سید عتیق الحسن
آج سولہ اکتوبر ہے، آج کے دنِ بانیِ پاکستان قائد اعظم کے دستِ راست اور پاکستان بنانے کی جہدوجہد میں قائد اعظم محمد علی جناح کے قدم سے قد م ملا کر چلنے والے، پاکستان کے پہلے وزیر اعظم، وزیر دفاع، وزیر برائے کشمیر امور اور وزیر برائے دولتِ مشترکہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں تقریر کرنے کے دوران شہید کیا گیا۔ لیاقت علی خان کو جس وقت گولیاں ماری گئیں اُس وقت اُن کے لب پر پاکستان اور پاکستان کے مستقبل کے کلمات تھے۔ لیاقت علی خان مشرقی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور خاندانی نواب تھے لحاظہ ان کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ پاکستان کے قیام سے پہلے انگریزوں کی مرہونِ منت جاگیردار اور وڈیرے بن جانے والوں سے لیاقت علی خان کے پاس کئی گناہ زیادہ دولت تھی مگر جب ان کی موت کے بعد انکا بینک اکاونٹ چیک کیا گیا تو اس میں چند آنے تھے۔
لیاقت علی خان کے پاس دولت تھی، جاگیرداری تھی، مغرب کی اعلی تعلیم تھی اور متحدہ بھارت کی قانون سازکونسل کے منتخب رکن ۱۹۲۶ میں ہی بن گئے تھے تو پھر کیا ضرورت تھی کہ وہ کسی نئے وطن کی بات کرتے اور اپنے آپ کو اُس کی جدوہ جہد کی مشکلات میں ڈالتے۔ یہ لیاقت علی خان کا بھارت کے مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں نظریہ اور مسلمانوں کے بنیادی حقوق کے استحکام کے لئے محمد علی جناح کے ساتھ جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔
آج امریکی سی آئی اے کی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آچکی ہیں جن سے معلوم ہوتا کہ لیاقت علی خان کو شہید کرنے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا کیونکہ انہوں نے امریکہ کو ایران کے معاملہ میں پارٹی بننے سے انکار کر دیا ۔ امریکی سی آئی اے نے افغانستان کے کرایے کے قاتلوں کے ذریعہ لیاقت عل خان کو قتل کرایا۔ پاکستان کے اقتدار ِ اعلی میں بیٹھے بہت سے لوگوں کو اسِ بات کا علم تھا مگر وہ امریکہ کے ڈر سے خاموش رہے اور کچھ کو انکے دام لگا کر خاموش کر دیا گیا۔
لیاقت علی خان کو اسی راولپنڈی شہر میں قتل کیا گیا جہاں بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ مگر آج سیاسی پنڈتوں اور بے نظیر کے وارثوں کو ۱۸ اکتوبر تو یاد ہے جس کے منا نے کے لئے قائد اعظم کے مزار پر جلسے کی تیاریاں ہو رہی ہیں مگر اُسی قائداعظم کے بغل میں جس کی آخری آرام گاہ ہے اس ُ عظیم ہستی لیاقت علی خان کی شہادت کا دنِ یاد نہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج پاکستان کے صحافیوں اور قلم کاروں ، اور سیاسی مبصرین کو بھی بلاول بھٹو کا ۱۸ اکتوبر کا جلسہ تو نظر آرہا ہے مگر لیاقت علی خان کی شہادت کا دنِ یاد نہیں۔ اس ملک و قوم کا کیا ہوگیا جو اپنے معماروں کو بھی تعصب کی نظر سے دیکھتی ہو۔ آج اگر پاکستان بد حالی اور مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے تو اس میں قصور کسِ کاہے؟
جس ملک میں خاندانی وراثت ، مظلومیت، جاگیرداری، اور شخصیت پرستی کے نام پر لوگ قائد کہلاتے ہوں۔ جہاں ایک نو عمر لڑکے کو صرف اسِ لئے سب سے موثر سیاسی جماعت کہلوانے والی جماعت کا چیئر مین اسِ لئے بنا دیا گیا کہ اسکی ماں بھی اسی پارٹی کی چئیر وومن تھی۔ آج ایک ایسے نوجوان کو پاکستان کا اگلہ وزیر اعظم بنانے کی باتیں ہورہی ہیں جس کے پاس نا اپنی سوچ ہے، نا اپنا کلچر، نا زبان، اور تاریخ کا علم۔ مگر بات یہ ہے کہ جس ملک میں آصف علی زرداری صدارت کی کرسی حاصل کر سکتا ہے تو اس کا بیٹا اگر وزیر اعظم بن جائے تو کوئی بھی تعجب نہیں ہوگا۔
کہتے ہیں شہید ہمیشہ زندہ رہتا ہے اگر لیاقت علی خان کو اللہ نے شہادت کا مرتبہ دیا ہے تو وہ ضرور زندہ ہونگے اور ان تمام حالات کو ۔۔۔دیکھ کر پاکستان بنانے ، اپنی دولت، جائداد، خاندان سب کچھ پاکستان پر لگانے کے بارے میں کیا سوچتے ہونگے