سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء :علامہ طاہر القادری نے پاکستان میں قدم رکھنے کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے
کہا کہ وہ اپنے 23 دسمبر کے مینارِ پاکستان کے خطاب میں وہ سارے شکوک و شبہات دور کرد یں گے جو مختلف سوالات کی صورت میں صحافی علامہ طاہرالقادری صاحب سے کر رہے تھے۔ پھر مینارِ پاکستان پر ایک تاریخ ساز جلسہ سے خطاب کے ابتدائی لمحات میں علامہ طاہر القادری صاحب نے حلفیہ بیان کی صورت میں وہ شکوک و شبہات اور سا زشی نظریات دور کر دئیے جو شاید اسِ لئے اٹھائے جارہے تھے کہ ماضی میں پاکستان کے سیاسی قائدین نے اسِ طرح کے طریقہ کار صرف اقتدار حاصل کرنے کے لئے کئے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ علامہ طاہر القادری صاحب کا اگلے انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی پروگرام نہیں اور نہ ہی انکی جماعت منہاج القران کا کوئی اسِ قسم کا ایجنڈہ ابتک سامنے آیا ہے۔ دوسرے یہ کہ مولانا نے یہ حلفیہ طور پر واضح کر دیا ہے کہ اگر فوج نے ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کی کوشش کی تو علامہ صاحب خود سب سے پہلے فوج کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو ں گے پھر انہوں نے یہ بھی حلفیہ طور پر کہہ دیا کہ ان کے پیچھے نہ تو کوئی بیرونی طاقت ہے اور نہ ہی اندورنی۔ اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا کہ ان کا اگلے انتخابات کو ملتوی کرانے کا نہ کوئی ایجنڈا ہے نہ ہی کوئی تحریک چلانے کا منصوبہ، تو پھر ایوانوں میں پانچ سال سے بیٹھے سیاسی جماعتوں کے کارندوں کو خوف کسِ بات کا ہے؟ اور اگر ان کے پاس عوام کی حمایت اب بھی قائم ہے تو طاہر القادری صاحب کے اسلام آباد کے پروگرام پر خوف اور پریشانی کیوں؟ تو بات بالکل صاف ہے ۔پانچ سال سے اقتدار کے مزے لینے والی جماعتیں اور انکے نمائیندے چاہے مرکز میں ہوں یا صوبوں میں نہیں چاہتے کہ وہ اقتدار سے باہر رہے ۔کیونکہ پاکستان کے حکومتی نظام کی روایات رہی ہے کہ جب تک عوام جوتے نہ ماریں کوئی اقتدار نہیں چھوڑتا۔ مرکز اور صوبون میں اقتدار میں بیٹھی انِ جماعتوں کے پاس نہ تو عوامی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے، ملک کا امن و امان ٹھیک کرنے اور عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت کا کوئی پروگرام ہے اور نہ ہی کوئی اہلیت پچھلے پانچ سال میں ثابت کی ہے۔ ورنہ پارنچ سال میں عوام کی حالت غیر نہ ہوتی ، ملک می معیشت برباد نہ ہوتی اور ملک میں امن و امان تباہ نہ ہوتا۔ انِ جماعتوں کا وقت پر انتخابات ہونے کا مقصد صرف اور صرف ایک ہے کہ کسِ طرح سے یہ یقینی بنایا جائے کہ وہ ایک مرتبہ پھر انتخابات میں جیت کر اپنا اقتتدار برقرار رکھیں۔ لحاظہ عبوری حکومت سے لیکر الیکشن کے لئے جو بھی قوائد و ضوابط پارلیمنٹ میں قانون سازی اور باہمی جوڑتوڑ کے ذریعے کئے جارہے ہیں وہ صرف ایوانو ں میں بیٹھی جماعتوں کا ایک دوسرے کے مفادات کی حفاظت کرنا اور آئیندہ انتخابات کے ذریعے اقتدار میں اپنے حصہ بکرے کرنا ہے۔ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام کے لئے اب وقت آگیا ہے کہ وہ باہر نکلیں، مصلحتوں اور حالات سے سمجھوتہ کی زنجیروں کو توڑیں۔ جو قومیں ظلم و ستم سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں و ہ خود ظلم و ستم کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اگلے تین چار مہینے پاکستان کے مستقبل کے لئے فیصلہ ساز ہونگے۔ اور ان فیصلوں کے ذمہ دار پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام ہونگے ۔ اگر لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اسی سے طرح ظلم و بربریت ، لا قانونیت ، بے روزگاری، مہنگائی اور لوٹ مار سے لبریز گزرتے ہوئے حالات سے سمجھوتہ جاری رکھیں صرف اسِ لئے کہ ابھی تک انکے گھر کا چولہہ تو جل رہا ہے یا ان کی نوکری تو لگی ہوئی ہے یا کہ ان کو تو ابھی تک کسی نے نہیں لوٹا تو یقیناًوہ وقت بھی آجائے گا کیونکہ کراچی سے لیکر کوٹہ تک ہر روز بیسیوں لوگ مارے جارہے ہیں، ہر روز ہزاروں لوگ لوٹے جا رہے ہیں، ہر روز دھماکے ہو رہے ہیں آج نہیں تو کل آپ کا نمبر بھی آسکتا ہے۔لحاظہ یہ ہر محب وطن پاکستانی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے، عزت کی زندگی گزارنے کے لئے اور پاکستان کا وقار دنیا میں اجاگر کرنے کے لئے اپنے گھر سے باہر نکلے اور ہر اس لیڈر جماعت کا ساتھ دے جو اجارہ داری والی سیاست، سیاست کے نام پر گدی نشینی ، آمریت، جاگیردارانہ نظام اور وڈیرانہ روایات کے خلاف اٹھ کھڑے ہو رہاہے۔ پاکستان کی ان محب وطن سیاسی جماعتوں اور انکے قائدین کو بھی چاہیے کہ اگر وہ اپنے سیاسی مستقبل کی ضمانت اور حفاظت چاہتے ہیں تو ان قوتوں کے خلاف بغیر کسی مصلحت اور وقت کو ضائع کئے بغیر اٹھ کھڑے ہوں ۔ اسِ مہم میں اگر علامہ طاہر القادری صاحب نے پہل کر دی ہے تو اپنی انا، سیاسی یا فرقہ گروہ بندی او ر ذاتی مرتبہ کو بالا طاق رکھ کر پاکستان کی سلامتی کی خاطر اور اٹھارہ کروڑ عوام کے بہتر مستقبل کی خاطر علامہ طاہر القادری کے پیچھے کھڑے ہوں اور اگر انکے پیچھے کھڑے ہونے میں کوئی قباحت ہے تو انکی کی آواز میں آواز ضرور ملائیں اور علامہ کا ساتھ دیں۔ یہاں یہ بات خوش آئیندہے کہ متحدہ قومی مومنٹ کے قائد الطاف حسین صاحب نے طاہر القادری صاحب کا نہ صرف ساتھ دینے کا اعلان کیا بلکہ انکے ایجنڈے سے اتفاق کرتے ہوئے 23 دسمبر کے مینارِ پاکستان کے جلسے میں اپنی پارٹی کے تمام ارکارن کو بھی جلسہ میں شرکت کے لئے بھیجا ۔ اب الطاف حسین صاحب کو چائیے کہ ان ارکارنِ پارلیمنٹ کو مرکز اور صوبائی اسمبلیوں سے بھی فارغ کریں اور طاہر القادری کی مدد کے لئے روانہ کریں۔ یقیناًمتحدہ قومی مومنٹ کے اسِ عمل سے پاکستانی عوام کی وہ شکایات بھی دور ہو جائیں گے جو متحدہ قومی مومنٹ نے پیپلز پارٹی کے اقتدار کو پانچ سال طول دینے کے لئے کیں ۔ اسی طرح سے تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو بھی چائیے کہ وہ کھل کر علامہ طاہر القادری کی مہم میں شریک ہوں اور اپنی پارٹی کے نوجوانون کو جو انکا خزانہ ہیں کہیں کہ وہ طاہر القادری کے اسلام آباد کے دھرنے میں اہم کردار ادا کریں۔اسِ کے علادہ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی چھوٹی بڑی جماعتوں کو بھی چائیے کہ وہ سوچیں کہ وہ انکی پارٹیاں اسی طور زندہ رہ سکتی ہیں اگر پاکستان قائم و دائم رہے گا ورنہ انکو کسی اور ریاست ہضم کر جائے گی لحاظہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو مضبوط کریں اور موجودہ وقت میں اب جو سلسلہ اور مہم طاہر القادری نے شروع کی ہے اسِ میں شامل ہوں۔اسی طرح سے دیارِ غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کو بھی جس طرح سے ممکن ہو پاکستان کے نظام کو بہتر بنانے کی تحریک میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو 2013 کا ابھرتے ہوئے سال میں پاکستان کی عوام کو ان جاگیردارنہ نظام اور جدی پشتی سیاست کو دفن کر نا ہوگا ۔ اسِ فرسودہ نظام کو چلانے والے لیڈران کو عوامی جلسوں اور شاہراہوں میں جوتے مارنے ہونگے۔ بانی پاکستان پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ پاکستان دنیا کی عظیم ریاست ہوگی جہاں ہر انسان برابر ہوگا اور ہر ایک کو اسکا بنیادی حق ملے گا۔ آج پاکستانی قوم کو قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو قائم کر نا ہوگا۔