جنگل کا بادشاہ کون؟

سید عتیق الحسن

Jungleبندر کو ایک شیطانی حرکت سوُجی، اسُ نے لومڑی سے کہا کہ یہ کہاں کا  انصاف ہے کہ جنگل کا بادشاہ ہمیشہ سے شیر ہی ہے، شیر کی جو مرضی آئے کرتا ہے اور جس قسم کا قانون بنائے ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کو مان لیا جائے ، یہ بہت نا انصافی اور جبر ہے۔ لومڑی نے جواب دیا تو بھائی بندر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ، شیر اتنا طاقتور ہے ہم اسُ سے زور زبردستی کرکے کچھ منوا بھی تو نہیں سکتے۔ بندر نے جواب دیا کہ اگر یہ جنگل ہم سب کا ہے اور اگر ہم سب ایک ہو جائیں تو شیر کی کیا مجال جو ہماری بات نہ سنے اور اپنی من مانی کرتا رہے۔ لومڑی نے جواب دیا تو بھائی بندر تم کہنا کیا چاہتے ہو کیا تمھارے پاس شیر کو زِیر کرنے کا کوئی راستہ ہے۔ بندر نے کہا میں یہ چاہتا ہوں کہ جنگل میں جمہوریت ہونی چایئے، تمام جانوروں کی مرضی سےجنگل کا بادشادہ چنُا جانا چائیےنہ  کہ طاقت کے بل بوُتے پر۔ لومڑی نے جواب دیا ، یہ تجویز تو بہت اعلی ہے مگر ہم جمہوریت جنگل میں نافظ کسِ طرح نافظ کر سکتے ہیں اور  پھر شیر کو اُس جمہوریت پر راضی کیسے کریں گے۔ بندر نے جواب دیا اگر ہم سب میں اتحاد ہو تو شیرکو  اگر اسِ جنگل میں رہنا ہے تو  اسُ کو ہماری بات ماننا پڑیگی۔ لومڑی نے کہا کہ بھائی بندر اب یہ بتائو ہمیں کرنا کیا ہوگا۔ بندر نے کہا کہ ہم تمام جانوروں کو اکٹھا کریں اور انکو راضی کریں کہ جنگل میں جمہوری عمل  شروع کیا جائے اور جمہوری طریقہ سے بادشاہ   کا انتخاب کیا جائے۔ لومڑی نے جنگل میں شیر کے علاوہ  تمام جانوروں کو دعوتِ عام دیدی۔  شیر کے علاوہ تمام جانور اکٹھے ہوگئے۔ بندر نے تمام جانوروں کے سامنے  دھواں دھار خطاب کے ذریعہ یہ  مطالبہ کیا   کہ اب اسِ جنگل میں نا انصافی نہیں ہو سکتی، طاقت کے بل پر صرف شیر اسِ جنگل میں اپنی حکمرانی نہیں کر سکتا۔ اسِ جنگل میں جمہوریت ہونی چائیے، تمام جانوروں کے ووٹ سے اورشفاف انتخابات کے ذریعہ   جنگل کے  بادشاہ  انتخابت ہونا چائیے۔ تمام جانوروں نے بندر کے پیغام پر لبیک کہا اور  وعدہ کیا  کہ اب ہم شیر سے اپنی بات منواکر رہیں گے۔ طے کیا گیا کہ تمام جانور اسُ وقت تک ہڑتال پر چلے جائیں  اور  گوشہ  نشینی اختیار کرلیں جب تک ہمارے مطالبات نہیں مانے جاتے۔   شیر کو جب کوئی بھی  جنگل میں نظر نہیں آئے گا  اور پیٹ بھرنے کے لئے اپنا شکار بھی نہ کر پائے گا تو اسُ وقت بندر اسُ کے سامنے مشترکہ مطالبہ رکھے گا۔  لحاظہ بہت سے نامور جانور اپنے جنگل کو چھوڑ کر دوسرے جنگل میں  بھاگ  گئے اور کچھ اپنے گھروں میں بند ہو گئے۔

 حسبِ معمول شیر اپنے شکار کے لئے نکلا اور یہ دیکھ کر حیران ہو گیا کہ سارے جنگل میں ہُو کا عالم ہے کوئی جانور نظر نہیں آرہا ، شیربڑا پریشان ہوگیا اور پھر تھک ہار کر ایک درخت کے نیچے جا بیٹھا۔ درخت کے اوپر بیٹھے بندر نے کہا شیر کیا بات ہے پریشان لگ رہے ہو۔ شیر نے کہا کہ ہاں میں حیران ہوں آج جنگل میں کوئی جانور نظر نہیں آرہا۔ بندر نے جواب دیا وہ سب احتجاج پر گئے ہیں، شیر نے کہا احتجاج ، کیا مطلب کسِ قسم کا احتجاج؟ بندر نے کہا کہ تمام جانور تم سے نالاں  ہیں  اور کہتے ہیں کہ یہ کہاں کا انصاف اور جمہوریت ہے کہ جب سے یہ جنگل قائم ہے تم ہی اسِ کے بادشاہ ہو۔ اب دور بدل گیا ہے اسِ جنگل میں جمہوریت ہونی چائیے۔ بادشاہ کا انتخاب جمہوری انتخاب کے ذریعہ ہونا چائیے نہ کہ تم اپنی طاقت کے بل پر جنگل کے بادشاہ بنے رہو اور جو چاہے اپنی مرضی سے کرتے ہو۔

 شیر بندر کا فتنہ سمجھ گیا مگر کیا کرتا بھوک سے نڈھال ہو رہا تھا۔ لحاظہ شیر نے ڈپلومیسی سے کام کرتے ہوئے کہ بھائی  بندر  آپ لوگوں کو احتجاج کرنے سے پہلے مجھ سے تو پونچھ لینا چائیے تھا  ۔ میں بھی تو تم میں سے ہی جنگل کا ایک حصہ ہوں۔ اگر تم آمریت نہیں چاہتے تو میں بھی نہیں چاہتا۔ جنگل کے اکثریت میں جو جانور چاہتے ہیں میں بھی انکے ساتھ ہوں۔ بندر بہت خوش ہو اور شیر سے کہا کہ اچھا ٹھیک ہے میں تمام جانوروں کو بلاتا ہوں اور آگے کا لائے عمل بناتے ہیں۔ بندر نے فوراً لومڑی کو بلایا اور یہ خوشخبری سنائی کہ شیر جمہوریت کے لئے تیار ہو گیا ہے اور انتخاب کے ذریعہ بادشاہ چننے کے لئے تیار ہے۔ پہلے تو لومڑی کو یقین نہیں آیا پھر کہا بندر بھائی آپ کی کیا بات ہے ہم نے تو آج تک یہ بات سوچی بھی نہیں تھی۔ لحاظہ لومڑی نے یہ خوشخبری جنگل کے تمام جانوروں کو سنائی  اور کہا کہ آج ہم سب کا بڑا اجلاس سے جس میں شیر بھی آرہا ہے اور سب کی رائے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ بندر، لومڑی  اور شیر سمیت سارے جانور اکٹھے ہوئے لومڑی نےاجلاس کی کاروائی کرتے ہوئے شیر کے فیصلہ سے سب کو آگاہ کیا ، سب نے شیر کے اسِ فیصلہ کو سراہا، اور فیصلہ کیا گیا کہ  ووٹنگ کرکے فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اب کون جنگل  کا آئندہ  بادشاہ ہوگا۔لومڑی نے بندر کو بادشاہ کے لئے نامزد کر دیا۔ تمام جانوروں نے کہا کہ پہلا حق بندر بھائی کا ہے کیونکہ بندر بھائی نے ہی ہمیں یہ جمہوریت اور انصاف کا درس دیا ہے۔ بندر کے مقابلے میں کوئی کھڑا نہیں ہوا، تمام جانوروں نے بلا مقابلہ بندر کوجنگل کا نیا بادشاہ مقرر کر دیا ۔ اور  پھر بھرپور طریقہ سے جمہوریت اور نئے بادشاہ کے لئے جشن منایا گیا۔

دوسرے دنِ  سے جنگل کا کاروبار معمول کے مطابق شروع ہو گیا۔ لومڑی اپنے  تین چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھر پر چھوڑ کر شکار پر نکل گئی۔ جب شام کو گھر لوٹی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک  کمسن بچہ غائب ہے۔ دوسرے بچوں سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ بھیڑیا آیا تھا اور ایک بچے کو اٹھا کر لے گیا۔ لومڑی نے سوچا آج سے پہلے تو ایسا نہیں ہوا۔ کوئی جانور کمسن بچوں کو گھروں سے اٹھا کر نہیں لے جاتا۔ لحاظہ لومڑی بادشاہ سلامت بندر کے دربار پہنچی   اور کہا بادشاہ سلامت دُہائی ہو دُہائی آج تک میرے بچوں کو کوئی جانور اٹھا کر نہیں لے گیا ۔ آج بھیڑیا  میرا ایک بچہ اٹھا کر لے گیا ۔ بادشاہ سلامت بندر غصہ سے لال بگولہ ہو گئے اور درخت کی ایک شاخ سے دوسری پر چھلانگ لگاتے ہوئے بولے ، بھڑیئے کی یہ ہمت ، تم گھر جائو میں اسِ کی خبر لیتا ہوں۔ لومڑی روتی پیٹتی  گھر واپس آگئی اور بادشاہ کے انصاف کا انتظار کرتی رہی۔ دوسرے دنِ لومڑی معمول کے مطابق اپنے دو بچوں کو گھر پر چھوڑ کر پھر شکار پر نکل گئی۔ شام کو جب لوٹی تو دیکھا کہ ایک اور بچہ کم ہے، لومڑی نے اپنے بچے ہوئے  بچہ سے پوچھا دوسرا بچہ کہاں ہے، بچہ نے کہا بھیڑیا پھر آیا تھا اور بھائی کو اٹھا کر لے گیا۔ لومڑی کے غصہ کی انتہا نہیں رہی  اور بھاگتی ہوئی بادشاہ سلامت بندر کے پاس پہنچی اور کہا بادشاہ سلامت دہائی ہو دہائی، بادشاہ نے کہا اب کیا ہوا۔ لومڑی نے کہا آپ نے کل کہا تھا آپ انصاف دلائیں گے بھڑیا آج پھر میرا دوسرا بچہ بھی اٹھا کر لے گیا آپ نے کیا کیا؟ بندر نے ایک شاخ سے دوسری پر چلانگ لگائی اور  بڑے غصہ سے کہا بھڑیا ایسے کیسے  کر سکتا ہے اسُ میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی۔ لومڑی نے کہا آپ یہ بتائیں بھڑئیے کو آپ  کیا سزا دیں گے مجھے کسِ طرح سے انصاف دیں گے؟ بادشاہ سلامت بندر نے پھر درختوں پر چھلانگیں لگانی شروع کردیں اور کچھ دیر میں کہا میں بھیڑئے کو ایسی عبرتناک سزا دونگا کہ سارا جنگل  ہمیشہ یاد رکھے گا اور بھیڑئیے کی اگلی نسلیں بھی یاد کریں گی تم گھر جائو اور آرام سے جاکر آرام کرو۔ لومڑی کیا   کرتی گھر  واپس آ گئی۔صبح اٹھی اور اپنے آخری بچہ کو تلقین کی کہ  نظر رکھے بھیڑیا پھر نہ آجائے اگر آئے تو اپنی حفاظت خود کرے  ۔ یہ کہہ کر لومڑی پھر شکار پر نکل گئی۔ بھیڑیا پھر آیا اور لومڑی کے بچے پر لپکا۔ لومڑی کے بچے نے اپنے آپ کو بچانے کی بہت کوشش کی مگر بالاخر بھیڑیئے نے اس کو اپنے شکار کا نشانہ بنا لیا اور اس کو مار کر  کھا گیا۔ شام کو جب لومڑی واپس گھر آئی اور اپنے بچے کا خون اور کھال دیکھی تو چلا اٹھی  مدد کرو اور بھاگتی ہوئ بادشاہ سلامت کے پاس پہنچی اور کہا کہ بادشاہ سلامت تم کسِ چیز کے بادشاہ ہو، تم جھوٹے ہو، تم نے کچھ نہیں کیا، تم بھیڑئے سے ڈرتے ہو، وغیرہ وغیرہ۔ بادشاہ سلامت بندر نے کہا کہ اب کیا ہوا کیوں مجھے کوس رہی ہو میں اسِ جنگل کا بادشاہ ہوں مجھے آپ لوگوں نے ہی منتخب کیا ہے۔ لومڑی نے کہا تم کسِ قسم کے بادشاہ ہو ،بھیڑئے نے میرے سارے بچے کھا لئے تم نے مجھے صرف دلاسے دئیے اور جھوٹے وعدہ کئے  تم نے  کچھ نہیں  کیا؟ بندر نے اب اور زور زور سے چھلانگیں لگانی شروع کردیں۔ ایک درخت سے دوسرے درخت تک اور بہت دیر تک یہ کرتب دکھاتا رہا۔ دوسرے جانور بھی آگئے اور بندر کے کرتب دیکھتے رہے ، پھر کافی دیر بعد بندر لمبی لمبی سانسیں لیتا ہوا ، ایک شاخ پر بیٹھ گیا اور لومڑی سمیت تمام جانورں کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ بھائ لوگوں آپ لوگوں نے دیکھا میں نے کتنی محنت کی، میرا برا ُ حال ہو گیا ہے میری سانسیں جواب دے گئی ہیں اب اتنی محنت کے بعد بھی اگر میں لومڑی کو انصاف نہیں دے سکا تو اسِ میں میرا کوئی قصور نہیں یہ لومڑی ہی بڑی بد قسمت ہے۔

تمام جانور بندر کی یہ بات سن کر کہنے لگے تم بادشاہ نہیں ہو سکتے ۔اسِ سے تو شیر ہی اچھا  بادشاہ تھا، اسُ کے دور میں کبھی اسِ قسم کا واقع نہیں ہوا۔ پھر سب لوگ شیر کے پاس گئے اور کہا شیر ہمیں معاف کردو، تم ہی اصل جنگل کے بادشاہ ہو جس کی وجہ سے جنگل میں امن قائم ہے۔

میرے خیال میں آج پاکستان بھی اسِ جنگل کی طرح ہے ، اب اسِ میں شیر کون ہے، بندر کون ہے، لومڑی کون  ہےاور بھیڑیا کون ہے یہ فیصلہ آپ کریں!

Recommended For You

About the Author: Tribune

1 Comment

  1. Pingback: viagra daily cost

Comments are closed.