سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
علامہ طاہر القادری نے کچھ گھنٹوں پہلےاپنے انقلاب مارچ کے شرکا سے اپنے کنٹینر پر کھڑے ہوکر ایک ہاتھ میں اپنا کفن لیکر بڑے رقت آمیز انداز میں کہا کہ اب یہ کفن میں پہنوں گا یا پھر یہ ظالم اور کرپٹ نظام۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ کفن ظالم اور کرپٹ نظام کو پہنادیا گیا تو آ پ تمام لوگ اپنی جہدو جہد میں سرخرو ہوجائوگے اور اٹھارہ کروڑ پاکستانی عوام کو اسِ ظالمانہ نظام سے نجات دلا دو گے اور اگر یہ کفن میں نے پہن لیا تو پھر یہ جگہ آپ سب لوگوں کا شہیدوں کا قبرستان بنے گی۔ علامہ طاہر القادری کا بنیادی اور ابتدئی مطالبہ ان لوگوں کے قتل اور حملہ کے خلاف ایف آر درج کرانا تھی جن کو ماڈل ٹائون میں علامہ صاحب کی رہائش گاہ پر پولس نے گولیوں سے حملہ کرکے کیا۔دو ماہ سے آج تک ایف آر درج نہ ہو سکی اور مطالبات بڑھتے گئے، حالات خراب ہوتے گئے اور لوگ اب مرنے اور مارنے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔ میرے پاس اسِ کیفیت کو بیان کرنے کے لئے صحح الفاظ کا چنائو مشکل ہو گیا ہے!
علامہ طاہر القادری کی تقریر پاکستان کی ساری قوم نے جہاں جہاں پاکستانی ٹی وی کی کوریج جاتی ہے دیکھی۔ یہ منظر شاید پاکستانی قوم نے اسِ سے پہلے نہیں دیکھیں ہونگے، اور جہاں تک میری یاد داشت کام کرتی ہے میں نے ۱۹۷۷ کی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ملک گیر تحریک دیکھی تھی مگر جو کچھ اسِ وقت برپا ہو رہا ہے ، وہ مناظر میں نے پہلے نہیں دیکھے۔ ہاں میں نے اخبارات میں ظلم و بربریت اور سینکڑوں افراد کی بوسیدہ لاشیں ضرور دیکھی تھی جو آج مختلف ویب سائٹس پر شاہد تاریخ کے بھیانک اوراق کا حصہ کے طور پر ملِ جائیں جو سابقہ مشرقی پاکستان کے شہریوں کے ساتھ کئے گئے تھے۔ جس کا انجام قائد اعظم کی عظیم جہدوجہد اور ہندوستان کے لاکھوں مسلمانوں کے خون سے تعمیر ہونے والے پاکستان کے دوٹکڑے ہونے پر ہوا۔جو لوگ پاکستان توڑنے کے جرم میں شریک تھے آج انہی کی نسلیں پا پھر وہی آمرانہ اور بادشاہت کی سوچ رکھنے والا ٹولہ پاکستان پر قابض ہے اور چاہتا ہے کہ عوام وہی کریں جس کو یہ ٹولہ صحح سمجھتا ہے۔
میری عقل و دانش یہ کہتی ہے کہ حالات و واقعات اب جس نہج پر پہنچ چکے ہیں یہ ظلم و بربریت ،اور بے بسی کا المناک اور عبرتناک مقام ہے ، جس کا انجام صرف اور صرف تباہی ہے۔ اگر کسی ملک میں ایک سیاسی و مذہبی قائد اس بحث سے در کنار کے اس کا سیاسی و مذہبی ایجنڈا کیا ہے، اپنے ہزاروں پیروکاروں کو لیکر دارالخلافہ کے مرکز میں کئی دنوں احتجاج کرنے کے بعد اسِ نوبت پر آجائے کہ اس کو کفن خریدنا پڑھ جائے تو پھر قومیں زندہ نہیں رہتی اور ریاستیں قائم نہیں رہتیں۔
پاکستان کے عظیم درالخلافہ میں خون کی ہولی کھیلنے کاپلان تشکیل دیا جارہا ہے ، شہباز شریف چین کے دورہ پرروانہ ہوگئے ہیں، بہت سارے سیاسی پنڈتوں نے اپنی زبان بند کر لی ہے اور بہت سو نے بیرونِ ملک سفر کے ٹکٹ خرید لئے ہیں۔ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے شرکا کے خلاف مارکہ آرائی کے لئے حکومتی ٹولہ اپنے لوگوں کو لیکر اسلحہ کے ساتھ دھرنے کی طرف لے جائے جا ر ہا ہے ۔یہ وہی عراق، لبیا اور شام جیسے حالات پیدا کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ ذرا سوچیئے یہ پاکستان میں کیا کھیل کھیلا جارہاہے۔
میری اللہ سے دعا ہے کہ میرا خدشہ غلط ثابت ہو مگر میرا ذہن اور فراست یہ کہتی ہے کہ پاکستان کے حصہ بکرے کرنے والے سارے عناصر اسِ وقت اکٹھے ہو گئےہیں ،پاکستانی افواج کا منہ بند کر دیا ہے، عدلیہ میں بد کردار لوگ بٹھا دیئے گئے ہیں اور تھوڑے بہت جو محب وطن لوگ یا قائدین ہیں انکا صفایا کرنے کا پلان تیا ر کر لیا گیا ہے۔ اگر ایسے وقت میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے شہروں اور قصبوں سے لوگ باہر نہ نکلے تو پھر کسی شاعر نے کہا تھا، ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں!