامی مینڈیٹ کے بجائے فوجی اثر و رسوخ سے نصب پاکستان کے صدر کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ان بحرانوں کی جڑ فوج کی پاکستانی قوم کی سیاسی آزادی مسلسل مداخلت اور پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو سمجھنے میں ناکامی ہے جیسا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے تصور کیا تھا۔ پاکستان کے لیے جناح کا وژن ایک جمہوری، جامع ریاست کا تھا، جہاں سول ادارے اقتدار پر فائز ہونے تھے ، اور افواج پاکستان کو صرف ایک پیشہ ور ادارہ بننا تھا جو پاکستان کی سرحدوں حفاظات کرنے اور بیرونی دشمنوں سے ملک کو محفوظ رکھے۔ بدقسمتی سے، یہ نقطہ نظر ترک کر دیا گیا کیونکہ فوج نے ریاست کا نظام سنبھالنے کو اپنی بقا کی چابی سمجھا اور یوں پچھلے ستر سالوں سے پاکستان کے اقتدار پر بل واسطہ یا بلا واسطہ قائم ہے۔
آج، پاکستان سیاسی عدم استحکام، لاقانونیت اور سماجی بدامنی سے دوچار مالیاتی دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہ نظام بدعنوانی اور نا اہلی میں اس قدر گہرا ہے کہ صرف ایک انقلاب ہی جس کی قیادت خود عوام کریں ہی بامعنی تبدیلی لا سکتا ہے ۔ موجودہ سیاسی قیادت منقسم ہے اور قوم کو متحد کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ تاہم، ایک ایسی شخصیت باقی ہے جو عوام کو اکٹھا کرنے اور اتحاد کی علامت کو بحال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جس کا نام ہے عمران احمد خان نیازی۔
عمران خان، جو کبھی کرکٹ کے ہیرو تھے، پاکستان کے صوبوں میں وسیع حمایت کے ساتھ ایک سیاسی رہنما بن چکے ہیں۔عمران خان مقبولیت نسلی اور علاقائی تقسیم سے بالاتر ہے، جو عمران خان کو ایک ٹوٹے ہوئے ملک میں متحد کرنے والی ایک نادر قوت بناتی ہے۔ پاکستانی افواج عمران خان کی عوامی مقبولیت اور شہرت سے خائف ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ جو ریاست کے نظام کو چلانے کا عمل چھوڑنا نہیں چاہتی سمجھتی ہے کہ اگر انکا عمل دخل ریاستی معاملات میں نہیں رہا تو انکے غیر فوجی معاملات میں کاروبار منظر عام پر آجائے گا۔لحاظہ فوجی جنرنیل عمران خان اپنی بقا کے لئے خطرہ سمجھتی ہے جو ایک حماقت سے کم نہیں۔ یہ کوئی نا قابل عمل معاملہ نہیں کہ فوجی جرنیل عمران خان کے ساتھ بیٹھ کر اپنے معاملات کو حل کریں اور عمران خان سے یہ یقین دھانی کرالیں کہ اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں جو کسی فوجی جرنیل کے خلاف ملک کے استحکام کے لئے کوئی کاروائی نہیں کریں گے۔
عمران خان کو قید کر کے اور ان کی تحریک کو دبانے کی کوشش کر کے فوج ملک کے اندر تقسیم کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ اگر یہ ظلم و ستم جاری رہا تو یہ مزید بدامنی اور ممکنہ طور پر ایک مرتبہ پھر ملک کے مزید ٹوٹنے کا باعث بن سکتا ہے۔
فوج کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستان کی بقا کی کلید حقیقی جمہوریت کی بحالی میں مضمر ہے، جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور عوام کی آواز سنی جائے۔ اگر فوج نے اپنا موجودہ راستہ جاری رکھا تو پاکستان کے لیے اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ فوج سیاست سے پیچھے ہٹ جائے اور سویلین اداروں کو قیادت سنبھالنے دے۔ تب ہی پاکستان اپنے موجودہ بحران سے نکلنے اور اپنے بانیوں کے تصور کردہ جمہوری اصولوں پر مبنی مستقبل کی تعمیر کی امیُد کر سکتا ہے۔
ختم شدھ
سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
سڈنی میں مقیم صحافی، تجزیہ کار، مصنف، مصنف اور ایک تبصرہ نگار،
سڈنی آسٹریلیا۔