بقلم سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
متحدہ قومی مومنٹ کے قائد الطاف حسین کے جلسہ عام سے خطاب کے دوران اسِ مطالبہ پر کہ اگر اردو بولنے والے سندھی پسند نہیں تو انکو الگ صوبہ دیدو ، ورنہ بات آگے بڑھی تو الگ ملک بھی بن سکتا ہے ، پاکستان بالخصوص سندھ کے سیاسی لیڈران کے وہی بیانات شروع ہوگئے جو کہ ماضی میں بھی دئیے جا چکے ہیں کیونکہ الطاف حسین کا یہ مطالبہ بھی نیا نہیں ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ شیخ مجیب نے پہلے برابری کی بنیاد پر حقوق مانگنے کی بات کی تھی جو پھر بنگلادیش کی تحریک میں تبدیل ہو گئی اور پاکستان کی حدود محدود ہوگئی۔ اور اگر اور پیچھے جائیں تو قائد اعظم نے بھی پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کو برابری کے حقوق دینے کا مطالبہ کیا تھا جو نا ملنے پر بعد میں تحریک پاکستان میں تبدیل ہو گیا اور ہندوستان کا نقشہ تبدیل ہوگیا۔ تاریخ گواہ ہے جب کسی طبقہ کے حقوق غصب کیے جاتے ہیں تو ریاستوں کی حدیں محدود ہونے لگتی ہیں ۔ پاکستان کا وجود اس کا ثبوت ہے۔
لوگ آئیں توڑنے پر تو سابق صدر پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کی بات کرتے ہیں مگر جو نظریہ پاکستان کے خلاف پاکستان میں قوانین جاری و ساری ہیں اُن پر کسی کو لٹکانے کی بات نہیں کرتے۔ ہونا تو یہ چایئے تھا کہ آئین توڑنے سے بڑی سزا نظریہ پاکستان توڑنے پر ہونی چائیےتھی۔ 1974 میں سندھ میں نافظ کئے جانے والا شہری اور دہی تقسیم کاکوٹہ سسٹم دراصل نظریہ پاکستان کی نفی ہے ۔ اُس پر یہ سیاسی جماعتوں کے عمر رسیدہ قائیدین کیوں آج تک چپ ُ ہیں جو آج الطاف حسین کے خلاف ایک آواز ہوکر بیان داغ رہے ہیں؟
سندھ دھرتی سے پیار جتانے والے ایک لیڈر نے توالطاف حسین سے یہ مطالبہ بھی کر دیا کہ اگر 48 گھنٹے کے اندرالطاف حسین نے اگر اپنے بیان کو واپس نہیں لیا تو سندھ میں پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی، یہ وہی صاحب ہیں جنکی جماعت پچھلے انتخابات میں سندھ میں ایک نشست بھی حاصل نہیں کر سکی تھی تو ان کے مطالبہ کو تو سندھ کی عوام کا مطالبہ نہیں کہا جا سکتا بلک انکے لئے اپنی اہمیت جتانے کا ایک سنہری موقع ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ الطاف حسین کے بیان پر آگ بگولہ ہونے والے اور سندھ دھرتی سے پیار جتانے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین ہیں جن میں پیپلز پارٹی کا نومولود قائد بلاول زرداری بھی شامل ہے جس نے کہا کہ ْمرسوں مرسوں سندھ نا دیسوںْ ۔یہ سندھ کے نسل پرست شاعر شیخ ایاز کی سندھی شاعری ، ْجئے سندھ صدا جیےٗ کا ایک مشہور مصرعہ ہےجو سندھو دیش کے بانی جی ایم سید اکثر پڑھا کرتے تھے اور اس کا مطلب ہے مگر جائیں گے مگر سندھ نہیں دیں گے۔
الطاف حسین کے بیان پر ردِ عمل چند منٹوں میں پاکستانی ٹی وی میڈیا کی شہ سرخیوں میں نظر آیا۔ مگر افسوس کہ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے اور پی پی پی والوں کے لئےتو شرم کا مقام بھی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور اس کے نئے قائدبلاول کے پیدا ہونے سے پہلے اسکے نانا اور پیپلز پارٹی کےنسل پرست لیڈران نے تعصب اور تقسیم کےجو بیج 1974 میں سندھ کو شہری اور دہی میں تقسیم کرکے بوئے تھے الطاف حسین اور اس کی جماعت تو اسُ کی پیدوار ہے۔ میں اپنے بے شمار مضامین میں اسِ مسلہ پر بہت کچھ لکھ چکا ہوں اور ایک کتاب بھی اسِ سلسلے میں لکھ رہا ہوں کیونکہ میں خود اسِ تعصب اور تقسیم سے ہونی والی زیادتیوں کا شکار رہا ہوں اور ہزاروں کو شکار ہوتے دیکھا ہے جو کہ نظرکہ پاکستان کی منافی ہے۔
میں نے اپنے بیشتر مضامین میں الطاف حسین کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ الطاف حسین اردو بولنے والوں کے اصل مطالبات سے دستبردار ہوتے رہے ہیں جو کل انہوں نے بیان کئے ہیں۔الطاف حسین نے 1988 سے لیکرآج تک پاکستان پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ الطاف حسین کے فیصلوں میں ہو سکتا ہے سندھ کے امن و امان اور خون خرابے کو سامنے رکھا گیا ہو۔ مگر آج الطاف حسین اور انکی جماعت خود کہاں کھڑی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ایک مفاد پرست جاگیرداری ٹولہ ہے جو الطاف حسین ، انکی جماعت اور اردو بولنے والوں کوسندھ میں صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر پی پی پی اور انکے لیڈران نے نا تو سندھ کے لئے اور نا ہی سندھ کی عوام کی بھلائی کے لئے چاہے اردو بولنے والے ہوں یا سندھی کوئی کا م کیا ہے۔
الطاف حسین کی کل حیدرآباد کے جلسے میں کی گئی تقریر میں ایک اچھی بات دیکھنے میں یہ آئی کہ انہوں نے مہاجر کا لفظ استعمال نہیں کیا اور اردو بولنے والے سندھی کہا۔الطاف حسین کی ایک اور قابلِ تعریف بات یہ تھی کہ انہوں نے کھل کر پرویز مشرف کے خلاف کیس پر نکتہ چینی کی جو کہ میری رائے میں اُن پر اور انکی جماعت پر قرض تھا جوکہ میں نے اپنے پچھلے مضمون میں لکھاتھا۔
رہی بات اردو بولنے والوں کے لئے الگ صوبہ کا مطالبہ تو جیسے میں پہلے کہہ چکا ہوں اردو بولنے والوں کے لیے الگ صوبہ کا مطالبہ تو پی پی پی کے کارناموں کا نتیجہ ہے۔ 40 سال گزر گئے ہیں کتنی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں 1974 میں نافظ کیا گیا کوٹہ سسٹم جو تعصب کا ایک عظیم شاہکار ہے اسے ختم کرنے کے لئے کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ کتنے شرم کا مقام ہےکہ جب اردوبولنے والے سندھ کے باشندوں کے ساتھ جاری زیادتیوں کی بات کی جاتی ہے تو اسکے حمایت میں کسی کی جانب سے کوئی بیان نہیں آتا مگر جب انکے کےلئے الگ صوبے کی بات کی جاتی ہے تو سب ایک زبان ہو کر پاکستان کی یکجہتی اور سندھ کی سالمیت کی باتوں کا درس دینے لگتے ہیں۔ کیا ایک اور صوبہ کی تشکیل دینا پاکستان سے غداری ہے۔ جب بات ہوتی ہے پنجاب یا خیبر پختون خواہ میں نئے صو بوں کی تو پاکستان کی تمام بڑی پارٹیاں اور انکے قائدین یہ راگ الاپتے نظر آتے ہیں کہ نئے صوبے ضرور بننے چائیں مگر ان کی بنیاد لسانی بنیادوں پر نہیں ہو نی چا یئے اور پھر ساتھ ہی ڈیمانڈ کی جا تی ہے سرائیکی صوبے کی اور ہزارا صوبے کی۔
صوبہ سندھ میں سب سے پہلے تقسیم کا بیج ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سند ھ شہری اور سند ھ دہی کی تقسیم کی شکل میں قائم کیا گیا۔ کوٹہ سسٹم کے ذریعے سندھ کو سندھ دہی اور سندھ شہری میں تقسیم کیا گیا ۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ سندھ کے دہی علاقوں کی پسماندگی کو دور کرنے کے لئے دہی علاقے کے لوگوں کو زیادہ مراعات دینے کی ضرورت ہے۔مگر اسِ تقسیم کے پیچھے سچ کیا تھا؟ سندھ کی لسانی بنیادوں پر تقسیم ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین نے سندھ میں اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ لسانی کارڈ استعمال کیا اور پیپلز پارٹی کو سندھ میں سندھیوں کی پارٹی کے طور پر متعار ف کرایا۔ سندھ شہری حد بندی میں کراچی، حیدرآباد اور سکھر کو شامل کیا گیا جہاں اکثریت اردو بولنے والوں کی تھی جنہیں ہمیشہ مہاجر کہا جاتا رہا اور آج انکی نسل پاکستان میں پیدا ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مہاجر کہتی ہے۔ کیوں؟کیونکہ سندھ میں جان بوجھ کر اردو بولنے والوں یہ احساس دلایا گیا کہ وہ سندھی نہیں ہیں، ایسے نعرے بلند کئے گئے اور ایسی تنظیموں کی نہ صرف سرپرستی کی گئی بلکہ فروغ دیا گیا جو سندھ کی علیحدگی اور صرف سندھی بولنے والوں سندھ کا سپوت قرار دیتے رہے۔سندھ میں اردو بولنے والے نوجوانوں کو مکڑ اور پناہ گیر کہا گیا، اندورنِ سندھ کے اعلی تعلیمی اداروں میں آج بھی 23 مارچ کو پاکستان کا جھنڈا جلایا جاتا ہے۔مرحوم جی ایم سید نے اپنی زندگی میں سندھی نوجوانوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ اگر سندھ کی آزادی چاہتے ہو تو پناہ گیروں (اردو بولنے والوں)کو کبھی سندھی بن کر سوچنے نہ دینا۔ جی ہاں بدقسمتی سے یہ ہے حقیقت اور یہی ہے سچ۔!
ہم اپنے آپ کو کتنا بھی فریب دی لیں یا لوگوں کو دکھانے کے لئے جھوٹ بولتے رہیں مگر حقیقت یہ ہی ہے کہ سندھ میں اب دو مقامی قومیں آباد ہیں ایک وہ جو سندھی بولتی ہے اور ایک وہ جو اردو بولتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تحفہ کوٹہ سسٹم اسی تقسیم کی شناخت ہے۔ کل کی آل پاکستان مہاجر اسٹودینٹس فیڈریشن پھر مہاجر قومی مومنٹ اور آج کی متحدہ قومی مومنٹ کا قیام بھی کوٹہ سسٹم کے تحت کی جانے والی ناانصافیوں کا رد عمل تھا۔
اردو بولنے والوں کے لئے علیحدہ صوبے کی مخالفت اور سندھ کو تقسیم کرنے کے خلاف جان دینے کے دعوے کرنے والوں اور پاکستان کی قومی جماعتیں جو سندھ کی تقسیم کے خلاف ہیں انِ حقیقتوں کا جواب کیوں نہیں دیتی کہ:
1) سندھ میں 1974 سے اب تک شہری اور دہی کا کوٹہ سسٹم کیوں قائم ہے جبکہ اب سندھ کی ڈیموگرافک یکسر تبدیلی ہو گئی ہے
2) اگر سندھ میں رہنے والے سب سندھی ہیں اور برابر کا حق رکھتے ہیں تو آج تک سندھ کا وزیر اعلی کسی اردو بولنے والے کو کیوں نہیں بنایا گیا، کیوں اہم وزراتیں صرف سندھی بولنے والوں کے لئے ہیں
3) سندھ انتظامیہ میں اعلی عہدوں پر اردو بولنے والوں کو برابری کی بنیاد پر کیوں تقرریاں نہیں کی جاتیں
4) سندھ کی محکمہ بالخصوص پولس، انکم ٹیکس، کسٹم، ریوینیو وغیرہ میں کیوں 90 فیصد سے زیادہ صرف سندھی بولنے والے بھرتی ہیں
تاریخ گواہ ہے کہ یہی کچھ بنگلادیش میں بنگالیوں کے ساتھ کیا جا رہا تھا مگر ان اقتدار کے متلوالوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔
آج اگر الطاف حسین نے ایک مرتبہ پھر الگ صوبہ کا مطالبہ کیا ہے تو یہ ایم کیو ایم کا بنیادی اور اب مستقل مطالبہ ہونا چاہیے کیونکہ ایم کیو ایم کی تشکیل کی وجہ اردو بولنے والوں کے بنیادی حقوق حاصل کرنا تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت نظریہ پاکستان اور پاکستانی شناخت کی اہمیت کو سب نے ایک طرف رکھ دیا ہے ۔ اور اب بات ہوتی ہے اپنے علاقائی حق کی۔ آخر ہم کب تک اپنے آپ کو اور دنیا کو فریب دیں گے۔ آج حقیقت یہ ہی ہے کہ پاکستان میں پاکستانی بن کر کم علاقے کی شناخت سے زیادہ سوچا جا تا ہے ۔ تو پھر اگر اسی طرح سے سوچنا ہے تو آئیں ہم سب سچ بولیں ۔ آئیں پاکستان میں چھوٹے چھوٹے صوبے بنائیں جن کی بنیاد چاہئے لسانی ہو، تاریخی ہو یا انتظامی ہو۔ لحاظہ اگر پنجاب میں چار نئے صوبہ بننے چائیں تو پھر سندھ میں تین یا دو نئے صوبے کیوں نہیں بن سکتے۔ایک پاکستانی بن کر یا چار صوبے رکھ کر تو عام آدمی کو انصاف اور حق نہیں مل سکا شاید دس یا بارہ صوبے بناکر لوگوں کو انکا حق مل جائے۔
جہاں تک الطاف حسین اور ایم کیوایم کے علیحدہ صوبے کا مطالبہ ہے تو ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے ۔ آج الطاف حسین اور انکی جماعت کے دوسرے قائدین کو نظر آرہا ہے کہ اگر وہ اسِ مطالبہ کو اب مزید بالائے طاق رکھیں گے تو یہ نعرہ اردو بولنے والوں میں سے ہی کہیں اور سے آئے گا ۔ لحاظہ الطاف حسین کو اب علیحدہ صوبے یا اسِ قسم کا جامع مطالبہ کو اپنی پالیسی کا مستقل جز بنانا ہوگا ۔ اگر کسی نے سندھ کی تقسیم نہیں دیکھنی تو سندھ کے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا بلا تفریق برابری نظاکو فوری نافظ کرنا ہوگا اورپاکستان کو چلانے والی طاقتوں کو اسِ اہم اور نازک مسلہ پر فوری دھیان دینا ہوگا۔