مسلہٗ کشمیر صرف ا من کی بات نہیں

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

مسلہ کشمیر پاکستانیوں کے لئے ایک قومی مسلہ ہے لحاظہ تمام کالم نگاروں، اینکروں، اسپیکرز اور کمیونٹی لیڈرز کو چائیے کہ وہ کشمیر کے تناظہ پر تفصیل سے معلومات حاصل کریں، تاریخی  پس منظر کو جانیں اور بہت اہم بات یہ ہے کہ  پاکستان کا  کشمیر پر موقف دوسروں تک پہنچائیں۔ کیونکہ بھارت کشمیر کے معاملہ پر دنیا کو گمراہ کرتا ہے اور لوگ تاریخ  کا مطالعہ کرکے اصل حقائق جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔

 ہر کسی کو کشمیر کے موضوع پر بغیر معلومات اور پاکستان کے موقف کو جانے بغیر عوام میں آکر صرف امن امن کی بات نہیں کرنی چائیے بلکہ پاکستان کا کشمیر پر کیا موقف ہے یہ بات عام کرنے کی  ضرورت  ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ دنیا کا ہر انسان امن چاہتا ہے، اور امن کی بات کرنا انسانیت کو قائم رکھنے کا پیغام ہے ، مگر امن اسُ وقت تک کسی طبقہ میں اور ملکوں کے درمیان قائم نہیں ہو سکتا جب تک زمینی حقیقت کو تسلیم کر تے ہوئے انصاف کی بات نہ کی جا ئے۔

پاکستان کا موقف مسلہ کشمیر پر بالکل واضح  اور صاف ہے، پاکستان چاہتا ہے کہ مسلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے  منظور  شدہ  قرارداد کے تحت حل کیا جائے۔ یہاں ہمیں یہ سمجھنا چائیے کہ جب ۱۹۴۷ میں کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے کشمیریوں سے رائے  لئے بغیر اور پاکستان کو شامل کئے بغیر بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا  جس  کے رد عمل کے طور پر کشمیری مسلمانوں  نے جو اکثریت میں تھے  مخالفت کی اور سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیا تو ہری سنگھ نے بھار ت سے عسکری مدد حاصل کی۔ پھر کشمیری مجاہدین اور بھارتی فوجوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں اور پاکستان کی فوج نے مجاہدین کی حمایت میں کشمیر میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔  پاکستان کی فوج نے چند ہفتوں میں کشمیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا جسے ہم آزاد کشمیر کہتے ہیں اور پھر وہاں کشمیروں کی آزاد حکومت قائم کی۔ بھارت نے جب یہ دیکھا کہ اس کے ہاتھ سے کشمیر جنگ کے نتیجے میں نکلا جا رہا ہے تو اس نے اقوام متحدہ سے رابطہ کیا۔ بھار ت کے اُس وقت کے وزیر اعظم جوال لال نہرو نے اقوام متحدہ اور پھر سیکورٹی کونسل سے منظور کی جانی والی قراردادوں پر حامی بھر لی ، پاکستان نے بھی اصولی طور پر ان قراردادوں کو  منظور کر لیا۔   کشمیر پر قراردادوں کی کاروائی پر مواد انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے جس کا آپ مطالعہ کر سکتے ہیں مگر میں خلاصہ کے طور پر یہ بتا دوں کہ

سیکورٹی کونسل کی قرارد ۳۹ پہلے جنوری ۱۹۴۸ کو منظور ہوئی اور پھر قرارد اد اپریل ۱۹۴۸ کو منظور ہوئی  جس کے مطابق کشمیر  میں ریفرینڈم کے ذریعہ کشمیرویوں سے پوچھا جائے گا کہ کشمیری  کیا چاہتے ہیں، کیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پھر ایک آزاد ریاست کے طور پر رہتا چاہتے ہیں۔اس ریفرینڈم کے انعقاد کا  منصوبہ تین اقدام کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں مکمل ہو نا تھا۔ (۱) پہلے علاقے کو آرمی کی مسلحط سے پاک کرنا ہوگا جس کے لئے پاکستان کو اپنی آرمی کو  کشمیر سے ہٹانا  ہوگا اور بھارت کو بھی علاقے میں امن کے لئے اقدامات کرنے ہونگے

 (۲)  ریفرینڈم کے انعقاد کے لئے ایک  آزاد اور غیر جانبدار کمیشن کا قیام تھا جس کو کشمیر میں آزادانہ ریفرینڈم کرانا تھا

(۳)    ریفرینڈم کا انعقاد اور پھر اس کے نتائج  پرعمل درآمد

اقوام متحدہ کی یہ قرار داد  مسلہ کشمیر کاایک غیر جانبدار  حل تھا اسی وجہ سے پاکستان نے اس کو قبول کیا ورنہ پاکستان تو  جنگ کے ذریعہ کامیابی سے کشمیر کو بھارت کی فوج سے آزاد کرانے کی جانب بڑھ رہا تھا اور اگر وہ جنگ کچھ عرصہ اور جاری رہتی تو پاکستان کا جھنڈا سری نگر پر لہرارہا ہوتا۔

سیکورٹی کونسل کی ۱۹۴۸ میں منظور قرار داد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھارت نے اس پر عمل نہ کرنے کے لئے بہانے شروع کر دئیے اور کہا کہ پاکستان پہلے کشمیر سے اپنی فوجیں نکالے جو پاکستان کے لئے مناسب نہیں تھا کیونکہ پاکستان یہ ضمانت چاہتا تھا کہ بھارت قرار دار پر پوری طرح سے عمل درآمد کرےگا۔ پھر بھارت نے اپنا موقف تبدیل کرکے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کشمیر کا مسلہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی بجائے بھارت اور پاکستان آپس میں بات چیت کے ذریعہ حل کر لیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جب کوئی دو ملک آپس میں حالت جنگ پر پہنچ چکے ہیں اور بھار ت خود اقوام متحدہ پہنچ کر سیکورٹی کونسل کو شامل کرکے اس کی قرارداد کو  مان  چکا ہے  تو پھر یہ کہنا کہ آپس میں بیٹھ کر بات چیت کرلیں ۔

 خیر ۱۹۷۲  میں  شملہ ایگریمنٹ میں پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھارت کی وزیر اعظم  اندار گاندھی سے محاہدہ کیا اور اس بات پر راضی ہوگئے کہ ہاں کشمیر کو دو طرفہ بات چیت کے ذریعہ حل کرلیا جائے۔  افسوس کا مقام یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا اندرا گاندھی سے شملہ محاہدہ کو بھٹو کا ایک بہت بڑا کارنامہ کہا جاتا ہے مگر اصلیت یہ ہے کہ بھٹو نے شملہ محاہدہ کے ذریعہ کشمیر کے مسلہ کو اقوام متحدہ کی قرار داد کے ذریعہ حل کرنے سے انحراف کیا جس کی وجہ اب بھارت مسلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کی باہمی مشاورت سے حل کرنے کے بہانے کشمیر پر قبضہ جاری رکھے ہوے ہے اور کشمیر کے اکثریتی مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے اقدامات کر رہا ہے۔

یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں  مگر کیا امن اس وقت تک قائم ہو سکتا ہے  جب  تک آپ اس مسلہ کو حل نہ کریں جس کی وجہ سے امن برباد ہوا۔ لحاظہ پاکستانیوں کو چائیے کہ وہ دنیا کو یہ بتائیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ مسلہ کشمیر کو حل کیا جائے تا کہ کشمیر میں امن قائم ہو، کشمیریوں کو آزاد فضائوں میں سانس لینے کو ملے۔ اور اگر یہ امن بھارت اقوام متحدہ کی قراردادوں یا دو طرفہ بات چیت کے ذریعہ  حل نہیں کرنا چاہتا تو پھر پاکستان مقبوضہ کشمیر بھی اسی طرح حاصل کریگا جس طرح آزاد کشمیر حاصل کیا تھا۔

 کشمیر کا معاملہ  ایک انسانی مسلہ ہے ، کشمیریوں کی جان و مال کا مسلہ ہے، انکے مستقبل کا مسلہ ہے۔ کشمیریوں کی بد قسمتی ہے کہ اس میں کشمیریوں کے علاوہ پاکستانی اور ہندوستانی بھی فریق رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے کشمیر کے خطے کے ساتھ اپنے مفادات جڑے ہیں جن پر وہ  سمجھوتہ کرنا نہیں چاہتے۔ اب ستر سال گزرنے کے بعد پاکستانی اور ہندوستانی سب جانتے ہیں کہ انکے کشمیر کے ساتھ کیا مفادات ہیں۔  ہاں پاکستان کا ایک اصولی موقف ہے کہ کشمیر میں رائے شماری ہونی چائیے اور کشمیریوں کو موقع دینا چائیے کہ ان سے پوچھا جائے وہ کیا چاہتے ہیں اور پھر انُ کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کے مسلہ کا حل نکالنا چائیے۔ ہندوستان کو خوف ہے یہ اگر بات کشمیریوں  کی رائے شماری پر چھوڑی گئی تو اکثریت کا فیصلہ ہوگا کہ  ہاں وہ آزادی چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی  پاکستان کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں۔لحاظہ  معاملہ وہیں کا وہیں ہے اور کیونکہ پاکستان اور ہندوستان کوئی لچک نہیں دکھانا چاہتے دنیا کی عظیم طاقتیں بھی اس مسلہ پر نہ تو ہندوستان اور نہ ہی پاکستان پر کوئی دبائو ڈالنا چاہتی ہیں۔

ایسے سینکڑوں میل دور حملہ کرنے والے میزائیلوں کا کیا کریں گے جب ہم کشمیر کی بہنوں کی عزت نہیں بچا سکتے ہوں۔  حکمران ایمان کا دعوی کرنے والے اعلانِ جنگ کرنے سے گھبراتے ہوں اور دشمن روز ہمارے نوجوانوں، بچوں اور بوڑھوں کا کشمیر میں قتل عام کر رہا ہو۔  حقیقت یہ ہے کہ ہم صرف زبانی کلامی نعرہ لگانے ، ریلیاں نکالنے اور تقریریں کرنے کے علاوہ کشمیریوں کے لئے کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ہم کرتارپور راہداری کھول کر سکھوں کو پاکستان  آنے کی دعوت دی سکتے ہیں مگر لائن آف کشمیر عبور کرکے کشمیریوں کی مدد کے لئے نہیں جا سکتے۔ لحاظہ کشمیرکا مسلہ یونہی کٹھائی میں پڑا رہے گا جب تک کہ طاقت کے ذریعہ اس مسلہ کو حل نہ کیا جائے، کشمیری اس کے لئے تیارہیں ، وہ  تو پہلے ہی ہزاروں لوگوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور حتمی جنگ کے لئے تیار ہیں مگر پاکستان کہتا ضرور ہے مگر حتمی جنگ کے لئے بھارت کے ساتھ تیار نہیں اور بھارت یہ بات جانتا ہے۔ (سید عتیق الحسن سینئر صحافی اورتجزیہ نگار ہیں، سڈنی میں کشمیر کے مسلہ پر آواز اٹھانے میں یہ بانیوں میں سے ہیں جنہوں نے ۱۹۹۸ میں ایک تاریخی کشمیر کانفرنس کا بھی انعقاد کیا تھا)

Recommended For You

About the Author: Tribune