مذاکرات ہر معاملہ کی کنُجی نہیں ہوتی

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

Model town incidentدنیا میں اگر ہر معاملہ ا ور تناظہ مذاکرات سے حل ہو جاتا  تو نا جنگیں ہوتیں نا جیلیں بنتی  ، نا عدالتوں کی ضرورت پڑتی اور نا ہی پولس اور فوج کی ضرورت پڑتی، کیونکہ مجروموں  ، قانون توڑنے والوں اور محاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والوں سے بات چیت نہیں ہوتی ان کے خلاف کاروائی ہوتی ہے۔  مشہور ضرب المثل ہے ،’لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں جاتے‘۔ پاکستان کے کئی سیاستدانوں اور اپنے آپ کو  ملک و قوم کے خیرخواہ کہلوانے والوں نے علامہ طاہرالقادری اور عمران   خان کو  انقلاب اور آزادی مارچ   کے شروع ہونے سے پہلے یہ مشہورہ دیا تھا اور آج بھی جس  کا راگ الاپ رہے ہیں کہ معاملات کو مذاکرات  کے ذریعہ حل کیا جائے ورنہ خون خرابہ  ہوگا۔

 میرا  اُن   سیاسی پنڈتوں سے سوال یہ ہے کہ اگر معاملات مذاکرات سے ہی حل کر لئے جاتے تو آج  ضرب ِعظم  کے  نام سے طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کیوں فخریہ طور پر جاری ہے؟ کیوں پاک فوج کی جانب سے طالبان اور القاعدہ کے جنگجوئوں کو طاقت کے ذریعہ کچلا جا رہا ہے؟  اسِ فوجی آپریشن کے نتیجہ میں بھی  تووہاں  خون خرابہ ہو رہا ہے  مگر یہ خون خرابہ  پاکستان  میں کئی سالوں سے جاری طالبان  کی جانب سے دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے کیا جارہا ہے۔ طالبان کے خلاف فوجی آپریشن  شروع کرنے کے فیصلہ کے وقت بھی کئی سیاسی مداریوں نے یہ کہا تھا کہ طالبان سے بات چیت کے ذریعہ معاملہ کو حل کیا جائے۔ مگر بالآخر فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا پڑا اور آج طالبان کو پاکستان کے علاقوں  سے بھاگنے کی جگہ نہیں ملِ رہی ہے۔

انسانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور قتل و غارت گری کا نام دہشتگردی ہے مگر    سرکاری طاقت  کااستعمال کرکے نہتی عورتوں اور مردوں پر سیدھی گولیاں چلانا اور اسکے بعد ان کے لواحقین کی جانب سے واقعہ کی ایف آئی آر جس کے معنی ہیں پہلی تحقیقاتی رپورٹ کا اندارج بھی نہیں کرنے دیا جا نا اسِ سے بڑی دہشتگردی  ۔ اور دہشتگردوں سے بات چیت نہیں ہوتی انکی کی قرار واقعی سزا موت ہے۔لحاظہ میری اصطلاح میں تو یہ طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشتگردی سے بھی بڑی دہشتگردی ہے کیونکہ طالبان خفیہ طریقوں کاروائیاں کرتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ یہاں  تو پاکستان کے اقتدار پر پہلے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرکے قبصہ کیا جاتا ہے پھر اپنی مرضی سے اور سرکاری طاقت  کا استعمال کرکے  لوگوں پر حکمرانی کرنے کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ آج اُن لوگوں کو شرم کرنا چائیے  جو  اپنے آپ کو انصاف و عدل کا الم بردار کہتے ہیں  کیونکہ   اُن  مسکین لوگوں کو جن کے پیاروں کو کیمروں کی آنکھ کے سامنے گولیاں ماری گئیں اور ان سے واقعہ کی رپورٹ کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا اور پھر انکو  یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ معاملات کو بات چیت کے ذریعہ حل کیا جائے ، یہ دہشگردی کرنے میں مدد کے ضمرے میں آنا چائیے اور ان لوگوں کو بھی دہشتگردی کرنے میں مدد کرنے کے جرم میں قانون کے کٹھیرے میں لانا چائیے۔

آج یہ باتیں  کی جا رہی ہیں  کہ  لوگ اسلام آباد میں پچھلے پندرہ دنوں سے کھلے آسمان کے نیچے  خراب موسم اور بھوک و پیاس کی سختیاں  برداشت کرتے ہوئے اپنے بال بچوں کے ساتھ اسِ لئے بیٹھے ہیں کہ یہ سب علامہ طاہر القادری کے مرید ہیں ان کا تو کام ہی یہی ہے تو میرا  اُن  بے رحم لوگوں کو جواب یہ ہے کہ اگر آپ  کے خاندان کی عورتوں اور مردوں کو بھی اسیِ طرح شہید کیا  گیا ہوتا جس طرح ماڈل ٹائون میں لوگوں کو کیا گیا تو آ ج آپ بھی اسی دھرنوں میں بیٹھے ہوتے نا کہ طاہرالقادری صاحب کو یہ مشہورہ دے رہے ہوتے کہ معاملات کو بات چیت کے ذریعہ حل کیا جائے۔

ویسے  انِ کی بات چیت کے ذریعہ معاملات کو حل کرنے کے معنی کیا ہیں۔ ہر ذی شعور انسان انِ سیاسی پنڈتو ں کے سیاسی سفر کو جانتا ہے انِ لوگوں نے ہمیشہ معاملات اور مسائل کو پہلے تو بڑھایا ہے اور پھر اس کو اس ِ حد تک لیجایا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح سے  دولت یا پھر پاور شئیرنگ کے بدلے کیش کیا جائے۔ اسیِ وجہ سے عمران خان کو ڈپٹی وزیر اعظم کی پیش کش کی جا رہی ہے۔ علامہ  طاہرالقادری کو  ایکشن کمیٹی  وغیرہ بنانے کی پیشکش کی جا رہی ہے کیونکہ ان کا کاروبار ہی یہ ہے۔ یہ تمام روائتی اور فرسودہ سیاست کرنے والی  جماعتوں  ور گروہوں اور ان کے قائدین نے پچھلے ۵۰ سالوں میں اسی طرح سے پاکستان کے اقتدار کو چلایا ہے اور اپنی ملکیتوں کو  مضبوط  کیا  ہے ۔

علامہ طاہرالقادری صاحب اور عمران خان کو بھی چائیے کہ وہ  یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ دو کشتیوں میں سوار ہو کر سمندر پار نہیں  کیا جاتا ۔ آپ کے سات ہزارو ں لوگ پچھلے پندرہ روز سے ایوانوں کے سامنے بیٹھے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنا  بڑامینڈیٹ عوام نے کسی کو نہیں دیا اور نا ہی کسی لیڈر کے پیچھے اتنی مضبوطی، صبر اور ہمت سے کھڑے ہوئے ہیں لحاظہ ان کا مزید امتحان نہ لیں۔ آپ  کے پاس انقلاب مارچ اور آزادی مارچ شروع کرنے سے پہلے بھی ایک ہی راستہ تھا اور آج  پندرہ دِنوں کی مشقتیں اور تکلیفیں اٹھانے کے بعد بھی ایک ہی راستہ ہے کہ آگے بڑھوں اور یہ بڑے بڑے ایوانوں جن میں یہ   حکمران بیٹھ کر فرعون جیسے بیانات داغ رہے ہیں ، پر قبضہ کرو۔ انِ فرعونو ں کو ایوانوں سے باہر نکالو اور  دستور چوک پر لٹکائو دیکھو پھر پاکستان کے دستور پر کسِ طرح سے عمل ہوتا ہے ، کسِ طرح سے پاکستان میں سکون ہوتا ہے کسِطرح سے غریب اور مظلوم کو انصاف ملتا ہے، کسِ طرح سے پاکستان ترقی کرتا ہے اور کسِ طرح سے پاکستان کا کھویا ہوا مقام دنیا میں واپس لوٹ آتا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کے لئے بھی آج یہ فیصلہ کرنے کا دنِ ہے اگر پاکستان قائم و دائم نہیں رہا تو آپ کسِ ملک کی حفاظت پر مامور کئے جائو گے۔ پاکستان کی عام عوام نے آپ کو ہمیشہ عزت دی ہے اور پاکستان کے نام نہاد سیاستدانوں نے آپ کو ہمیشہ رُسوا  کیا ہے۔ کیا آپ ایک مرتبہ پھر رُسوا   ہونا چاہتے ہیں ان تمام دو نمبری سیاستدانوں کے ہاتھوں جن میں سے بیشتر  نے آپ ہی کے مدرسہ سے نشوو نما پائی ہے۔ پاک فوج کے جوانوں اور مرد حق کی آواز بلند کرنے والوں پاکستان کے ایوانوں کو انِ فراڈیوں سے خلائی کرائو اور طاقت ان کو لوٹادو جن کا حق ہے کیونکہ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں۔

Recommended For You

About the Author: Tribune

Comments are closed.