بقلم سید عتیق الحسن
‘٭ ‘ 2013 کے ڈھلتے ہوئے لمحات اور 2014 کے آنے والے دنوں پر ایک فکری جائزہ
میرے والد مرحوم تحریک ِ پاکستان کے قصے ہم بہن بھائیوں کوسناتے اور بتاتے تھے کہ ہندوستان میں تحریک پاکستان کی جدو جہد کے دوران بچے ،بڑے،خواتین، بزرگ سب کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ‘پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاِ اللہ ۔ ایک اندازہ کے مطابق 20 لاکھ افراد نے
اس ِ نعرہ اور اسکے پیچھےنظریہِ پاکستان کی خاطر اپنی جانیں نثار کردیں۔ میں سمجھتا ہوں وہ سچے شہید تھے جن کے خون کے نظرانوں کو اللہ تعالی نے قبول کیا اور دنیا کے افق پر ایک اسلامی ریاست پاکستان وجود میں آئی۔
آج پاکستان کے وجود کے 66 سال بعد بڑے بڑے مفکر، دانشور، سیاسی پنڈت اور صحافی حضرات ٹی وی مناظروں میں بیٹھ کر یہ بحث کر رہے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنانا تھا یا اسلامی ریاست۔ یہ دیکھ کر ایک چیزتو ثابت ہو رہی کہ پاکستان سے نظریہ پاکستان کا خاتمہ ہو رہا ہے۔
سیکولرازم وہ فلسفہ ہے جو کسی بھی مذہب کو ریاست کے کاروبار میں مسترد کرتا ہے اور پاکستان کے تو آئین میں درج ہے کہ پاکستان کا نظام قران اور سننت کے مطابق ہوگا اور بانی پاکستان نے تو صاف کہا تھا کہ پاکستان کا آئین تو 14 سو سال پہلے حضوراکرم ﷺ نے عطا کر دیا ۔ اور اگر سیکولرزم کی بات کی جائے تو دنیا میں کوئی بھی ملک سیکولر نہیں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں وہ بھی کرسمس ، ہولی یا دیوالی کی سرکاری چھوٹی کرتے ہیں اور سرکاری تقریبات کی شروعات اپنے مذہب کی پرچار سے شروع کرتے ہیں۔ اسِ حوالے سے میں نے ایک مضمون 2006 میں انگلش میں لکھا تھا اگر کسی کو اور مزید جاننا ہے تو برائے مہربانی اسے ضرور پڑھیں۔
Minority religions and secular states:http://www.onlineopinion.com.au/view.asp?article=4106
لیکن بات اب اسِ سے کئی آگے نکل گئی ہے کہ پاکستان کی ریاست کا نظام سیکولر ہونا چاہیے یا اسلامی۔
پاکستان کو بنے ہوئے ابھی 25 سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ اسُ کا ایک بڑا حصہ جدا کر دیا گیا ۔ آج بھی یہ وہی سوچ اور اس سے جنم لینے والا نظام اور اسکے طاقتورلوگ ہیں جن کے چنگل میں ریاست کا نظام یرغمال بنا ہوا ہے۔ اب یہ چاہتے ہیں کہ نظریہ پاکستان کا بھی خاتمہ کیا جائے تاکہ اپنی موروثیت پاکستان کے نظام کا مستقل حصہ بنادیا جائے جس طرح سے عرب ریاستوں میں یہ نظام رائج ہے۔ یہ جاگیردار، سرمایہ دار ، بدعنوان افسرشاہی ، مفاد پرست سیاسی ٹولہ اور منافق مذہبی ٹھیکیدار پاکستان کو چھوٹی چھوٹی عرب ریاستوں کی طرز پر چلانا چاہتے ہیں کیونکہ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو انِ سب سے آقا وہی مغربی طاقتیں ہیں جن کا یہ ایجنڈہ صرف کرتے ہیں اور بدلے میں اپنے مقاصد کی تکمیل پاتے ہیں۔
آج پاکستان کا مطلب ریاست کو چلانے والی انِ طاقتوں نے اپنے اپنے مفاد کے حساب سے نکال لیا ہے۔مذہب کے ٹھیکیدار مولویوں کے لئے پاکستان کا مطلب سنی، شیعہ، وہابی، اہلِ حدیث وغیرہ وغیرہ اور انکے پیروکاروں کے لئے فرقہ کے نام پر ایک دوسرے کی جان لینا کوئی گناہ نہیں۔ آج پاکستان میں کتنی فرقہ پرست مذہبی جماعتیں ہیں جو فرقہ کی بنیاد پر مسلمانوں کو تقسیم کئے ہوئے ہیں اور پاکستان کی سیاست میں اپنے حصہ کو بنیادی حق سمجھتی ہیں۔ آج پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے!
سیاستدانوں کے لئے پاکستان کا مطلب ہے اپنی پارٹی اور اپنے مفاد کا تحفظ جس کے لئے اچھے برے، سچ جھوٹ اور قول و فعل کی کوئی قید نہیں۔ لوگوں سے سرے عام جھوٹے وعدہ کرو، ملک کے خزانے کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر ہڑپ کر جائو اور اگر کوئی خطرہ ہو تو اپنے آقائوں کے دیس دبئی، لندن یا نیو یارمیں بیٹھ کر سیاست گیری کرو۔ شخصیت اور موروثیت کے نام پر اپنی سیاسی پارٹی میں اپنی اجاراداری قائم رکھو اور لوگوں کو جمہوریت کا سبق پڑھائو۔
آج ہر محب وطن اور درد مند پاکستانی کا دلِ خون کے آنسوروتا ہے جب وہ یہ دیکھتا کہ جو ملک کو توڑنے میں شریکِ جرم تھے آج شہید اور قائد عوام کہلاتے ہیں ۔ جن کی جدی پشتی انگریزوں کی غلامی کرتی چلی آئی اور ان سے انعام و اکرام لیکر جاگیردار اور قبائل بن گئےآج ان کی نسل بڑے فخر سے پاکستان کی حکمرانی اپنا حق سمجھتی ہے۔27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی چھٹی برسی تھی۔بے گناہ خون کسی کا بھی بہایا جائے نا قابلِ معافی ہے مگر بے گناہی کی حقیقت بھی آئینہ کی طرح شفاف ہونا چایئے۔ چاہے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہو، مرتضی بھٹو کاقتل ہو، شاہنواز بھٹو کی پراسرار موت ہو، یا بے نظیر کی دہشگردی کے نتیجے میں ہلاکت۔ انِ سب کے پیچھے تلخ و تاریک اسباب ہیں، کہیں ملک توڑنے کی شازشِ چھپی ہے ، کہیں بدعنوانی کی سزا، کہیں خاندانی وراثت کے جھگڑے اور کہیں فوجیوں اور انتہا پسندوں سے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر وعدہ خلافیوں کے افسانے۔ اگر کوئی اپنے کارناموں ، سازشوں یا سیاسی دشمنی کی وجہ سے قتل کر دیا جائے یا ہو جائے تو وہ پاکستان کے لئے کسِ طرح شہید ہو سکتا ہے ۔ آج پاکستان کا مطلب یہی کچھ رہ گیا ہے کہ اپنے مفاد اور اقتدار کی خاطر بیرونی طاقتوں سے ساز باز کرو اگر اقتدار ملِ گیا تو وارے نیارے اور اگر مہم میں مارے گئے تو شہد اورپھر انکی قبروں پر سیاست کرو، مظلومیت اور شہادت کے گنُ گائو، اپنے ہاریوں اور غلاموں کو جلسہ گاہوں میں اکٹھا کرو، برسی کے موقع پر اسٹیج پر بیٹھ کر خوش گپپیاں کرو، مونیٹر پر لکھی تقریر پڑھو اور لوگوں کو دھوکہ دو کہ کتنا قابل بچہ ہے اور کتنی اچھی اردو سیکھ لی ہے۔ یہ سب خاندانی فراڈیہ ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہےکہ پاکستان کے ہر شعبہ اور طبقہ میں انِ فراڈیوں کے خریدار موجود ہیں۔
آج پاکستان کا خزانہ خالی ہے اور ملک کا کاروبار چلانے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے بھیک مانگی جار ہی ہے۔ اور یہ بھیک مانگنے والے وہ حکمران ہیں جنہوں نے اپنے اثاثہ ، کاروربار اور بینک بیلنس ریاست پر موجود قرض سے کہیں زیادہ بنا لیے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے تازہ اعداد و شمار جاری کئے ہیں جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 40 کروڑ روپے چندہ سے وصول ہوئے۔ جس ملک کے عام آدمی کے پاس اسِ وقت تین وقت کی روٹی کے پیسے نہ ہوں تو نواز شریف اینڈ فیملی کو کروڑوں روپے کا چندہ کسِ نے دیا۔ یہ پیسہ ان سیٹوں کی فروخت سے آیا ہے جس کے خریدار آج قومی اسمبلی میں عیاشیاں کر رہے ہیں اور نواز شریف اینڈ فیملی اس کے بدلے پاکستان کے مالک بنے بیٹھے ہیں! اور پھر بات کرتے ہیں عوامی مینڈیٹِ کی۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ لوگ قائد اعظم کا نام عزت سے تو لیتے ہیں مگر قائد اعظم کی مسلم لیگ کو اپنی مسلم لیگ بنا کر اس کے نام پر پاکستا ن کومسلسل لوٹ رہے ہیں۔پچھلے 40 سالوں میں نواز شریف اینڈ فیملی کے کاروبار میں اتنی ترقی ہوئی ہے کہ اگروہ ترقی پاکستان کی جھولی میں ڈال دی جاتی تو ملک خوشحال ہو جاتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فوجیوں کے دورِ حکومت میں فوج کی سرپرستی سے سیاست میں آئے اور آج ایک فوجی جنرل پر کوئی نہ کوئی کیس بنا کر اسُ کو صرف اسِ لیے ذلیل کرنا چاہتے ہیں کہ اسِ سے فوج ذلیل ہوگی اور اگر فوج ذلیل ہوگی تو اقتدار میں آنے کی ہمت نہیں کریگی تو پھر انِ کی لوٹ کھسوٹ جار ی رہے گی۔ان کے اپنے اربوں روپے کا کاروبار دوسرے ملکوں میں ہیں اور بیرونِ ملک سے سرمایہ داروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہیں تاکہ ان کے ساتھ ملکر ملک کی بچی کچی دولت کا بھی صفایا کیا جا سکے۔
باقی سیاسی پارٹیوں کا بھی حال اسی طرح کا ہے کوئی پیر بنا بیٹھا ہے تو کوئی بھائ ، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تمام سیاسی مداری ایک سلسلہ وار مجرمانہ کاروائیوں کے ذریعہ پاکستان کے نظریہ کو ، پاکستان کے فلسفہ کو، پاکستانی سوچ کو اور محبِ وطن پاکستانیوں کو ختم کرنے کی مہم پر لگے ہیں تاکہ ان کی بادشاہت زندہ رہے۔ یہی ان سیاسی پنڈتوں کا مشن ہے تاکہ یہ اپنے اپنے حصہ لیکر عربوں کی طرح شیخ بن کر لوگوں پر حکمرانی کریں اور اپنے بیرونی آقائوں کے سایہ تلے عیاشیاں کرتے رہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ انِ سب چیزوں کا انجام کیا ہوگا اور اس سے اہم بات یہ ہے کہ کیا میرے جیسے لکھنے والے اسیِ طرح سے لکھ کر لوگوں کو اور دلِ برداشتہ کرتے رہیں گےاور مایوسی پھیلاتے رہیں گے؟ تو اسِ کا جواب میرے پاس یہ ہے کہ اللہ کرے وہ وقت آئے جب مجھے ایسا نہ لکھنا پڑے اور کبھی ایسا دور آئے کہ میں پاکستان کے لئے فخریہ اور دلِ کو محضوض کرنے والی باتیں قلم بند کر تے ہوئے فخر ااور سکون محسوس کروں۔ مگر یہ سب کچھ کسِ طرح ممکن ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مایوسی حرام ہے ، پاکستان میں عام آدمی کو نکلنا ہوگا پاکستان کے گلے سڑے نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ سچی اور قومی لیڈرشپ کو لانا ہوگا۔جمہوریت کے نام پر دھوکہ دہی کے اسِ نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ انِ وڈیروں، جاگیرداروں، فرقہ پرست مولیوں، بدعنوان افسر شاہی اور دھوکہ باز سیاسی مداریوں اور انکی جماعتوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔ پاکستان میں نظریہ پاکستان کو واپس لانا ہوگا۔ پاکستان کو صحح معنوں میں ایک عام آدمی کی فلاحی ریاست بنانا ہوگا جہاں کوئی ذات برادری، زبان، فرقہ اور صوبہ کے نام پر کسی کی تفریق نہ کر سکے۔ پاکستان میں تمام اسی جماعتوں پر پابندی لگانی ہوگی جو فرقہ، زبان، ذات برادری اور صوبائیت کے نام پر سیاست بازی کرتی ہیں۔
پاکستان کے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی عزت کرنی ہوگی۔ عدلیہ کے نظام کو نچلی سطح سے ٹھیک کرنا ہوگا اور عدلیہ کو حکومت اور سیاست سے الگ کرنا ہوگا۔ ایسا نظام ہو جہاں لوگوں کو سستا اور فوری انصاف ملے۔بدعنوان افسر شاہی کے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ تعلیم کو بہتر بنا ہوگا۔ ایک عام آدمی کو اسکے بنیادی حقوق ریاست کو دینے ہونگے اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ایک آدمی کا حق اسِ پاکستان پر سب سے زیادہ ہے۔ عام آدمی کو روزگار میسیر ہو، تین وقت کی روٹی نصیب ہو، تعلیم ، صحت، آمدو رفت کا سستا نظام میسیر ہو۔ قانون کی بالادستی بغیر کسی تفر یق کے نافظ کرنی ہوگی جس کے لئے پولس کے نظام کو یکسر تبدیل کرنا ہوگا۔ تاکہ ایک عام آدمی کی زندگی کو تحفظ فراہم ہو ۔مجرموں کو فوری اور عبرتناک سزائیں دینی ہونگی۔ملک سے افسر شاہی کلچر ختم کرنا ہوگا، بدعنوان افسروں کا سرے عام عبرتناک سزائیں دینی ہونگی۔ ٹیکس کا مربوط نظام نافظ کرنا ہوگا۔ عام آدمی پر سب سے کم ٹیکس اور امیر آدمی پر سب سے زیادہ کی طرز پر ٹیکس کا نظام نافظ کرنا ہوگا۔ ٹیکس کے محکمہ میں موجود بدعنوان افسروں کی فوری چھٹی کرنی ہوگی۔ سرکاری دفاتر سے سیاسی کلچر اور سیاسی بنیادیوں پر تقریوں پر سختی سے بمٹنا ہوگا۔
ہاں یہ سب کچھ ممکن ہے اگر پاکستان کی عوام چاہیں تو۔۔۔۔۔
Comments are closed.