پاکستان میں موروثی سیاست کا خاتمہ ہونے کو ہے؟

سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا

پاکستان پیپلز  پارٹی، مسلم لیگ نواز گروپ،بھٹو خاندان،زرداری،  نواز شریف، شہباز شریف یہ وہ پارٹیاں اور نام ہیں  جو حالات و واقعات کی Imran and Tahir ul Qadriپیداور تھے پھر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستانی عوام  کو سیاست ، جمہوریت، عوامی مسائل کے نام پر ایک ایسا نظام دیا جس کا فائدہ صرف اور صرف اِن لوگوں  ، انکے خاندانوں، انکے رفقا کاروں اور انکی پارٹیوں کوپہنچا۔ انِ لوگوں نے جائز ناجائز طریقے سے  دولت کمائی اپنے کاروباروں اور اثاثوں  کو دنیا بھر میں پھیلایا ورنہ ایک فیکٹری کا مالک تین یا چار دھائیوں میں انگلستان کا ایک بڑا سرمایہ کار کیسے  بن گیا اور ایک پلے بوائے کے نام سے جانے والا  دبئی کا  عظیم سرمایہ کار کیسے بن گیا۔دنیا  کے بیشتر ممالک میں انکے کاروبار کیسے قائم ہوگئے اور آج یہ دونورں پاٹیوں کے قائدین  دنیا کےامیرتر ین شخصیات کیسے بن گئیں۔ انہوں نے دولت  کے بل بوتے پر پاکستان میں کرپشن کو فروغ یا اور پھر اس کرپشن کے نظام سے  جمہوری نظام کو خراب کیا۔۱۹۷۰ کی دھائی سے شروع ہونے والی  اسِ  سیاسی گند نے پاکستان کی ایک پوری نسل پر ایک ایسا نظام مسلحط کر دیا جس کو پاکستان کی عوام سیاست اور جمہوریت سمجھنے لگے۔ وڈیرہ شاہی، قبائلی جبر اور چودھریوں کی مکاریوں کو لوگ سیاسی دائو پیچ کہنے لگے۔ انِ خاندانوں نے پاکستان کے عام آدمی کے ذہن میں چاہے وہ دیہات میں رہتا ہو یا شہر میں یہ پیوست کر دیا کہ یہ ہی لوگ پاکستان میں حکومت کرنے کے اہل ہیں اور عام آدمی کا کام صرف اور صرف انکے ایجنڈے کو سلام کرنا اور انکی ریاستی طاقت کے پیچھے سرخم کر دینا ہے۔ پھر ایک  علاقے کے تھانے سے لیکر ملک کی پارلیمنٹ تک ان کی  غنڈہ کردی کا راج قائم ہوگیا۔ شہر کی ایک عام عدالت سے لیکر ملک کی عدالت عظمی تک انِ کی دولت اور ریاستی طاقت کے سامنے بے بس ہوگئی۔ پولس آفیسر سے لیکر تیسرے درجے کا جج بھی انِ ہی کی مرضی سے تعئینات ہونے  لگا۔ انِ آمروں نے پاکستان کا کوئی ادارہ نہیں چھوڑا جہاں کرپیشن کا جال نہ بچھایا گیا ہو۔ زیادہ تر فوج  کی  کوک سے جنم لینے والے یہ حادثات کی پیداوار  مفاد پرسٹ ٹولے اور خاندانوں نے  پاکستان سے پاکستانیت ختم کردی۔ پاکستانی قوم کو صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت میں تبدیل کردیا۔ پاکستان  جس کا  شماردنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے چند ممالک میں ہوتا تھا اور جس کی دنیامیں عزت تمام ہمسایہ ممالک سے زیادہ تھی انِ مفاد پرست ریاستی ٹولہ کی وجہ سے اپنی ساکھ کھو بیٹھا، ملک کی اپنی آزاد خارجہ پالیسی ختم ہوگئی، ملک قرضہ  کے جال میں اسِ قدر پھنستا چلا گیا کہ آج ایم آئی ایف اور وولڈ بینک کے ہاتھوں مجبور ہے۔ پاکستان میں روزمرہ کی استعمال کی اشیا کی قیمتیں بھی آئی ایم ایف کے حکم سے مقرر کی جاتی ہیں۔ آج پاکستان میں کوئی ادارہ ایسا نہیں بچا جس کے متعلق یہ فخر سے کہا جا سکتا ہو کہ یہ دنیا کے لئے ایک مثالی ادارہ ہے۔ اور اسُ کے اوپر ان لٹیروں کی ہٹھ دھرمی کے یہ اسِ نظام کے لئے کہتے ہیں کہ ہم اسے  ڈیِ ریل نہیں ہونے دیں گے۔ جی ہاں کیونکہ اسی نظام سے پاکستان کے اعوانوں کے دونوں طرف بیٹھے یہ سیاسی مداری اپنی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اسِ کرپٹ نظام کو زندہ رکھنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ مگر کہتے ہیں اللہ کے گھر  دیر  ہے اندھیر نہیں۔ اگر اللہ کی ذات چاہے تو کسی میں بھی وہ صلاحیت پیدا کردے جو حالات کا رخ بدل کر رکھ دے۔ پاکستانیوں کے سامنےپاکستان کے بانی کی مثال موجود ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی نو عمری اور پھر پروفیشنل پیشہ کی شروعات لند ن سے کی، زندگی مغربی طرز سے گزاری ، پاکستانی زبانوں سے بھی  کوئی واقفیت نہیں تھے مگرجب اللہ نے انکو ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت کے لئے چنا تو وہ مسلمانِ ہند کے عظیم قائد کی شکل میں دنیا کے سامنے آئے۔ ہندوستان کے روائتی مولویوں نے انہیں کافر اعظم تک کہا مگر اللہ نے انکو قائد اعظم اور بانی پاکستان کے نام سے سرفراز کیا اور عزت دی۔

آج پاکستان میں دو شخصیات نے  انقلابی حالات پیدا کر دئیے ہیں۔ دونوں شخصیات نےپاکستانی سیاست میں ایک ولولہ پیدا کر دیا ہے۔ ایک طرف ڈاکٹر علامہ طاہر القادری ہیں اور دوسری جانب عمران خان۔ اللہ کے فضل سے میں انِ دونوں شخصیات سے مل چکا ہوں۔ ڈاکٹر طاہر القادری جب سب سے پہلے ۹۰ کی دھائ میں سڈنی تشریف لائے تو میں نے اپنے اخبار اور ریڈیو کے لئے انکا انٹر ویو کیا۔ اور اسی طرح  عمران خان سے بھی  کرکٹ کے عظیم کھلاڑی کی حیثیت  آسٹریلیا میں  شوکت خانم ہسپتال کے چندہ کی مہم کی دوران شکاگو امریکہ میں  ملاقات کی۔ دونوں میں ہی بلا کی قائدانہ صلاحیتیں دیکھیں۔ آج سے تقریبابیس سال پہلے کسِ کو معلوم تھا  کہ ایک وقت آئے گا جب یہ دونوں شخصیات پاکستان میں جاری کرپشن اور کرپٹ عناصر کے خلاف  جہاد بلند کریں گے۔مجھے نہیں معلوم کہ کیا یہ ہی وہ شخصیات ہیں جو پاکستان اور پاکستانیوں کو غلامی سے آزاد کرائیں گی اور نیا پاکستان دیں گی۔

مگر ایک بات سب کو معلوم ہے اور اس میں کسی کی کوئی دو رائے نہیں کہ یہ دونوں شخصیات نا تو چودھری ہیں، نا وڈیرے، نا قبائیلی سردار اور نا ہی فوج کی گود سے جنم لیکر آئےہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی علمی صلاحییت کی وجہ سے اور عمران خان نے اپنی کرکٹ اور ہسپتال جیسے عطیم منصوبوں کی وجہ سے ساری دنیا میں شہرت و عزت پائی ہے۔

کل یعنی بروز اتوار ۱۰ اگست کو ماڈل ٹائون لاہور میں اپنے گھر کے سامنے منعقد کئے جانے والے یوم شہدا کے جلسے سے طاہر القادری صاحب نے خطاب کیا  اور  اللہ تعالی کے حضور گڑِ گڑا کر دعا مانگی ، جس پر جلسہ گاہ میں موجود ہزاروں خواتین نے  رو رو کر اللہ تعالی کے حضور پاکستان  اور پاکستانی عوام کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگیں تو میرے دلِ سے یہ آواز آئی کہ بے شک اللہ تعالی سچے دلِ سے دعا مانگنے والوں کی دعا ضرور پوری کرتا ہے۔

جلسے کے آخر میں علامہ طاہرالقادری صاحب نے  ۱۴ اگست سے انقلاب مارچ  کا عمران خان کے آزادی مارچ کے ساتھ آغاز کے اعلان کیا جس  کے بعد لوگوں کا جوش خروش برسرِ اقتدار ٹولہ کے لئے نوشتہ دیوار بن گیا ہے۔  اقتدار کا گھمنڈ بڑے بڑے بادشاہوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔ اب  لگتا یوں ہے  کہ ناصرف شریف برادران کے ساتھ بلکہ ہر اسُ شخص کے احتساب کا وقت آن پہنچا ہے جس نے پاکستان کوکمزور کیا، عوام کو مفلوج کیا اور نظام کو تباہ کیا۔

Recommended For You

About the Author: Tribune

Comments are closed.