سانحہ حیدرآباد اور سندھ میں نسلی و لسانی سیاست

بقلم سید عتیق الحسن

۳۰ ستمبر ۱۹۸۸ کو میں حیدرآباد میں موجود تھا جب جئے سندھ کے انتہا پسندوں نے حیدرآباد کی گنجان سڑکوں پر اسلحہ کے ساتھ جیپوں پر سوار ہو کر راہ گیروں اور دکانداروں پر بلا

قائل قادر مگسی ایک جلسہ میں عمران کو اجرک پہنا رہا ہے

تفریق بچوں، بڑوں اور عورتوں پر فائیرنگ کی جس کے نتیجہ میں تین سو کے قریب شہری موقع پر ہی ہلاک ہوگئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔ ہمارا گھر سول ہسپتال حیدرآباد سے چند منٹ کے فاصلے پر تھا۔ میں جب فوری طورپ پر ہسپتال پہنچا تو دیکھا ہر طرف نوجوان، بزرگوں اور عورتوں کی لاشیں لوگ ہاتھوں میں اٹھائے ہسپتال لا رہے ہیں۔ شہر میں ایک کوہرام مچا ہوا تھا۔ شہریوں میں غصہ  اور آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔اسِ سے پہلے کہ  بربریت کاشکار ہونے والوں کے لواحقین اور شہری کوئی رد عمل کرتے شہر میں پولس اور رینجرز آگئی مگر پھر بھی اردو اور سندھی بولنے والوں کے درمیان خونی فسادات پھوٹ پڑے۔  مہاجروں پر گولیاں برسانے اور اندھا دھند قتل کرنے والوں میں قادر مگسی، ذوالفقار مرزا سمیت کئی جئے سندھ کے انتہا پسند لیڈر پیش پیش تھے۔ جن  کا نام  آج سندھ کے عظیم قائد ین میں شمار کیا  جاتا ہے۔ جی ہاں یہ وہی قادر مگسی ہے جس کی قتل کی وارداتوں کو قربانیوں کا نام دیکر جیو ٹی وی نے اسکو ایک پروگرام کے ذریعہ خراجِ تحسین پیش کیا۔ نیز ایک جلسہ میں اسی قادر مگسی نے عمران خان کو اجرک پہنا کر عزت بخشی۔ اور ہاں یہ وہی ذوالفقار مرزا ہے جس نے کراچی میں میڈیا کے سامنے کہا کہ مہاجروں کا قتل عام کیا جائے گا اور اسکی بیوی فہمیدہ مرزا کو پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کا اسپیکر بنایا اور عمران خان کی حکومت میں سینٹر بنایا گیا جو آج بھی سینٹر کے عہدہ پر قائم ہیں۔

الطاف حسین اور اسکی ایم کیو ایم کا اُس وقت کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ کے شہروں میں عروج تھا۔ اکثریت میں مہاجر الطاف حسین کے پیچھے کھڑے تھے۔ الطاف حسین اور اسکے

سانحہ حیدرآباد ۱۹۸۸

ساتھیوں نے  فوری طور پر  حیدرآباد میں ایم کیو ایم  کی قیادت کو جمع کرکے ایک میٹنگ کی اور تمام ایم کیو ایم کے کارکنوں کو کہا کہ آپ نے کوئی ردِ عمل نہیں کرنا اور کسی قسم کا خون خرابہ نہیں کرنا۔ جس پر کئی حیدرآباد کے ایم کیو ایم کے نوجوان  نہ صرف سکتے میں آگئے بلکہ مشتعل ہوگئے اور اسی میٹنگ میں ایک دو نوجوانوں نے الطاف حسین کو کہا کہ وہ حیدرآباد سے فوری طور پر چلا جائے  ہم خود نمٹنے لیں گے۔ ہم اپنے مقتولین کا بدلہ لیں گے۔   اس کے کچھ عرصہ بعد الطاف حسین کی  مخالفت کرنے والوں کی لاشیں حیدرآباد کی سڑکوں پر پائی گئی۔ مجھے تو ذاتی طور پر اسی وقت شک ہو گیا تھا کہ الطاف حسین کے پیچھے ایسے عناصر ہیں جو سندھ میں لسانی بنیادیوں پر فسادات اور تقسیم چاہتے ہیں۔

میں اور میرے بہت سارے ساتھی الطاف حسین کی کئی پالیسیوں سے اتفاق نہیں رکھتے تھے، اور ہمیں شروع سے ہی الطاف حسین کی حکمت عملی اور مہاجروں کے مسائل کا نعرہ لگا کر پاکستان کی سیاست میں شامل ہونے کا شک تھا۔ وقت کے ساتھ میرا شک صحح ثابت ہوا جس کا ذکر میں نے اپنے کئی کالموں میں لکھا ہے۔ ہمارا موقف یہ تھا کہ مہاجروں   کے مسائل  کو لیکر مطالبات کو صرف اسی حد تک رکھا جائے جو بنیادی مسائل ہیں  اور یہ  انِ مسائل  کی بنیاد سندھ میں شہری اور دھی علاقوں کی تقسیم کوٹہ سسٹم کے ذریعہ تھی۔ اگر کوٹہ سسٹم ختم ہو جاتا ہے اور سندھ میں ہر شعبہ میں میرٹ کو لاگو کیا جاتا ہے تو مہاجروں اور سندھیوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ مہاجر اور سندھی سندھ کی دو حقیقت ہیں جن کو مل کر رہنا ہے اور یہ ہی سندھ کے امن اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔ میرے ذاتی طور پر بہت سارے سندھی دوست ہیں اور خاندان میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔لحاظہ سندھ کے یہ دو بڑے طبقہ آہستہ آہستہ ایک دوسرے میں ضم ہو رہے تھے۔

  مہاجروں اور سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے غیر مہاجروں کے ساتھ بھی کوٹہ سسٹم کی وجہ سے ظلم و زیادتی ہو رہی ہے۔ مہاجروں کو اعلی تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں

الطاف حسین

میں حصہ نہیں دیا جارہا ۔ لحاظہ قومی یا صوبائی سیاست میں جانے کے بجائے مہاجروں کے  بنیادی حقوق اور مسائل اور تعصبات کو اجاگر کیا جاتا  ۔ نا کہ سیاسی جماعت بناکر قومی سیاست میں حصہ لیا جاتا جو کہ مہاجروں کا مسلہ نہیں تھا۔مہاجر دوسرے طبقوں کی طرح ہر قومی جماعت میں موجود تھے۔

 کوٹہ سسٹم کسی عام سندھی نے نافظ نہیں کیا تھا  بلکہ بر سر اقتدار سندھی سیاستدانوں اور قوم پرست جماعتیں اس کی ذمہ دار ہیں۔

 عام مہاجر اور عام سندھی سندھ کے شہری اور دھی علاقوں میں ایک دوسرے کی ضرورت تھے اور آج بھی ہیں۔ مگر سندھ کے انتہا پسند سیاستدان، سندھ کی قوم پرست تنظیمیں اور پیپلز پارٹی سندھ کے سیاستدانوں نے شہری اور دھی کی تفریق پیدا کرکے نا صرف مہاجروں بلکہ سندھیوں کے ساتھ بھی  زیادتی  کر رکھی ہے۔ خیر مختصر یہ کہ کراچی میں پیدا اور پروان چڑھنے والے  الطاف حسین  اور اسکے ساتھیوں کو اندورن ِ سندھ حالات  کا نہ تو علم تھا اور نہ ہی کوئی ہمدردری تھی۔ الطاف حسین نے حیدرآباد، سکھر، میر پور خاص اور دوسرے شہروں اور قصبوں کے مہاجروں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ۔ اپنی پارٹی کو مضبوط کیا، سیاست میں حصہ  لیا اور مہاجروں کے نام پر ووٹ لیکر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا رخ کیا۔ جی بھر کے دولت کمائی اور آج مزے سے لندن میں ملن ڈالر کے مینشن میں زندگی بسر کر رہا ہے   ۔ دوسری  جانب  ایم کیو ایم  کے لیڈران حصے بخروں میں تقسیم ہوکر مہاجروں کو دیوار سے لگا کر آج بھی اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ مہاجروں نے الطاف حسین  کا  ہر طرح سے ساتھ دیا۔ مڈل کلاس مہاجروں نے اپنے جمع پونجی بھی الطاف حسین  کو چندے میں دیدی کہ یہ مہاجروں کےساتھ جاری نا انصافیوں کا ازالہ کروائے گا مگر الطاف حسین اور اسکے حواریوں نے  اپنی زندگی  تو مالی طور پربہتری بنالی   مگر مہاجروں کو  بھکاری  اور تیسرے درجہ کا طبقہ بنا دیا۔

مگر آج تو حالات مہاجروں کے خلاف کوٹہ سسٹم اور تعصب سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ آج سندھ کی عوام  شہری اور دھی سب پریشان ہیں۔ زرداری نے سندھیوں کو بھٹو زندہ ہے کے نام پر برباد کر دیا اور الطاف حسین نے جئے مہاجر کے نام پر۔

میری پرورش حیدرآباد میں ہوئی، سندھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ کئی مرتبہ جئے سندھ کے انتہا پسندوں سے اردو بولنے پر ماریں کھائیں، کوٹہ سسٹم کی وجہ سے انجئرنگ کالج میں داخلہ نہ مل سکا وغیرہ وغیرہ اور یہ ہر مہاجر نوجوان کی کہانی تھی ۔ مگر اس کا حل عام سندھیو ں اور مہاجروں کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنا  نہیں تھا۔ میں پچھلے پچاس سال سے مہاجروں کے مسائل پر آواز اٹھاتا آیا ہوں  اور اجاگر کرتا رہوں گا۔میرے سینکڑوں کالم اور بے شمار وی لاگ مہاجروں کے بنیادی حقوق پر موجود ہیں مگر میں کسی   طبقہ بالالخصوص سندھیوں کے خلاف نہیں ہوں ۔ ہم سندھ میں پیدا ہوئے ہیں عام سندھی اور عام مہاجر ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ مہاجروں اور سندھیوں کا کوئی معاشی ٹکرائو نہیں ہے۔ دونوں طبقات مختلف شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر سندھ کے سیاستدان سندھ کی عوام سے سنجیدہ ہوتے تو ان کو قریب لاکر میرٹ کا نظام نافظ قائم کرکے  سندھ کو پاکستان کا سب خوشحال صوبہ بنا سکتے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا ۔ سندھ کی حکومت پر قابض سندھ پیپلز پارٹی کے نا اہل ، بدعنوان اور عیاش سیاستدانوں نے سندھ کے عوام کو بلا تفریق تباہ کر دیا۔ آج سندھ  کا نظام مکمل طور پر تباہ ہے۔ آج سندھ کے شہری اور دھی سب علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، سڑکیں ٹوٹی ہوئیں، تعلیمی ادارے، ہسپتال سب تباہ ہیں ہر طبقہ کے لوگ بے روزگار ہیں لوگوں کے کاروبار تباہ ہیں۔ آج سندھ میں مہاجر اور سندھی دونوں پریشان ہیں ۔ سندھ پر اسِ وقت لاکھوں افغانیوں کا قبضہ ہے جو کراچی اور حیدرآباد کے مزافاتی علاقوں میں قبائلوں کی طرز پر رہائش پذیر ہیں ۔ یہ لوگ بلا تفریق لوگوں کو لوٹتے ہیں، گھروں میں ڈاکے مارتے ہیں اور سندھ کی حکومت تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس کا ذمہ دار ریاستی ادارے اور وفاق ہے۔افغانیوں کا پاکستانی پاسپورٹ بنا کر انکو کراچی میں لاکر بسایا گیا ہے۔

خیر سندھ کیا، اب تو پورے پاکستان کا یہ ہی حال ہے۔ پاکستان میں ریاستی طاقتوں نے سب چوروں ، لٹیروں ، منی لانڈرر اور پاکستان اور فوج کا گالیاں دینے والوں کو اقتدار میں لاکر پاکستان انکے حوالے کر دیا ہے۔ الطاف حسین سے سیاسی و نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود میں یہ سوال ریاستی طاقتوں سے کرتا ہوں کہ اگر آپ نے پاکستان کے خلاف کام کرنے والوں کو، فوج کو مردہ باد کہنے والوں کو پاکستان کے  اقتدار میں بٹھا دیا ہے تو پھر الطاف حسین کا کیا قصور ہے اس کو بھی پاکستان آنے دیا جائے  تاکہ پھر  کراچی  میں بد معاشوں کا مقابلہ بدمعاشوں سے ہو۔

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

Recommended For You

About the Author: Tribune