سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
10 نومبر 2012 کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا دنِ آیا اور چلا گیا ۔ چند روز قبل عافیہ صدیقی کی اپیل بھی امریکی عدالت نے مسترد کردی اور عافیہ کو سنائی گئی 86 سال کی سزا بر قرار رکھی گئی ، دوسرے الفاظ میں اب باقی ساری زندگی عافیہ صدیقی امریکی جیل میں ہی گزاریں گی ۔ عافیہ کی اپیل مسترد کرنے کے حوالے سے ایک چھوٹی سی خبر کسی ایک دو پاکستانی میڈیا نے ضرور اپنی خبروں کا حصہ بنایا ورنہ نا تو کسی سیاسی لیڈر کو کسی ٹاک شو میں اسِ بر بات کرتے دیکھا گیا اور نہ ہی کسی ٹی وی اینکر نے عافیہ صدیقی پر کوئی وقت خرچ کیا۔
ہاں دوسرے ہی دنِ یعنی 11 نومبر کو ملالہ یوسف زئی کی خبریں پاکستانی میڈیا پر کافی گردش کر تی رہیں۔ اور کیوں نہ ہوں ، سابق برطانوی وزیر اعظم اور اقوام متحدہ کے شعبہ تعلیم کے نمائندہ خصوصی جناب گورڈن براؤن نے ملالہ یوسف زئی کے نام سے 11 نومبر کو منسوب کرنے کا اعلان کیا اور اسِ دنِ کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا۔ اسکے علاوہ برطانیہ میں ملالہ یوسف زئی کو نوبل انعام دینی کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔یہ سب کچھ ملالہ اور اس کے خاندان کے لئے فخر کا مقام ہے ۔ ملالہ یوسف زئی پاکستان کی بیٹی ہے اور اسِ سے کسی کو کوئی انکار نہیں ہونا چائیے کہ ملالہ پر کیا گیا قاتلانہ حملہ اسلام اور پاکستان کی روح کے مطابق ایک سنگین جرم تھا۔ ملالہ پر حملہ کرنے والے قاتلوں کو جلد سے جلد گرفتار کرکے سرے عام عبرتناک سزا ملنی چائیے۔لیکن بقول کسی شاعر کے؛ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی!
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیاظلم کی داستان بننے والی ہر اسُ پاکستان کی بیٹی کے لئے ایسا ہی عمل اور برتاؤ نہیں ہونا چائیے جو کہ ملالہ یوسف زئی کے لئے کیا گیا ۔ اگر آج ملالہ کے لئے پاکستان کی حکومت ، میڈیا اور فوج سب جان نچھاور کررہے ہیں یا اگر آج پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملالہ کے ساتھ کھڑی ہے تو یہ ہی عمل پاکستان کے انُ بیٹے اور بیٹیوں کے لئے بھی نہیں ہونا چائیے جو ظلم اور بر بیت کا شکار ہوئے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں کئی نڈر صحافی، کئی ماروف ڈاکٹر، کئی سیاستدان ،وکیل اور دوسری شخصیات بھی دہشتگردی اور بربیت کا شکار ہوئے ہیں اور ان میں سے بیشتر اب اسِ دنیا میں نہیں رہے۔ کیا پاکستانی قوم، سیاستدانوں، میڈیا اور حکومت نے ایسا ہی ردعمل دکھایا جو ملالہ یوسف زئی کے لئے دکھایا گیا۔ آخر اسِ کی وجہ کیا ہے۔کیوں پاکستانی حکومت، سیاستدان، میڈیا اور عوام ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لئے وہ آواز بلند کرنے میں ناکام رہے جو ملالہ یوسف زئی کے لئے اٹھائی گئی ۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں بھی یا تو تعصب سے کام لیتے ہیں یا پھر مصلحت اور مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ ملالہ یوسف زئی کی حمایت میں آواز بلند کرنے اور ملالہ کے نام پر دہشتگردی کا خاتمہ کے نعرہ کے پیچھے پاکستانی حکومت، میڈیا ، امریکہ اور برطانیہ کے مفادات مشترکہ تھے۔کیا ایسا تو نہیں کہ ملالہ یوسف زئی کی اہمیت ، اسکا جذبہ اور ہمت سب کو اسِ لئے نظر آرہا تھات کیونکہ یہ سب کچھ امریکہ کو بھی نظر آرہا تھا۔ ذراسوچئے