پاکستان بنانا مجبوری تھی اور پھر ختم کرنا ضرورت تھی!

:سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

پاکستان بنانا انگریزوں کی مجبوری تھی کیونکہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی قانونی دلیلوں کا انکے پاس جواباب نہ تھے۔ پاکستان کا مقدمہ انگریز جیت نہیں سکتے تھے کیونکہ محمد علی جناح کی قیادت میں ہندوستان کے

سید عتیق الحسن

لاکھوں مسلمان اپنی جانیں نثار کرنے کے لئے راضی تھے۔  پھرپاکستان کا وجود انگریزوں کے لئے اسُ وقت اسِ لئے  بھی ضروری تھا کہ انگریز دوسری جنگ عظیم  میں برطانیہ کی معاشی اور دفاعی قوت کھو چکے تھے اور اپنا وجود قابض ریاستوں پر قائم رکھنے سے قاصر تھے۔ لحاظہ محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مسلمانوں کی آزاد ریاست کے ایجنڈے کے آگے سامراج نے ہتھیار ڈال دئیے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے ساتھ محاہدہ کیا، ۱۹۴۶ میں انتخابات کرانے اور  انتخابی نتیجہ کی بنیاد پر مشرقی اور مغربی پاکستان کی صورت میں پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کومعارضِ وجود میں آگیا۔ پاکستان کے وجود سے نا تو انگریز خوش تھا اور نا ہی کانگریس مگر حالات کے ہاتھوں اور مسلمانوں کی تحریک اور جدو جہد کے ہاتھوں  یہ مجبور تھے۔ لحاظہ انگریز سامراج پاکستان تو  انڈیا سےجاتے جاتے بنا گئے مگر اسِ منصوبے کے ساتھ کہ پاکستان کے  وجود اور مشن کو کبھی پروان نہیں چڑھنے دیں گے۔ انگریز  سامراج یہ بھی جانتے تھے کہ بانی پاکستان کی زندگی بہت زیادہ نہیں رہی لحاظہ ایسی حکمت عملی اختیار کی جائے کہ پاکستان کی ریاست کا وجود انگریزوں کے قبضہ میں رہے۔ چالاکی اور دھوکہ بازی انگریزوں کی نسلوں میں رچی بسی ہوئی ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح نے پاکستان تو بنا دیا مگر  ٹی بی کے مرض نے  صحت اسِ قدر خراب کردی   تھی کہ  فیصلہ کیا گیا انکو کوئٹہ کے پہاڑی مقام پر منتقل کر دیا جائے  تاکہ انکی صحت بہتر ہو سکے مگر حقیقت یہ تھی کہ محمد علی جناح کو ریاستی امور سے دور رکھنا تھا اور یہ سب ایک پلان کا حصہ تھا ۔ بدقسمتی یہ بھی تھی کہ  بانی پاکستان  کے کئی قریبی ساتھی بھی چاہتے تھے کہ وہ حکومت کے امور میں مداخلت نہ کریں اور پاکستان کی ریاست کے حصول پاکستان کے اغراض و مقاصد کے تحت سر انجام نہ دیں  کیونکہ یہ مغربی پاکستان کے چودھریوں، وڈیروں اور قبائیلی سرداروں کے مفاد سے انحراف تھا۔ بدقسمتی سے محمد علی جناح  اسِ دنیا سے ایک سال میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے اورقائدکے بعد مسلم لیگ کی دوسرے درجہ کی قیادت انگریزوں کی چالاکیوں اور پالیسیوں کو دوربینی سے سمجھنے سے قاصر رہی۔ انگریزوں نے پاکستان کو پیشکش کی کہ پاکستان کیونکہ ایک نیا ملک ہے، فوجی دفاع موجود نہیں ہے لحاظہ برطانیہ پاکستانی فوج اور فوجی ایجنسیوں کے قیام میں مدد کریگی۔ یوں برطانیہ کے فوجی جرنل   جنرل فرینک میسروی نے ۱۵ اگست۱۹۴۷ کو ہی پاکستان کے پہلے آرمی چیف کا عہدہ سنبھال لیا۔جنرل فرینک نے آرمی کی دفاعی پالیسی مرتکب کی ۔ جس میں یہ شامل کیا گیا کہ آرمی کے افسر کی جنرل کے عہدہ پر ترقی کے لئے برطانیہ سے منظوری لی جائے گی۔ جو  غیر سرکاری  طور پر آج تک جاری ہے۔ برطانوی سامراج کا سورج جوں جوں دنیا سے غروب ہونے لگا امریکہ نے برطانیہ کی جگہ سنبھال لی۔  امریکہ اور برطانیہ کی پالیسی پاکستان کے لئے ایک ہی  رہی ہے۔جنرل فرینک نے اگلے تین سالوں میں اپنی مرضی سے چنُ چنُ ایسے فوجی افسروں کو اہم عہدوں پر رکھا جو برطانیہ کے وفادار تھے۔ انُ میں سرفہرست نام ایوب خان کا تھا۔ ایوب خان کو ترقی دیکر جنرل کا عہدہ دیا گیا اور ۱۹۵۱ کو جنرل فرینک نے اپنا چارج جنرل ایوب خان کے حوالے کردیا۔جنرل ایوب خان کا کردار پاکستان کی سول انتظامیہ اور ریاست میں کیا  رہا آج سارا  پاکستان جانتا ہے۔ لحاظہ آج یہ حقیقت ناصرف پاکستانیوں بلکہ دنیا پر عیاں ہے کہ پاکستان کی ریاست مملکت فوجی سامراج کی ملکیت ہے۔ جب انِ فوجی سامراجیوں کو مشرقی پاکستان کی عوام  کے جائز مانگ پسند نا آئی اور شیخ مجیب الرحمن سمیت بنگالیوں کے  سیاسی لیڈران نے فوجی اور سول حکومت کی پالیسیوں سے انحراف کیا تو فوجی سامراج نے مغربی پاکستان کی ایک سیاسی شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کو آگے رکھ کر مشرقی پاکستان الگ کر وادیا،  کیونکہ  ذوالفقار علی بھٹو بھی جنرل ایوب خان کی ہی پیداور تھا۔

 یوں بظاہر آزاد پاکستان کا قیام تو عمل میں آگیا مگر پاکستان کا دفاع انگریزوں کے ہاتھوں میں ہی رہا۔ پھر انگریز جرنیلوں نے ہی ۱۹۴۸ میں پاکستان کی دفاعی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی بنیاد ۱۹۴۸ میں رکھی اور آئی ایس آئی کی بنیادی پالیسی بھی مرتکب کی جو آج تک جاری ہے۔ پاکستان کی سیاہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسِ ایجنسی کا مقصد امریکہ اور برطانیہ کے پاکستان میں مفادات کا تحفظ ہر قیمت پر کرنا ہے جس کے لئے چاہے محب وطن پاکستانیوں کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔

 لحاظہ اگر یہ کہاجائے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے محمد علی جناح کی قیادت اور مسلم لیگ کے بینر تلے پاکستان کو حاصل تو کر لیا مگر انگریزوں سے مکمل آزادی حاصل نہیں کر سکے۔ برطانیہ اور امریکہ کا اثر اور حکم آج بھی اتنا ہی مضبوط ہے جتنا پاکستان کے قیام سے پہلے تھا اور آج تک قائم ہے بلکہ آج ماضی سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ پاکستان کا کوئی جرنیل یا آئی ایس آئی کا چیف برطانیہ اور امریکہ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔ ظاہری طور پر پاکستان کی آرمی ، فضائی اور بحری طاقت مضبوط ضرور ہے مگر یہ  امریکہ کی ہی دین ہے لحاظہ سب برطانیہ اور امریکہ کے آگے محکوم ہیں۔ اسی طرح سے پاکستان کی ریاست بھی برطانیہ اور امریکہ کی غلام ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بغیر برطانیہ اور امریکہ کی منظوری کے بن ہی نہیں سکتی۔ پاکستان میں جمہوریت ایک فراڈ ہے۔ دنیا کو دکھانے کے لئے فوج ایسے سول سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اقتدار میں لاتی ہیں جو فوج کی تابہ ہوں اور فوج کو حکم واشنگٹن اور لندن سے ملتا ہے۔پاکستان میں ایک مرتبہ پھر جمہوری حکومت کو ختم کرکے برطانیہ کی مرضی سے کرپٹ اور بدعنواں حکومت قائم کی گئی  اور پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کر دیا گیا اور آج جرنیلوں کی مرضی سے ایک عارضی مگر نااہل حکومت قائم ہے جو آرمی چیف کے حکم کی غلام ہے۔

امریکہ کا کنٹرول پاکستان کی فوج، ریاست اور سیاست پر اتنا ہے کہ یہ سب امریکہ کی مرضی کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے۔ حد تو یہ ہے امریکی اور پھر برطانوی سفارتکار آج پاکستان کی ریاستی اداروں کے اعلی افسران سے مل  رہے ہیں ، خفیہ میٹنگ ہو رہی ہیں۔ پاکستان کے دشمن نام نہاد سیاستدانوں سے بند کمروں میں میٹنگ ہو رہی ہیں۔ پچھلے ہفتہ امریکی اور پھر برطانوی سفیروں نے مریم نواز سے ایک گھنٹہ سے زیادہ دورانیہ کی ملاقاتیں کیں۔ مریم نواز کے پاس کوئی حکومت کا عہدہ نہیں ہے۔ مریم عدالت سے سزا یافتہ ہے تو پھر کیوں امریکی اور برطانوی سفیر اس سے خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔  اب یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان سے مفرور اور سابقہ وزیر اعظم نواز شریف ۲۱ اکتوبر کو پاکستان تشریف لا رہے ہیں  اور جب وہ پاکستان کی سر زمین پر اتریں گے تو ان کا تاریخی استقبال کیا جائے گا۔ پنجاب کی یہ تاریخ رہی ہے کہ انہوں نے بس بھنگڑے ہی ڈالنے  ہیں  چاہے وہ پاکستان کے دشمنوں کے استقبال میں  ہی  کیوں نہ ہو۔ اب دیہ نیا دیکھی گی کہ ایک محب وطن وزیر اعظم کو ڈیڑھ سو سے زیادہ مقدمات بناکر جیل کی کوٹری میں بند کر دیا جاتا ہے اور ایک مفرور مجرم کے استقبال کے لئے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ تیاریاں کر رہی ہے کیونکہ یہ سب ہمارے حاکم برطانیہ کا حکم ہے۔

مجھے یہ بات کہنے دیجئے کہ آج پاکستان کے دشمن سیاستدانوں کی شکل میں پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پاکستان کو غیر مستحکم اور ڈیفالٹ کے اسٹیج پر لے آئے ہیں۔ انِ کے خلاف جو بھی شخص بات کریگا اس کو پاکستان کا غدار بناکر جیل میں ڈال دیا جائے گا، یا غائب کر دیا جائے گا یا پھر پُر اسرار طور پر قتل کر دیا جائیگا۔

یہ ہے ایک المناک داستان پاکستان کی جسکو لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کے نظرانے دیکر بنایا تھا۔ دلِ خون کے آنسو روتا ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ میری اور میرے بعد کی نسل نے پاکستان میں کیا دیکھا ہے۔ دہشتگردی، غیر ملکی طاقتوں کی غلامی، فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خفیہ دعوے اور معصوم شہریوں پر قتل و غارت گری، قانون نافظ کرنے والوں کے انسانیت سوز جرائم، عدالتوں کے بدعنوان فیصلے اور ایک کے بعد ایک بد عنوان سیاستدانوں اور انکی جماعتوں کی ایسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی میں حکومت۔

آج میرے جیسے محب وطن جنہوں نے دیار غیر میں رہ کر پاکستان کے نام کو فخر سے بلند کیا پاکستان جانے سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں  انہیں  بھی نامعلوم افراد کی فہرست میں نہ ڈال دیا جائے یا انکی بھی   مسخ شدہ لاشیں کسی سنسان جگہ سے  نہ دستیاب ہوں۔

آج پاکستان کی گرتی ہوئی بدحالی کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ اگر کوئی بچا سکتا تھا تو وہ پاکستان کی چوبیس کروڑ عوام تھی مگر انکے ذہنوں کو بھی غلامی اور موت کے خوف میں جکڑ دیا گیاہے۔

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

Recommended For You

About the Author: Tribune