بقلم سید عتیق الحسن
بلاول بھٹو زرداری نے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ عیسائی کو پاکستان کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو کو کسی بھی قسم کی خواہش رکھنے سے کون روک سکتا ہے ، ہوسکتا ہے کل وہ اپنی نو عمری میں یہ بھی خواہش ظاہر کردیں کہ وہ چاند پر جاکر جئے بھٹو کا نعرہ لگانا چاہتے ہیں۔جس نوجوان کی اپنی شناخت میں اسکے اپنے باپ نے ملاوٹ کر دی ہو تو پاکستان کی فکر اور اسکے نام میں بھی ملاوٹ کا متمنی ہو سکتا ہے۔بلاول بھٹو اپنی فیملی کا وہ بد قسمت بچہ ہے جسکو اپنے باپ کے خاندان کی بجائے اپنی ماں کے خاندان کے نسب سے دنیا میں متعارف کرانے میں کسی اور نے جرم نہیں کیا بلکہ اسکے اپنے باپ آصف علی زرداری نے کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ بلاول اپنے زرداری خاندان کے نام کو آگے لیکر چلتا تو اسکے دادا حاکم علی زرداری کی روح کو بھی خوشی ملتی کیونکہ پاکستان میں سیاست تو حاکم علی زرداری نے بھی کی تھی۔ مگر اقتدار کی حوسِ انسان کو اپنے نام اور خاندان کو بدلنے پر بھی راضی کر دیتی ہےتو ملک کا آئین پامال کرنے کی خواہش کیا معنی رکھتی ہے۔
عیسائی کو پاکستان کا وزیر اعظم دیکھنا یہ بلاول بھٹو کی خواہش نہیں ہے اور نا ہی پاکستان کے عیسائی طبقہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار ہے بلکہ اگر تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ ریاستی اقتدار حاصل کرنے کے لئے اپنے فرنگی آقائوں کو خوش کرنے کا وہ پرانا طریقہ ہے جو بلاول بھٹو کے جدی پشتی کرتے چلے آرہے ہیں۔بلاول زرداری بھٹو نے یہ بیان ٹیوٹر پر سوچ سمجھ کر اور سکرپٹ کے مطابق دیا ہے۔بلاول بھٹو کے ٹیوٹر پر بیان کے کچھ گھنٹوں میں یہ خبر بھی آئی کہ وہ اب پاکستان کی قومی اسمبلی کی لاڑکانہ کی نسشت حاصل کرکے حزبِ اختلاف کے قائد کا کردار کریں گے۔یہ جاگیر دار اپنے زرخرید غلام اپنی سیاسی پارٹیوں میں رکھتے ہیں اور انکو جہاں چاہا جیسے چاہا اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ایک اور خبر کے مطابق لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کے رکن ایاز سومرو سے استعفی دِلا کر اب اسکی جگہ بلاول بھٹو زرداری کو ضمنی انتخاب میں جیتا کر قومی اسمبلی میں لایا جائے گا اور اسِ نوجوان بلاول بھٹو زرداری کو جو پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کی خواہش رکھتا ہے اور غیر مسلم کو پاکستان کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتا ہے کو قومی پارلیمان میں لاکر حزب اختلاف کی سربراہی اس کے سپرد کریں گے۔ واہ میرے اللہ تو پاکستان کی عوام کو کسِ قسم کی سزا سے گزارنا چاہتا ہے۔ اسِ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 2014 میں ابھی پاکستانیوں نے اور کیا کچھ نہیں دیکھنا ہے۔
پاکستان کی بدقسمتی اور تباہی کی اصل وجہ یہ لوگ اور انکے جاگیردارانہ رویہ ہیں۔ یہ اپنے آپ کو پیدائشی طور پر پاکستان کا وارث سمجھتے ہیں اور پاکستان کے اقتدار کی خاطر یہ کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔ یہ انہی لوگوں کے جان نشین ہیں جنہوں نے پاکستان کے ٹوٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان تو کیا اگر صوبہ سندھ کا جسِ کے یہ اپنے آپ کو وارث کہتے ہیں اقتدار حاصل کرنے لئے سودا کرنا پڑا تو یہ اس میں دیر نہیں لگائیں گے، کیونکہ ان کی اصل پناہ گاہیں انُ انگریزوں کی ریاستیں ہیں جن کی بدولت انِ کو پاکستان کے موجودہ صوبوں میں جاگیرداری اور قبائلی سرداری ملیِ۔ذوالفقار علی بھٹو کا باپ شاہنواز بھٹو کا اصل تعلق مشرقی پنجاب سے تھا مگر وہ دیوان جوناگڑہ کے نواب کا تھا لحاظہ جونا گڑھ یا رہائشی تھا اور وہاں سے آکر سندھ میں آکر آباد ہوا تھا کیونکہ انگریزوں سے ساتھ وفاداری اور جونا گڑھ (جسے اب گجرات کہا جاتا ہے) کے نواب کی ریاست ختم کرنے میں شاہنواز بھٹو نے اہم کردار ادا کیا تھا۔انعام و اکرام کے طور پر شاہنواز بھٹو کو انگریزوں نے سر کے لقب سے نوازہ اور سیکڑوں ایکڑ زمین لاڑکانہ کے قریب کی جگہ شاہ نواز بھٹو کے نام کردی اور یوں بھٹو خاندان سندھ کی ملکیت کے ٹھیکیدار بن گئے۔ توپھر کیوں بلاول بھٹو عیسائی کو پاکستان کا وزیر اعظم دیکھنے کا خواہش نہیں رکھے گا۔
بات عیسائی ہونے یا نا ہونے کی نہیں ہے۔پاکستان میں ایک بڑی تعداد عیسائیوں کی آباد ہے جو محب وطن پاکستان ہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کا تعلق پاکستان کے اقلیتی طبقہ سے ہے اور آئین پاکستان کےمطابق کوئی غیر مسلم پاکستان کا وزیر اعظم یا صدر نہیں بن سکتا بالکل اسی طرح جیسے بہت سے مہذب مغربی ممالک میں مسلمان ریاست کا سربراہ نہیں ہو سکتا۔
آج پاکستان میں عیسائی یا غیر مسلم تو کیا کوئی مسلمان بھی محفوظ نہیں ہے۔جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ان جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں نے لوگوں سے پاکستان کی فکر، سوچ اوراسُ فلسفہ کو چھین لیا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا تھا۔ عوام کو مہنگائی، پانی، بجلی، گیس، روزگار جیسے مسائل میں اسِ بری طرح سے الجھا کر رکھ دیا ہے کہ ایک عام آدمی کے پاس پاکستان کی فکر، سوچ اور فلسفہ کو سمجھنے کے لئے وقت نہیں ہے۔ اگر حالات ایسے ہی رہے اور یہی لوگ پاکستان پر قابض رہے تو پھر ہو سکتا ہے آنے والے وقتوں میں میرے جیسے لکھاری کو پاکستان پر مزید لکھنے کی ضرورت نہ رہے۔