علامہ اقبال کا فلسفہ

مسلم نوجوانوں کی زندگی صرف یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تعلیم اس لیے حاصل کریں کہ انھیں ملازمت مل جائے یا دولت کمائیں؟ بلکہ اقبال نے نوجوانوں کو ان کا ماضی یاد دلاتے ہوئے کہا

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال

ہے کہ تمہارے اسلاف نے اس دنیا کی رہنمائی کی ہے۔ اس پس منظر میں علامہ اقبال نے جب مسلمان نوجوانوں کے طرز عمل اور کردار کا جائزہ لیا، تو انھیں بے حد صدمہ ہوا، لیکن اقبال ایک باحوصلہ اور پرعزم انسان تھے۔ اپنے تعمیری مقاصد حاصل کرنے کے لیے انھوں نے دو طویل تعمیری نظمیں لکھیں جو شکوہ اور جواب شکوہ کے نام سے مشہور ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم وہ نظم ہے جو نوجوانان اسلام کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہے۔ اقبال نے محسوس کیا تھا کہ مسلمان نوجوان مغربی تہذیب کا لباس پہن چکے تھے اور اس کردار سے دور ہوگئے تھے جو اسلام کا سرمایہ ہے۔ اس تناظر میں اقبال نے نوجوانانِ اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں احساس دلایا ہے کہ وہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں اوراپنے کردار پر نظر ڈالیں۔

ہندوستان میں مسلسل ناکامی کے باعث مسلمانوں میں ایک ٹھہرائو آگیا تھا، مسلمانوں میں بہترین قائدین موجود تھے لیکن قوم مجتمع نہیں ہورہی تھی، قیادت نہ ہونے کے باعث قوم حقیقی تہذیبی، سیاسی اور معاشی مسائل کا شکار تھی۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے شکست خوردہ قوم کے تن مردہ میں زندگی کی روح پھونک دی اور نوجوانوں کو عمل پر آمادہ کیا۔ اقبال کے افکار نے ایک عظیم مملکت کی تاسیس کی، جن کی کوششوں نے قائداعظم کو حصول پاکستان کی جدوجہد پر آمادہ کیا۔ پاکستان خواب اقبال ہے، جس کی تعبیر آج کے نوجوانوں نے کرنی ہے۔ یقیناً پاکستانی نوجوانوں میں ایک عزم و حوصلہ موجود ہے لیکن انھیں تربیت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ تعمیر پاکستان کے لیے نوجوانوں کو قلم اور کتاب سے رشتہ استوار کرنا ہوگا، علمی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہوئے غفلت اور لاپروائی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔ یقیناً ہم اس معاشرے کی تعمیر کرسکیں گے، تعمیر پاکستان ہی ہماری منزل ہے، اس منزل تک رسائی ممکن ہے کیونکہ علامہ اقبال کے خواب کی سرزمین یعنی پاکستانی فضائوں میں عدل و انصاف کی بہار کی اساس فکر اقبال ہے، جو بزرگوں کے نقش قدم کی پیروی کرنا ہے۔

تھے وہ آباءتمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

گنوا دی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

 

Recommended For You

About the Author: Tribune