سندھ کی تین صوبوں میں انتظامی بنیادوں پر تقسیم وقت کی ضرورت ہے

بقلم سید عتیق الحسن ؛

دنیا میں ریاستیں اپنا کاروبار احسن طریقہ سے چلانے ،عوام کو بہتر نظام اور سہولتیں فراہم کرنے کے لئے  اور وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے نئے صوبے قائم کرتی  رہتی ہیں۔ اگر پاکستان میں نئے صوبوں کا آج مطالبہ ہو رہا ہے تو کوئی گناہ نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا مطالبہ ہے جو اس سے پہلے دنیا  کی کسی ریاست  میں   نہیں ہوا، اور نہ ہی یہ پاکستان کے نظریات کے خلاف ہے۔ جن چار صوبوں پر آج پاکستان قائم ہے یہ بھی ہمیشہ سے اسِ جغرافیہ اور حدود میں پہلے نہیں تھے۔ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام سے پہلے مشترکہ ہندوستان میں انگریزوں کے دور میں ہندوستان میں کوئی صوبے نہیں تھے بلکہ  نوابوں اور راجائوں کی ریاستیں تھیں۔ ہندوستان میں ۱۹۵۰ تک پرانی  ریاستیں قائم رہیں  پھر ۱۹۵۱ سے ۱۹۵۶ تک ہندوستان میں   نئے صوبے بنائے گئے۔ آج ہندوستان میں ۳۶ صوبے ہیں ۔  اگر پاکستان کے پڑوسی ممالک اور خطہ کا  جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج  افغانستان میں ۳۴ ،  ایران میں ۳۱ ، ترکی میں ۸۱ ،   نیپال میں ۷ ،  سری لنکا میں ۹،  ملیشیا میں  ۱۱ صوبے ہیں۔ پاکستان اسِ خطہ کا واحد ملک ہے جہاں ۲۱ کروڑ کی آبادی میں صرف چار صوبے ہیں اور جہاں ایک صوبہ پنجاب کی آبادی ۱۲ کروڑ ہے جو خطہ کے کئی ممالک کی مجموعی  آبادی سے زیادہ ہے۔  کیا پاکستان کی ریاست کو اسِ طرح چلایا جا سکتا ہے کہ ایک وزیر اعلی، ایک آئی جی پولس، ایک اعلی عدالت کا جج  اور چند وزرا  ۱۲  کروڑ کی آبادی کے نظام کی رکھوالی کریں اور اس میں بستے مختلف طبقوں کی نمائندگی کریں  ۔

سندھ کی آبادی ۵ کروڑ ہے۔ جب ۱۹۷۳ میں پاکستان کو نیا آئین دیا گیا تو سندھ کی آبادی ڈیڑھ کروڑ تھی، اُس ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے صوبے کو سندھ دہی اور سندھ شہری میں تقسیم کیا گیا اور  جب  یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو  مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد  پاکستان کی نئی قومی اسمبلی میں سب خاموش تھے کسی کو یہ غیرت نہیں آئی  اور نہ ہی کسی کا ضمیر جاگا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو سے یہ سوال کرتے کہ  یہ سندھ دہی اور سندھ شہری کی تقسیم صرف سندھ میں ہی کیوں۔ کیا پنجاب میں دہی اور شہری علاقے نہیں ہیں بلکہ پنجاب میں سندھ سے زیادہ شہر اور دیہات آباد تھے اور آج بھی ہیں۔ مگر  اصل بات تو  تھی  کہ سندھ کا ایک طبقہ جس کو مہاجر کہا جاتا ہے  کو دیوار سے لگا نا تھا، انُ پر سرکاری ملازمتوں اور اعلی تعلیم کے دروازے مزید بند کرنے تھے۔  اس کوٹہ سسٹم کے  نظام میں  آج چالیس سال بعد سندھ کہا کھڑا ہے کیا   سرکاری ملازمتوں اور اعلی تعلیی اداروں میں    کوٹہ سسٹم کو استعمال کرکے  مہاجروں کے لئے  دروازے بند  کرنے سے  سندھ کے دہی علاقوں کے سندھیوں کی حالت بہتر بنادی گئی؟

دراصل سندھ کے  زوال کا آغاز   ۱۹۷۳ میں ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان کے آئین میں   کوٹہ سسٹم   کے  نفاذ سے ہوا جس میں سندھ کو سندھ دہی اور سندھ شہری میں تقسیم اور پھر سندھ شہری میں صرف کراچی ، حیدرآباد اور سکھر کو شامل کیا گیا جہاں اکثریت میں مہاجر آباد تھے۔  ہونا تو یہ تھا کہ کوٹہ سسٹم کو ختم کیا جاتا سندھ میں سب کو میرٹ پر ان کے حقوق دئیے جاتے مگر ایسا نہیں ہوا۔ کوٹہ سسٹم  ایک غیر انسانی اور غیر اسلامی عمل تھا جس پر بد قسمتی سے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحہ کا تجربہ رکھنے کے باوجود  بھی خاموش رہیں۔ کیونکہ انِ تمام قومی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اپنے مقاصد پر کوئی حرف نہیں آرہا تھا۔ پھر فوجی جرنیلوں نے بھی کوٹہ سسٹم پر نہ صرف آنکھیں بند رکھیں بلکہ اس میں مزید توسیع کی۔   چاہے فوجی حکومت ہو یا پھر نام نہاد جمہوری حکومتیں وہ کسی بات پر  متفق ہوں  یا نہ ہوں  مگر کوٹہ سسٹم کو سب نے لبیک کہا جو کہ پاکستان کے لئے بڑی شرمندگی کا باعث ہے کیونکہ یہ نظریہ پاکستان کے منافی ہے اور اسلامی اقدار کے خلاف ہے۔   پاکستان کی شریعی عدالت نے بھی کوٹہ سسٹم کو غیر اسلامی قرار دیا تھا مگر کسی حکومت نے بھی اس کو ختم کرنے پرکوئی قدم نہیں اٹھایا۔

پاکستان کا قیام انسانوں  اور  انسانوں میں موجود مختلف طبقوں کوبرابری کے حقوق  کے نظریہ کی بنیاد پر  وجود میں آیا تھا۔ بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے قیام کے بعد کہا تھا کہ پاکستان میں سب شہریوں کے برابری کی بنیادپر حقوق  ہونگے چاہے ان کا مذہب، رنگ، نسل، اور زبان کچھ بھی ہو۔

مگر کیا یہ گیا کہ سندھ دہی اور سندھ شہری کی تفریق ڈال کر   سندھ میں ایک نسلی انتہا پسندی اور معتصبانہ  سیاست شروع کی گئی۔  دہی علاقوں کے عام سندھی کو سندھی قوم پرستی بیچی گئی اور بدلہ میں  سندھی گردی کا ووٹ لیا گیا تاکہ سندھ پر اپنی مرضی سے  راج کریں۔  سندھ دہی کا کوٹہ ہر شعبہ میں سندھ شہری سے زیادہ رکھا گیا صرف یہ ظاہر کرنے کے لئے وہ سندھی عوام کے مخلص ہیں  اور آج حقیقت یہ کہ  آج تک دہی علاقے کے لوگوں کو جاہل بنا کر رکھا گیا، انہیں آج تک نہ اچھی تعلیم دی گئی، نہ ڈھنگ کے ہسپتال بنائے گئے،  نہ ہی کوئی عوامی ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کی  گئی  اور نہ ہی صحیح قومی  سیاسی سوچ دی گئی سوائے جئے بھٹو کے نعرہ  کے۔

 دوسری طرف سندھ کے تین بڑے شہروں کراچی ، حیدرآباد اور سکھر جو کہ سندھ میں تعلیم کا گہوارا تھے جہاں فن و ادب کی محلفیں سجا کرتی تھیں ، جہاں سیاسی سوچ رکھنے والے اعلی ذہن پیدا ہوتے تھے ، جہاں   بڑے اعلی تعلیم یافتہ اور ہنر مند پیدا ہوتے تھے، ان پر کوٹہ سسٹم کر ذریعہ اعلی تعلیم اور سرکاری ملازمتوں کے دروازے بند کر دئیے گئے  تاکہ انُ کو بھی دہی سندھ کی طرح جاہل بنا کر رکھا جائے۔ اسِ حکمت عملی پر بڑی منصوبہ بندی سے کام کیا گیا۔  ایک اور  بد نصیبی  یہ ہوئی کہ  مہاجروں کو دیوار سے لگانے  پر جو رد عمل   ان تین شہروں میں پیدا ہوا  اس کو حقوق حاصل کرنے کی تحریک  کا نام دیکر        الطاف حسین نے مہاجر قومی مومنٹ بناکر ایک تحریک   شروع کی  اور پھر حالات نے دیکھا کہ اس کو  تحریک کو  الطاف حسین اور اسکے ٹولے نےصرف اپنے  ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا۔ سندھ میں دو سیاسی جماعتی نظام  سندھی  بولنے والوں  کی پی پی پی اور اردو بولنے والوں کی ایم کیوایم  نے سندھ کی عوام کو اپنے جال میں ایسا پھنسایا کہ وہ اب ایک بند گلی میں نظر آتے ہیں۔ مہاجر مجبور ہیں ایم کیو ایم کے پیچھے چلنے  پر اور سندھی مجبور ہیں پی پی پی کی حمایت کرنے پر۔ جب تک ایم کیو ایم زندہ رہے گی سندھ میں پی پی پی حکومت کرتے رہے گی۔

 اگر اب سندھ کے پانچ کروڑ عوام کی حالت بہتر بنانی ہے، سندھ کے شہروں ، قصبوں اور گائوں کو ترقی دینی ہے تو پی پی پی اور ایم کیو ایم سے سندھ کے عوام کو نکالنا ہوگا۔ انِ دونوں جماعتوں کی تقسیم اور حکومت کی پالیسی کو ختم کرنا ہوگا۔

کوٹہ سسٹم کی لعنت اور اسکا اثر سند ھ اور سندھ کی عوام پر بہت بڑا ہوا ہے۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے نوجوانوں پر اعلی تعلیم اور سرکاری نوکریوں  کے  دروازے بند  ہیں ۔  آج اگر سندھ سیکٹریٹ جو کراچی میں واقع ہے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے وہاں ایک چپڑاسی سے لیکر ۲۲ گریڈ کے افسر تک کوئی مہاجر نظر نہیں آتا۔ یہ ہی حال پولس اور دوسرے محکموں کا ہے۔ دوسری جانب سندھ کے دہی علاقوں سے سیاسی بنیادوں پر نوکریاں نا اہل اور جرائم پشہ افراد میں بانٹیں گئیں ہیں،  جس کا نتیجہ آج سندھ میں ہر طرف جہالت اور جرائم نظر آتے ہیں۔ وزیر سے لیکر اعلی افسر تک یا تو نا اہل ہیں یا پھر جرائم کی دنیا سے وابسطہ ہیں۔ تعلیم، صحت، اور روزگار نا پید ہے۔ جرائم کا تناسب ہر روز بڑھ رہا ہے۔ پولس  میں جرائم پیشہ لوگ اعلی عہدوں پر فائز ہیں جن سے عام شہری خوفزدہ رہتے ہیں۔

انِ حالات میں اگر پاکستان کی ایک اکائی کو قائم رکھنا ہے تو پاکستان کو چلانے والی طاقتوں کو سندھ کے حالات اور مستقبل پر  فوری توجہ دینی ہوگی۔  ۱۹۷۳ میں جب سندھ کو سندھ دہی اور سندھ شہری میں تقسیم کیا گیا تو سندھ کی آبادی تقریبا ڈیڑھ کروڑ تھی آج سندھ کی آبادی تقریبا پانچ کروڑ ہے  مگر سندھ شہری اور دہی  کی  تقسیم وہیں کی وہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۷۳ میں حیدرآباد کی  جو آبادی تھی  آج میر پور خاص اور نوابشاہ کی آبادی اُس سے زیادہ ہے۔  ظلم اور نا انصافی کا عالم یہ ہے کہ کراچی ، حیدرآباد اور سکھر کی مجموعی آبادی سندھ کی کل آبادی کا   بڑا حصہ ہے مگر کوٹہ سسٹم کے تحت سندھ کے ۱۹ فیصد کوٹہ میں سندھ شہری  یعنی انِ تین بڑے شہروں کا کوٹہ صرف  ۷ اشاریہ ۶ فیصد ہے۔  جس پر تمام قومی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور فوجی حکومتیں آنکھیں بند کرکے اس کوٹہ سسٹم کو پچھلے چالیس سال سے چلا رہی ہیں  اور ۲۰۱۳ میں کوٹہ سسٹم میں  مزید بیس سال کے لئے  توسیع کر دی گئی ہے لحاظہ اس کوٹہ سسٹم کے خاتمہ کو اب بھول ہی جائیں تو بہتر ہے۔  پھر  اگر الطاف حسین جیسے لوگ  اور مہاجر قومی مومنٹ جیسی جماعتیں اسِ ظلم کے رد عمل کے طور پر بنتی ہیں تو ان پر غداری کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ میں یہاں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا مگر کسِ نے نہیں دیکھا اور کسِ کو پتہ نہیں کہ الطاف حسین کے سر پر ہاتھ رکھنے والا بھی  فوجی جرنیل  اورحاکم وقت ضیاالحق تھا۔ اسِ پاکستان کی ریاستی طاقتوں  نےمجبت الرحمن پر غداری کا الزام لگا کر جیل میں ڈالا اور پھر ملک بدر کر دیا۔ ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا اور ہر اُس شخص کو دبانے کی کوشش کی جس  نے اس بوسیدہ نظام کے خلاف آواز اٹھائی۔

آج پانچ کروڑ کی آبادی والے صوبے میں صرف ایک ہی جماعت کا کنٹرول ہے اور وہ ہے پیپلز پارٹی جس نے سندھ کے دہی علاقے کے سندھیوں کو زبان کے نام پر یرغمال بنایا ہوا ہے۔ سندھ میں اسِ جماعت میں وہ لوگ شامل ہیں اور آج پالیمان کا حصہ ہیں جو اپنی طالبعلمی کے زمانے میں سندھ کی اعلی  تعلیمی درسگاہوں میں پاکستان کا جھنڈا جلاتے تھے۔ یہ ایک مخصوص  سندھ کا ٹولہ ہے  جس  نے  سندھ کی عوام اور صوبہ کو یرغمال بنایا ہوا ہے نظریاتی طور پر پاکستان کے خلاف ہے ۔ یہ پاکستان کی بات اُس وقت تک  کرتا ہے جب تک اسِ ٹولے کے  ذاتی ایجنڈے پورے ہوتے رہتے ہیں ، یہ پاکستان کی فوج کو بھی بلیک میل کرتے ہیں ۔ یہ وہی باتیں کرتے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۱ میں کہا تھا کہ اگر مجھے پاکستان کا وزیر اعظم نہیں بنایا گیا تو پھر ادھر تم ادھر ہم۔

دوسری جانب کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں ایم کیو ایم نے مہاجروں کے  حقوق کے نام  پر مہاجروں کے ووٹ حاصل کرکے پیپلز پارٹی سے سودے بازی کی  تاکہ صرف اپنی جماعت اور ذاتی ایجنڈوں کی تکمیل  ہو سکے۔ آج سندھ میں صرف مہاجر اور سندھی ہی نہیں بستے یہاں لاکھوں کی تعداد میں دوسرے صوبوں سے آئے طبقے  کے لوگ آباد ہیں جن میں بڑی تعداد میں پٹھان ، بلوچ، سرائیکی اور پنجابی شامل ہیں۔

لحاظہ پچھلے چالیس سالوں سے جاری سندھ کے بوسیدہ نظام  کی ازِ نو تشکیل کرنی ہوگی۔ سندھ کو مزید انتظامی یونٹس میں تبدیل کرکے کم سے کم تین صوبوں میں تقسیم کرنا ہوگا تاکہ اسِ حکومت پر قابض بدمعاش اور بدعنوان ٹولے سے نجات حاصل کی جائے اور عام شہری کی حالت بہتر بنانےکے لئے صاف، شفاف اور میرٹ کا نظام نافظ کیا جائے جو سندھ کے ہر طبقہ کو  ہر شعبہ میں برابری کا حق دے۔

اس سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ سندھ کے موجودہ چھ ڈیویزنوں کو تین صوبوںمیں تقسیم کر دیا جائے۔جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

Division of Sindh Map 3 Provinces small۔ ۱) سندھ شمالی جو  سندھ کے موجودہ  ڈیویزن لاڑکانہ اور سکھر پر مشتمل ہو

۔۲) سندھ سینٹرل جو سندھ کے موجودہ ڈیویزن  حیدرآباد، نوابشاہ اور میر پور خاص پر مشتمل ہو

۔  ۳) سندھ جنوبی جو سندھ کے مودہ ڈیویزن کراچی پر مشتمل ہو

سندھ کے نظام کو بہتر بنانے، سندھ سے لسانی سیاست کو دفن  کرنے، سندھ سے متعصب اور غیر منصفانہ نظام کے خاتمہ کے لئے اس  سے بہتر تجویز اگر کسی کے پاس ہے تو پیش کر سکتا ہے مگر میں جو پچھلے چالیس سال سے سندھ کے اسِ مسلہ پر لکھ رہا اور اپنے طور پر آواز اٹھا رہا ہوں   اور سندھ میں پچھلے چالیس سالوں میں جو کچھ ہوا قریب سے دیکھتا رہا ہوں یہ سمجھتا ہوں کہ سندھ کی عوام اور سندھ میں آباد تمام طبقوں کے لئے اسِ سے بہتر حل ہو نہیں سکتا جس سے کسی بھی طبقہ اور سندھ کی  بلا تفریق تمام عوام کو  کوئی نقصان نہیں ہوگا،  ورنہ سندھ سے نہ تو لسانی سیاست ختم ہوگی ، نہ ایم کیو ایم ختم ہوگی اور نہ ہی پی پی پی کی حکومت میں رہ کر چور بازاری کی  حکمتِ عملی  ختم ہوگی۔

آج جب پنجاب میں جنوبی پنجاب اور بھاولپور صوبے کی باتیں ہو رہی ہیں اور حال ہی میں  قومی اسمبلی میں بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کیلئے آئینی ترمیمی بل جمع کرادیا گیا۔ یہ صحیح وقت ہےکہ سندھ میں مزید صوبے بنانے کا بلِ بھی قومی اسمبلی می پیش کیا جانا چائیے۔اگر صوبہ پنجاب کو تقسیم کرکے دو نئے صوبوں کی بات ہو سکتی ہے تو سندھ میں تین نئے صوبوں کی بات کیوں نہیں ہو سکتی جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Recommended For You

About the Author: Tribune