بقلم سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
آج پاکستان میں رات دنِ یہ باتیں ہو رہے ہیں کہ دہشتگردی کو کیسے روکا جائے ، طالبان کو کسِ طرح سے بات چیت کی میز پر لایا جائے، لوگوں کو کسِ طرح سے تحفظ فراہم کیا جائے، مہنگائی کا خاتمہ کیسے ہو، ملک کے خزانے کو کسِ طرح سے مضبوط بنایا جائے ، بجلی کا بوہران کیسے ختم ہو وغیر وغیرہ ۔
برسات کے موسم میں جس طرح سے وقفہ وقفہ سے بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اسیُ طرح سے کراچی میں قتل و غارت گری شروع ہو جاتی ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات، حکمرانوں کی طرف سے حالات قابو میں کرنے کے فریبی دعوی، سیاسی پنڈتوں کی طرف سے رٹے رٹائے مذمت اور افسوس کے بیانات۔ اگر لوگ مہنگائی اور بنیادی حقوق کی عدم موجودگی کو بھول کر صرف اور صرف زندہ بچنے نکلنے کی تدابیر سوچ رہے ہیں۔ کیا پاکستان اسِ طرح سے قائم رہ سکتا ہے؟
اگر کسی ملک میں آئین کی بالادستی ہو، انصاف کا بول بالا ہو، اور قانون کی حکمرانی ہو تو اسِ قسم کے مسائل اسِ حد تک خطرناک صورتحال اختیار نہیں کرتے جس حد تک پاکستان میں پہنچ چکے ہیں کہ آج ملک دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے، حکومت دوسرے ملکوں کے سامنے بھکاری بنی ہوئی ہے اور قوم مایوسیوں کے دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ پاکستان آخر اسِ حال تک کیسے پہنچا؟
پاکستان میں ہولناک دہشتگردی کا کھیل بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا نتیجہ ضرور ہے مگر کوئی بھی ریاست جب تک غیر ملکیوں کی سازشوں کی بھینٹ نہیں چڑھ سکتی جب تک اس کے اندر زرخرید غلام نہ ہوں۔ پاکستان کو بیرونی سازشوں نے ضرور برباد کیا ہے مگر انِ سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پاکستان کے وہ مفاد پرست اور نا اہل عناصر تھے اور ہیں جو سیاست کے نام پر قوم کے رہنما بنے ہوئے ہیں۔
ملک و قوم کو درپیش سنگین مسائل جو ملک کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم بھی کر سکتے ہیں، پاکستانی ٹی وی چینلز کے لئے بہترین تفریح پروگرام بن گئے ہیں جن میں سیاسی مداری جو مرضی آئے اور جتنی مرضی چاہے جھوٹ اور محض بحث برائے بحث پروگرام کی رینٹنگ بڑھانے کے لئے پیش کرتے ہیں، ایک سے آدھے گھنٹے کے پروگرام میں ملک و وقم کے رونے روئے جاتے ہیں اس کا الزام ایک دوسرے کی جماعت اور لیڈران پر ڈالا جاتا ہے اور بس پھر پروگرام ختم اور ایک نئے موضوع کیلئے اینکر کی بھاگ دوڑ شروع۔ کیا کسی مذہب معاشرہ میں کوئی نیوز میڈیا اسِ طرح کے بے مقصد اور غیر تعمیری پروگرام کرتے ہیں۔
سب کچھ ایک منظم کرپشن کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ عوام مر رہی ہے ملک کمزور ہو رہا ہے اور حکمرانوں کی عیاشیاں بامِ عروج پر ہیں۔ایک طرف کراچی میں قتل و غارت گری جاری ہے، بیس تیس لوگ روازنہ بے دردی سے مارے جارہے ہیں یا پھر تشددکا شکار ہو رہے ہیں اور ملک کی نام نہاد سب سے بڑی اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی پارٹی کے قائدین سندھ فیسٹیول میں بھارت سے فنکار بلا کر رنگ رلیاں منا رہے ہیں۔
پاکستان میں آج یوں لگتا ہے کہ ملک کی سلامتی کو درپیش خطرات اور عوام کو تحفظ اور بنیادی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دینے والا کوئی نہیں۔ کوئی نہیں جو سیاسی مقاصد سے ہٹھ کر قوم کو یکجا کر سکے۔ کوئی قیادت نہیں جو ملک کی سلامتی کے لئے بغیر کسی مصلحت اور سیاسی مفاد سے ہٹھ کر سیدھا اور سچا فیصلہ کر سکے۔ حالات و واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ آج مملکت خداداد کو مضبوط کرنے والا اور عوام کو ایک قوم بنانے والا کوئی نہیں۔ بد قسمتی سے قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد پاکستان میں کوئی ایسی قیادت سامنے نہیں آسکی جو پاکستان کی سلامتی کو برقرار رکھ سکتی اور عوام کو ایک قوم بنا سکتی۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ جس ملک کا بانی ایک مضبوط اوصاف مالک اور قول و فیل کا پابند تھا اُس ملک میں ایسے سیاسی عناصر پیدا ہوئے جو قائد کہنے کے لائق نہیں۔ جس ملک کا پہلا وزیر اعظم ایک ایسا انسان ہو جس نے خاندانی نواب ہوتے ہوئے اپنی ساری دولت پاکستان کے نام کر دی اور جب وہ اسِ دنیا سے بے رحمی سے قتل کردینے پر رخصت ہوا تو اُس کے بینک اکاؤنٹ میں صرف چھ آنے تھے۔آج پاکستان میں اس کی برسی کو شایانِ شان سے منانے والا کوئی نہیں مگر ان لوگوں کی برسیاں منانے والے سب ہیں جو اپنے کر توتوں می وجہ سے مارے گئے اور جو پاکستان کی سالمیت کو غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کرتے رہے۔
کتنے شرم کا مقام ہے اور دنیا اب اسِ پر ہنس بھی رہی ہے کہ یہ کیسے پاکستان کے حکمران ہیں کہ جن لوگوں نے معصوموں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا، قانون نافظ کرنے والوں کو ہلاک کیا اور جو ریاست کے آئین سے انحراف کررہے ہیں اور دھڑلے سے ہر جرم کی ذمہ داری بھی قبول کر رہے ہیں ان کو طاقت سے نمٹنے کی بجائے عزت سے بات چیت کی میز پر بٹھایا جا رہا ہے اور پھر جواز یہ دیا جا رہا ہے کہ مذاکرات کے بغیر آج تک دنیامیں کوئی مسلہ حل نہیں ہوا۔
اسِ میں کوئی شک نہیں کہ مذاکرات مسائل اور غلط فہمیوں کو ختم کرنے اور فریقین کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا سب سے کار آمد طریقہ ہے مگر یہ سیاسی یا جغرافیائی سیاسی تنازعات کے بارے میں تو کہا جاسکتا ہے مگر یہ طریقہ کار قاتلوں اور مقتولین کے درمیان نہیں ہوتا۔ یہ طریقہ کار ان لوگوں کے لئے نہیں جو ہزاروں لوگوں کے قاتل ہوں اور پھر جن کی مانگ ملک کی ریاست اور آئین کو نا ماننا ہے۔ آج انہیں طالبان کے لیڈر شاہد اللہ نے میڈیا کو بیان میں کہا ہے پاکستانی حکومت نے ہم سے بات چیت کرکے ہمیں تسلیم کر لیا ہے۔اب ان لوگوں کو شرم کرنی چائیے جو طالبان سے بات چیت کو مسلہ کا حل سمجھتے ہیں۔ ریاست کے نمائندوں کو ہر اس شخص سے بات چیت کرنا چایئے جو ذمہ دار ملک کا شہری ہو اور ہر اس شخص سے سختی سے نمٹنا چائیے جو ملک کی رٹِ کو نہیں مانتا ہو۔اور بحیثیت قوم اسِ میں کوئی دو رائے نہیں ہونا چائیے۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی آرمی کے جرنلوں کو سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک یہ تماشا بر داشت کرتے رہے ہیں ۔ کبھی ایسا نا ہو کہ جس حالات پاکستانی فوج کے ہاتھوں سے بھی نکل جائے۔
1 Comment
Comments are closed.