آج میرے لئے ممکن کیا ہے؟

بقلم سید عتیق الحسن، صحافی تجزیہ نگار، سڈنی آسٹریلیا

سید عتیق الحسن

پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے جو کچھ کیا جا رہا ہے اس پر دنیا میں پاکستان ایک مزاق بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستان کا روائتی حریف  بھارت میں پاکستان اور پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف ذلت آمیز باتیں ہو رہی ہیں، آرٹیکل لکھے جا رہے ہیں، ٹی وی اینکرز ذلیل کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر ہمیں جن القاب سے نوازہ جا رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کی عوام کے کسی  معاشرتی  جرم کی وجہ سے نہیں ہورہا  بلکہ اس کے صرف اور صرف ذمہ دار پاکستان کی ریاست کو چلانی والی وہ طاقتیں ہیں جنہوں نے پاکستان کے آئین، قانون اور انصاف کو بدمعاشی ، ظلم اور بر بریت میں ڈھال دیا ہے۔ ہاں پاکستانی عوام کا قصور یہ ہے کہ وہ خاموش  تماشائی ہیں ۔ مگر عوام بھی کیا کرے، انُ کو بتدریج بنیادی ضرورتوں سے محروم کرکے بد عنوانیوں کی طرف راغب کر دیا ہے۔ آج جھوٹ بولنا، رشوت دینا اور لینا ، چوری کرنا ایک مجبوری سمجھی جاتی ہے اور کیوں نہ ہو پاکستان چلانے والی طاقتوں نے عوام کو یہی کچھ وراثت میں دیا ہے۔

میرے جیسے دردمند پاکستانی جب اپنے قلم کے ذریعہ یہ چیزیں بیان کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ آپ یہاں آسٹریلیا میں کیا کر رہے ہیں پاکستان جا کر نظام کو ٹھیک کریں، اسِ جہالت کے جواب میں اب میرے پاس لکھنے کو کچھ نہیں۔

اصل وجہ یہ ہی سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے باپ  دادا سے لیکر آج ہماری نسل تک اورشاید ہماری اگلی نسل کو بھی اگر انہوں نے پاکستان کا پرچم تھامے   رکھا تو  سزا ملے گی ۔ ہمیں سزا اسِ لئے ملے گی کہ ہمارے باپ دادا نے پاکستان کے لئے اپنی جدی پشتی ثقافت،  زبان، رہن سہن، صدیوں پرانے تعلقات،   اور وراثتی زمینوں کو خیر آباد کہہ کر پاکستان کا پرچم  بلند کیا۔ پاکستان میں آکر پاکستان کے لئے تن من دھن سب کچھ لگا دیا۔  اسُ سر زمین کا نام تک نہ لیا جہاں ہمارے اباو اجداد صدیوں سے رہ رہے تھے اور فخر کیا کہ ہمیں ایک آزاد اسلامی ریاست اللہ نے تحفہ میں بخشی۔ سلام ہو شہدائے پاکستان پر، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پر، انکے تحریکی ساتھیوں پر ، قربانی دینے والے لاکھوں مہاجرین پر اور ہمارے اباو اجداد پر   جواسی پاکستا ن کی سر زمین میں دفن ہوگئے مگر کبھی واپسی کا ذہن کے کسی گوشہ میں نہ سمایا۔ مہاجرین اور انصار کے فرق کو ختم کرنے کی کوششیں کیں ۔پاکستان کی تمام اکائیوں کو متحد کرنے کی کوششیں کیں۔ مگر ریاستی طاقتیں ہمیشہ راستے کی دیوار بنتی رہیں۔ پاکستان کی تحریک کا سرکردہ علاقہ اور پاکستان کی تحریک کی بنیاد ڈالنے والوں کو غداری کا لقت دیکر مشرقی پاکستان  کو الگ  کرنے میں ریاستی طاقتیں  اور مغربی پاکستان کے سرداروں ، وڈیروں ، چودھریوں اور جعلی سیاستدانوں نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی۔ ہم مغربی پاکستان کے جابر وڈیروں، سرداروں، چودھریوں اور  جرنیلوں کے سامنے  کچھ نہ کر سکے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونے والی ہماری نسل کو بھی  پاکستان سے مایوس  کردیا۔ پاکستان کے مقصد  اورنظریہ سے دور کر دیا۔

اپنی انسانی آزادی اور بچوں کی  زندگیوں کی حفاظت کے لئے اپنے اباو اجداد کی قربانیوں سے حاصل ہونے والے ملک کو چھوڑنا پڑا مگر کیا کریں ہماری رگوں میں تو انہیں کا خون ہے اسی لئے یہاں آسٹریلیا میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے لئے  سوچتے ہیں ، اب لگتا یہ ہے کہ یہ بیماری بھی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ ہوسکتا ہے یہاں ہمارے بچے آنے والے وقتوں میں ہمارے قصے سنائیں مگر پتہ نہیں وہ اچھے لفظوں سے یاد کریں گے یا کہیں گے کہ ہمارے  اباو اجداد نے جذبات میں آکر فیصلے کئے اور ساری زندگی اس کی سزا بھگتے رہے۔ کیونکہ پیدا تو پاک سرزمیں میں ہوئے ہیں لحاظہ دلِ سے  دعا تو یہ ہی نکلتی ہےکہ یا اللہ بچے کچے پاکستان کو سلامت رکھ تاکہ ہمارے بچے ہمیں اچھے نام سے یاد رکھ سکیں۔(آمین)

Recommended For You

About the Author: Tribune