:سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ کا مشترکہ اجلاس جاری ہے۔ عام حالات میں تو قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلا س میں گنتی کے لوگ نظر آتے ہیں اور وزیر اعظم نواز شریف صاحب تو جب سے اقتدار میں آئے ہیں آج تک سینٹ کے ایک اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے ہیں اور مشکل سے قومی اسمبلی کے چند اجلاس میں شریک ہوئے ہیں۔ مگر اب جبکہ ہزاروں لوگ پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے دھرنا کرے بیٹھے ہیں اور پارلیمنٹ کے اندر جانے کے راستے بھی احتجاج کے شرکا نے بند کر رکھے ہیں تو یہ مشترکہ اجلاس اسِ وقت بلانا کیوں اتنا اہم تھا۔ بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اسِ وقت مشترکہ اجلاس کی ضرورت اسِ لئے پڑی کہ ڈر تھا کہ باہر بیٹھی عوام الناس اگر عمارت کے اندر گھس گئی اور اگر کہیں کوئی رکن عوام الناس کے ہتھے چڑھ گیا تو شاید تھپڑوں اور مکوں سے ہی کام تمام ہو جائے۔ آج وہ لوگ جو موجودہ کرپٹ نظام کو بچانا چاہتے ہیں وہ سب اسِ پالیمان اور اسکے وزیر اعظم کو بچانا چاہتے ہیں کیونکہ پالیمان کو بچانے والوں کی سیاسی جان وزیر اعظم کی سیاسی جان میں پھنسی ہوی ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے ان لوگوں نے نواز شریف کو اُس وقت یاد نہیں کیا جب وہ پارلیمان سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتے تھے۔ آج مشترکہ اجلاس میں ہال میں بیٹھی تمام جماعتیں ہی بہت متحد نظر آرہی ہیں ۔ آج سب وزیر اعظم نواز شریف کے پیچھے کھڑے ہیں ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو نواز شریف اور شہباز شریف کے لئے سرے عام غلیظ الفاظ سے نوازہ کرتے تھے۔انِ میں بہت سے ایسے رکن ہیں جو جنرل پرویز مشرف کے دور بھی اسی پارلیمان کا حصہ تھے اور ضیا الحق کے فوجی دور میں بھی اسیِ پارلیمان کا حصہ تھے۔ انِ سب کا کاروبار پارلیمان میں اپنی فائدے کی دکان لگا نا ہے۔ آج ہم سب ایک ہیں ایک ہیں کے نعرہ تلے ایک ہیں، کیوں؟ اسِ لئے کہ ان سب کو اپنی سیاسی زندگی کا خاتمہ ہوتا نظر آرہا ہے ۔ ان کو سرکاری خزانے سے حاصل اسلام آباد کی عیش و عشرت ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔انکو پارلیمنٹ کاسستہ اور لذیذ کھانا اور سرکاری گیسٹ ہائوس پھر کہاں ملے گا۔
باری باری تما م سیاسی پنڈت عمران خان اور طاہر القادری اور انکے آزادی اور انقلاب مارچ اور دھرنے کے خلاف پرجوش تقریریں جھاڑ رہے ہیں۔ انِ سب کی تقریروں میں ایک بات مشترکہ نظر آرہی ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی نہ تو عوامی معاملات و مسائل ، اور ملکی معاملات سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی اس پر بات کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت نے فیصلہ کیا کہ اسِ مشترکہ اجلاس کو پاکستان ٹیلی ویزن کے ذریعہ برائے راست عوام الناس اور دنیا کو دکھایا جائے ، تاکہ پاکستانی عوام اور بیرونی طاقتوں بالالخصوص امریکہ، برطانیہ، چین اور سعودی عربیہ کو یہ تاثر دیا جائے کہہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں اور پارلیمان عمران خان اور طاہرالقادری کی قیادت میں جاری دھرنوں کے خلاف متحد ہیں۔ لحاظہ مشترکہ اجلاس کے ہر مقرر کا
محور صرف اور صرف عمران خان اور طاہرالقادری کے احتجاج کو غلط ثابت تھا۔
پاکستان کی سلامتی کے لئےنازک ترین دور میں پاکستان کے پارلیمان میں جاری انُ لوگوں کی تقریروں میں جو بیس بیس سالوں سے اسِ پارلیمنٹ کی عمارتوں سے چمٹے ہو ئے ہیں اور انِ عمارتوں کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے ہیں یہ بات صاف نظر آرہی ہے ، نہ تو انکو ماڈل ٹائون میں کئے گئے عام شہریوں کا قتل نظر آتا ہے، نہ تو دھرنے کے شرکا پر پولس کا جبر نظر آتا ہے، نہ تو پاکستان کی تیزی سے گرتی ہوئی معیشت نظر آتی ہے، نہ لوگوں کی بھوک و افلاس نظر آتی ہے اور نہ ہی ملک کا بگڑتا ہوا نظا م نظر آتا ہے ۔ انِ میں سے کسی ایک نے یہ تجویز نہیں دی کہ وزیر اعظم صاحب باہر جائیے عوام کی جائز مانگوں کو سنیے اور سمجھئے، جن کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں انکو انصاف دیجئے، انکو انصاف دیجئے جن کے معصوموں کو شہید کیا گیا، انِ میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ آخر یہ لوگ کئی ہفتوں سے اتنی جستجو، جنون اور جذبے سے کیوں کھلے آسمان تلے اپنے بال بچوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ دوسری جانب وزیر اعظم نواز شریف صاحب کی لچک اور سیاسی ذہن کا یہ حال ہے کہ جب محمود قریشی ایوان میں تقریر کرنے کے لئے آئے تو نواز شریف صاحب ایوان سے اٹھ کر چلے گئے۔ کیا ایسے شخص کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سیاسی و جمہوری ذہنیت کا مالک ہے۔
آج پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے کہ پاکستان کے سیاسی و جمہوری نظام میں یہ رقم کریگا کہ کون پاکستان میں صحح سیاسی قائد ہے اور کون سیاست کے نام پر کاروبار کر رہا ہے۔ آج پاکستان تقسیم کے پروسز سے گزر رہا ہے۔ آج سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتوں سے لیکر عام سیاسی ذہن رکھنے والے پاکستان کے درمیان تقسیم ہو رہی ہے کہ کون پاکستان کے گلے سڑے بدعنوانی کے نظام کوقائم رکھنے کی جنگ لڑ رہا ہے اور کون اسِ کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔
1 Comment
Comments are closed.