سید عیتق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
کچھ رشتے اللہ تعالی انسان کے لئے خود بناتا ہے، کچھ انسان دنیا میں دوسروں کے ساتھ اپنی پسند کی بنیاد پر بناتا ہے اور کچھ رشتے اللہ تعالی بناتا ہے پھر انسان بھی اس میں ایک نیا رشتہ پیدا کر لیتا ہے۔ ایسا ہی رشتہ میرا میرے چھوٹے ماموں مختار احمد کے ساتھ تھا۔ اللہ نے ہمیں ماموں بھانجے کا رشتہ عطا کیا پھر ہم نے اسِ رشتہ کو مزید دوستی کے رشتہ میں ڈھال کر امر کر لیا۔
گولف گرائونڈ کراچی کینٹ اسٹیشن سے دس منٹ کی دوری پر واقع ایک خالی گرائونڈ تھا جہاں کبھی انگریز گولف کھیلا کرتے تھے۔ ۱۹۴۷ میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے ہوئے سینکڑوں خاندان اپنی ہجرت کے شروع کے دنوں میں یہاں آکر آباد ہوئے۔ انِ میں مشہور شاعر، ادیب، افسانہ نگار، استاد، دانشور، ہنر یافتہ اور بیوروکریٹس بھی شامل تھے۔ مشہور ادیب اور دانشور انور مقصد نے بھی ایک تقریب میں انکشاف کیا کہ انکے خاندان نے بھی ہجرت کرکے ابتدائی عرصہ گولف گرائونڈ میں گزارا تھا۔ مشہور فلمی اداکارہ دیبا کا خاندان بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے گولف گرائونڈ میں آکر آباد ہوا تھا۔میری والدہ دیبا کے بارے میں مجھے قصہ سنایا کرتی تھیں۔
میرے نانا ،عبدالغفار احمد ،اپنی اہلیہ یعنی میری نانی ، کنیز فاطمہ، اور خاندان کے بیشتر افراد اور عزیز و اقارب کے ساتھ ہندوستان کے شہر آگرہ سے ۱۹۴۷ میں ہجرت کرکے دوسرے لاکھوں مسلمانوں کے ساتھ کراچی پہنچے۔ کراچی کینٹ اسٹیشن پر کنبہ نے ٹرین سے اتر کر اللہ کا لاکھ لاکھ شکرادا کیا، پاک سر زمین کو سجدہ کیا اور اپنی اگلے قدم کی جانب رخُ کیا۔ کراچی ہی نہیں پورا پاکستان ہی انِ سب مہاجرین کے لئے نیا ملک تھا۔ لحاظہ کراچی کے کسی بھی علاقے کو اپنا جائے مقام بنانا اُن مہاجرین کے لئے کوئی فرق نہ تھا۔ میرے نانا کے خاندان سمیت تمام لوگوں نے پیدل چل کر گولف گرائونڈ میں پڑائو ڈال دیا۔ کینٹ اسٹیشن کے باہر ٹراموں کا آخری یا پہلا اسٹاپ واقع تھا۔ اسُ زمانے میں کراچی میں پبلک ٹراموں پر سفر کرنے کا رواج تھا۔ میرے نانا کے اس وقت دو بچے ایک بیٹا وقار احمد اور بیٹی بلقیس بیگم ( جو میری والدہ تھیں ) ہندوستان سے ساتھ آئیں تھیں۔ بعد میں میرے دو اور ماموں افتخار احمد اور مختار احمد اور ایک خالہ ستارہ بیگم گولف گرائونڈ میں پیدا ہوئیں۔
مختار احمد، میرے چھوٹے ماموں، ۱۹۵۵ میں گولف گرائونڈ میں پیدا ہوئے ۔ میری والدہ، بلقیس بیگم کی شادی ۱۹۵۴ میں میرے والد سید شفیق الحسن کے ساتھ حیدرآباد (سندھ) میں ہوئی ۔ شادی کے تین سال بعد میں پیدا ہوا۔ ماموں مختار احمد مجھ سے صرف دو سال بڑے تھے۔ لحاظہ میرا رشتہ مختار ماموں کے ساتھ بچپن ہی سے ماموں بھانجے سے زیادہ دوستی کا تھا۔ ہماری اسِ دوستی میں ہمارے بچپن کی مشترکہ شرارتیں، کھیل کھود اور قصہ کہانیاں سنانا شامل تھا۔ میری والدہ کے خاندان کے اور رشتہ دار بھی یہیں آباد تھے لحاظہ انکے بچوں کے ساتھ بھی ہماری دوستیاں تھیں۔ ہمیں باہر سے کوئی دوست بنانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی کیونکہ خاندان کے ہم عمر بچے ہی کافی تھے۔میرے نانا نانی کے بھائی بہن اور انکا خاندان بھی یہیں آباد تھا۔ میری امی کے ماموں کے بچے بھی ہماری ہم عمر تھے۔ انُ میں ہی ایک نگہت تھیں جو میری ہم عمر تھیں جن سے بعد میں مختار ماموں کی شادی ہوئی جو پھر دوست کے ساتھ ساتھ ممانی بھی بن گئیں۔
میری والدہ کراچی کئی مہینوں کے لئے اپنے ماں باپ کے گھر آکر رُکتی تھیں۔ نانا کے گھر کے قریب ہی خاندان کے دوسرے رشتہ دار رہا کرتے تھے۔ سب کا آپس میں روزانہ کا آنا جانا تھا، شام میں سب کی بیٹھک ہوتی تھی، مستقبل کے پلان بنائے جاتے تھے اور پھر ساتھ کھانے کا انتظام ہوتا تھا۔ بڑے ماموں وقار احمد کو نائیجرہ ہائی کمیشن میں نوکری مل گئی تھی۔ اس زمانے میں زیادہ تر سفارتخانےکینٹ اسٹیشن کے قریب فرئیر روڈ سے ملحق علاقے میں قائم تھے۔ کچھ منٹ کے پیدل فاصلہ پر مشہور فرئیر ہال کا مشہور پارک تھا جو آج بھی قائم ہے۔ اس پارک میں ایک میوزم بھی تھا ۔ اکثر ہفتہ وار چھٹی پر یہاں مشہور پاکستانی فلمیں پردہ پر دکھائی جاتی تھیں۔ میرے نانا کے اہل خانہ اور رشتہ دار مل کر اسِ پارک میں فلم دیکھنے جایا کرتے تھے اور ساتھ ہی کھانے کا دور بھی چلتا تھا۔ میں اورمختار ماموں پارک میں شام کے اوقات میں جایا کرتے تھے اور وہاں پر آئے غیر ملکی سفارتکاروں کے بچوں سے دوستیاں کر لیتے تھی ۔ انِ غیر ملکی بچوں کی زبان نہیں آتی تھی مگر پیار، اخلاق اور محبت کی اپنی زبان ہوتی ہے ۔ ہم تھوڑی بہت انگلش کے جملے استعمال کرکے کام چلا لیتے ہیں۔ میں یہاں ذکر کرتا چلوں کہ ہجرت کرکے آنے والوں میں زیادہ تر لوگ چاہے تعلیم یافتہ ہوں یا ان پڑھ انگلش سمجھتے اور بولتے تھے۔ میرے بڑے ماموں وقار احمد بڑی روانی سے انگلش بولتے تھے اسی لئے غیر ملکی سفارتخانہ میں اچھی نوکری بھی فوراً مل گئی تھی۔
کیونکہ ماموں مختار احمد تقریباً ہم عمر ہی تھے لحاظہ بچپن سے ہی میں ماموں سے زیادہ دوستی کے رشتے میں بندھا ہوا تھا۔ دوستی بھی ایسی کہ کھانا، پینا، سونا ، کھیل کود اور ہر کام ایک ساتھ کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے گھر میں ایک لوہے کی ساخت کا تخت ہوتا تھا جس پر میں اور ماموں ایک ساتھ صحن میں یا پھر نانا کی قریب کھولی ہوئی کریانے کی دکان کے باہر جگہ پر ایک ساتھ سوتے تھے۔ رات کو دیر تک آسمان کو دیکھتے تھے اور تارے گننے کا کھیل کھیلتے تھے۔ ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے تھے سارے دنِ میں جو کارنامے کئے ہوتے تھے انُ کوقصوں میں بیان کرکے دیر تک ہنستے رہتے تھے اور پھر دوسرے دنِ کا پلان کرتے تھے ۔ آنکھ کب لگ جاتی اور ہم کب سو جاتے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔
کینٹ اسٹیشن سے صدر کا پیدل سفر تقریباً آدھے گھنٹہ کا تھااور اگر ٹرام کے ذریعہ جائیں تو دس منٹ لگتے تھے۔ ماموں اور میرے کزن ہم زیادہ تر پیدل ہی صدر جایا کرتے تھے۔ راستہ میں زیادہ تر سفارتخانے، سرکاری عمارتیں اور اعلی ہوٹلیں قائم تھیں۔ زیادہ تر سڑکوں پر غیر ملکی چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ پھر صدر میں بوہری بازار بہت مشہور تھا۔ جہاں اکثر غیر ملکی نظر آتے تھے۔ میری اور ماموں کی کوشش ہوتی تھی کہ ہم انِ غیر ملکیوں سے بات کریں۔ ہم ان سب کو انگریز سمجھتے اور کہتے بھی تھے۔ لحاظہ ہم انکے پاس جاکر ہیلو ہائے کرتے تھے پھر یہ سیاح ہمارے فوٹو بناتے تھے جو ہم شوق سے کھنچواتے تھے۔ ہم بوہری بازار کی چھوٹی چھوٹی گلیوں میں واقع دکانوں پر غیر ملکیوں کو کھڑے ہوکر دیکھتے تھے۔ یہیں پر ایک بڑی مشہورلسی اور ناشتہ کی ریسٹورینٹ ہوتی تھی جس پر میں اور ماموں جاکر ہلوہ پوری اور لسی پیتے تھے۔سب چیزیں بہت سستی تھیں لحاظہ گھر سے چلتے وقت کبھی نانی سے کبھی نانا سے اور کبھی امی سے پیسہ لیتے تھے کبھی ان سب سے پیسے لیکر جمع کرتے تھے اور پھر صدر کھانے پینے جایا کرتے تھے۔ باہر جانے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔کسی قسم کی روک ٹوک نہیں تھی کیونکہ کسی قسم کے کوئی جرائم کا کسی کوئی اندیشہ نہیں ہوتا تھا۔ گھروالے مجھے اور ماموں کو صدر جانے کو کبھی منہ نہیں کرتے تھے اور ہم بلا خوف و خطر سڑکوں پر گھومتے پھرتے تھے اور بچپن کی زندگی سے طلف اندوز ہوتے تھے ۔پھر صدر میں کئی گھنٹے گزارنے کے بعد ٹرام کے ذریعہ واپس گھر آیا کرتے تھے۔ ٹرام کا ٹکٹ لینے کی ہمیں ضرورت نہیں تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کافی عرصہ تک اس میں سفر مفت میں ہوتا تھا۔
۱۹۷۰ کی دھائی میں نانا کا خاندان کراچی کی نئی بننے والی آبادی گرین ٹائون میں منتقل ہو گیا تھا۔کچھ عرصہ گرین ٹائون میں رہنے کے بعد قریب ہی سلیم ہائوسنگ پروجیکٹ میں کے نئے تعمیر شدہ گھر میں منتقل ہوگئے جو فیصل کالونی سے متصل ہے۔ یہاں نانا کی فیملی کے تمام افراد یعنی میرے ماموں اور ایک خالہ ساتھ ہی رہتے تھے۔
۱۹۷۸میں ماموں کی شادی نگہت جو رشتہ میں ماموں کی ماموں زاد بہن تھی مگر میں انہیں ہم عمر ہونے کے ناطے نگہت ہی کہتا تھا ، ماموں سے شادی کے بعد میں انہیں نگہت ممانی کہنا شروع کر دیا۔ ماموں کی شادی کے وقت میں یونیورسٹی میں ماسٹر کے آخری سال میں تھا۔ چھٹیوں میں کراچی آتا تھا اور کئی ہفتہ ماموں کے ساتھ گزارتا تھا۔ ماموں کی شادی کے بعد انکے مالی حالات ٹھیک نہیں رہتے تھے۔ نوکری میں اتنی کمائی نہیں ہوتی تھی کہ گھر گرہستی چلا سکیں تو ہم کچھ اور کرنے کا پلان کرتے رہتے تھے ۔ ۱۹۸۳ میں ہم نے مل کر پی آئی بی کالونی (کراچی) میں عنبرین کریانہ اسٹور کھولا جس کو ماموں چلاتے تھے۔ ماموں کے اس وقت دو بیٹے ہو گئے تھے، اضوان احمد اور نعمان احمد ، بعد میں دو بیٹیاں نازش اور مہوش ہوئیں ۔ یوں ماموں کے چار بچے تھے۔ کریانہ اسٹور تقریباً دو سال چلانے کے بعد فائدہ نہ ہونے کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ ماموں نے بڑا سخت وقت گزارا۔ پھر سائٹ کے علاقے میں کپڑے کی ایک فیکٹری میں کلرنگ کے ماہر کی نوکری مل گئی پہلے کام سیکھا اور پھر اس میں مہارت حاصل کی اور ترقی بھی نصیب ہوئی ۔
ماموں ایک شریف النفس طبیعت اور محنتی انسان تھے۔ محنت سے کبھی نہیں گھبراتے تھے اور نا ہی کبھی حالات سے مایوس ہوتے تھے۔ سال میں ایک دو مرتبہ چھٹیوں میں حیدرآباد بھی رہنے کے لئے آتے تھے۔ ہم ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ میرے کئی دوست ماموں کے بھی مشترکہ دوست بن گئے تھے۔ ماموں کیونکہ بہت ہنس مزاج اور خوش اخلاق انسان تھے لحاظہ بہت جلدی لوگ ان سے مانوس ہو جاتے تھےاور دوست بن جاتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی ماموں کی کسی خاندان میں یا باہر کے کسی فرد سے ان بن ہوتی نہیں دیکھی۔ میرے ساتھ کبھی بھی زندگی میں کسی بات پر کوئی نا اتفاقی نہیں رہی۔ ہم دونوںمیں ایک قدرتی محبت تھی،ہم خیالی تھی اور آگے بڑھنے کے منصوبہ اور مقصدتھے۔
ماموں کی شادی پر میں نے ایک لڑکی کو دیکھا جو مجھے پسند آئی میں نے ماموں سے پوچھایہ لڑکی کون ہے ۔ ماموں نے کہا یہ ہمارے رشتہ دار ہیں۔ پھر ماموں نے کہا کیا بات ہے میں نے کہا بس یو ہی پوچھ رہا تھا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ ۱۹۷۹ میں ماسٹر ڈگری مکمل کرکے کراچی آگیا اور ماموں کے یہاں ہی رہنے لگا۔ پھر ۱۹۸۰ میں گریڈ ۱۹ میں کمپیوٹر سسٹم آفیسر کی کے پی ٹی میں نوکری مل گئی ۔ جاب ختم کرکے ماموں اور میں کراچی میں کہیں نہ کہیں نکل جاتے تھے ۔ میرے پاس وقت موٹر سائیکل تھی ، روزانہ کی بنیاد پر کراچی کی سیر کرتے۔ نئے سے نئے ریسٹورینٹ میں کھانا کھاتے۔ ماموں ہمیشہ اپنے بچوں کی پڑھائی کے لئے فکر مند رہتے تھے۔ بچے اچھے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
رضوان اور نعمان دونوں بڑے فرما بردار بیٹے رہے ہیں۔ میں نے دونوں بیٹوں کو ہمیشہ ماں باپ کی عزت کرتے اور انکی خدمت کرتے دیکھا۔ نعمان نے پچھلے کئی سالوں سے اچھا کاربار شروع کر رکھا ہے ۔ اللہ نے نعمان کو مالی طور پر بڑا مستحکم بنایا ہے اور یہ گھر کے علاوہ خاندان کے ہر غریب انسان کی مدد کے لئے تیار رہتا ہے۔اللہ کے کرم اور دعائوں سےماں باپ کو عمرہ اور حج کی سعادت نصیب کروائی۔
۱۹۸۰ کا سال تھا میں نے ایک روز میں نے ماموں سے پھر پوچھا ماموں یاد ہے آپ کی شادی پر میں ایک لڑکی کے بارے میں پوچھا تھا ماموں اور میری کیمسٹری اتنی ملتی تھی کہ وہ سمجھ گئے میں کیا چاہتا ہوں۔ ماموں نے کہا کہ ہم ایک دو روز میں ان کے گھر چلیں گے اور پھر ہم ان کے گھر گئے۔ پھر ایک دنِ میں نے ماموں سے کہا کہ ماموں میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ ماموں نےکہا سوچ سمجھ لو یہ شادی کا معاملہ ہے کھیل نہیں ۔ ماموں میری طبیعت سمجھتے تھے انہوں نے کہا ٹھیک ہے اپنی امی سے بات کرو اور اگر میری ضرورت پڑی تو میں بھی آپا جان (میری امی) سے بات کر لوں گا۔ غرض کہ بات آگے بڑھی اور یوں ستمبر ۱۹۸۱ کو میری شادی ثریا بیگم سے ہوگئی جو ثریا حسن کے نام سے منسوب پچھلے اکتالیس سال سے میری
شریک حیات ہیں۔
ماموں اکثر مزاق میں ثریا سے کہتے تھے کہ آپ دونوں کی شادی میری وجہ سے ہوئی ہے اگر میں عتیق کو آپ کے گھر لیکر نا جاتا تو بات کیسے آگے بنتی اور آپ عتیق کی زندگی میں کیسے آتیں ۔ ماموں جتنا مجھ سے پیار کرتے تھے اتنا ہی ثریا سے بھی، کیونکہ میرے نانا اور میری ساس کا خاندان ہندوستان سے ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ داروں جیسا تعلق رکھتے تھے اور آگرہ میں ایک ہی علاقے سے تعلق تھا۔ میری ساس زبیدہ بی بی میرے نانا عبدالغفار احمد کی بہن بنی ہوئی تھیں اور میرے امی کو انہوں نے ہندوستان میں گودوں میں کھلایا ہوا تھا۔لحاظہ دونوں خاندانوں کا تعلق کئی دھائیوں پر محیط ہے۔
آج مختار ماموں کے چاروں بچے ماشااللہ کراچی میں اچھی اور عزت کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ میرا تعلق ماموں کی فیملی کے ساتھ میری اپنی فیملی جیسا ہے ۔
مختار ماموں یکم جولائی(۲۰۲۳) شام تقریبا پانچ بجے عید کے سلسلے میں ہونے والی تقریبات کے دوران ایک ناگہانی حادثہ کا شکار ہوگئے، جس کی تفصیل میں یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ ماموں کی گردن اور اسپائن میں شدید چوٹیں آئیں ، کچھ دنِ آغا خان ہسپتال کراچی میں علاج کے بعد ۱۴ جولائی کو اسِ دنیا سے رخصت ہو گئے۔ہر انسان کی زندگی کچھ ایسے لوگ ہو تے ہیں جن کے ساتھ آپ اپنی زندگی کا ہر اچھا برا وقت ہر مشکل اور راحت کے لمحات بانٹ سکتے ہیں اور اگر ایک شخص بھی آپ کی زندگی میں ایسا ہو تو زندگی کی جدوجہد میں آسانی ہو جاتی ہے۔ مختار ماموں میرے لئے ایسے ہی انسان تھے جو میرے ذہن کے گوشے میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اللہ مختار ماموں کو جنت الفردوس میں اعلی جگہ عطا فرمائے (آمین)۔
مورخہ ۲۰ جولائی ۲۰۲۳