یوم پاکستان: کیاپاکستان کو قرادِ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے مطابق چلایا جا رہا ہے؟
سید عتیق الحسن
۲۳مارچ ۱۹۴۰ کو ، ہندوستان کے مسلمان قائدین نے قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں متحدہ برطانوی ہندوستان سے علیحدہ اسلامی ریاست بنانے کی قرارداد منظور کی جہاں مسلمان آزادی ، انصاف ، مساوات اور اسلامی ضابطہ حیات کے سایہ میں زندگی بسر کر سکیں ۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے الگ ملک کا بنیادی فلسفہ تھا جسے نظریہ پاکستان کہا جاتا ہے۔ پاکستانی اس دن کو ‘یوم قرارداد پاکستان’ یا ‘یوم پاکستان’ کے نام سے مناتے ہیں۔
۲۲سے ۲۴مارچ ۱۹۴۰ کو لاہور میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرار داد پاکستان کو ورکنگ کمیٹی نے منظور کیا ۔ قرار دادِ پاکستان ایک تاریخی ساز ستاویز ہے۔ اس قرارداد میں اُس وقت کے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی امتیازی سماجی ، ثقافتی اور سیاسی خصوصیات ، تاریخ کا احساس اور ان خطوں کو جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی مشترکہ امنگوں کے ساتھ ایک ایسی قوم میں تبدیلی کا منصوبہ بنایا گیا جہاں مسلمانوں کی اپنی شناخت ہو۔ قراردادِ پاکستان کے پانچ اہم نکات تھے :
۱) برطانوی انڈیا کے ایکٹ ۱۹۳۵ سے انکار۔ کیونکہ یہ قانون برطانوی انڈیا کے مسلمانوں کو مکمل سماجی اور مذہبی آزادی نہیں دیتا۔
۲) مسلمان کسی بھی ترمیم شدہ آئینی منصوبے کو قبول نہیں کریں گے جب تک کہ یہ ان کی رضامندی اور منظوری کے ساتھ تشکیل نہ دیا جائے۔
۳) ملحقہ علاقائی اکائیوں کی ان خطوں کی حد بندی کی جانی چاہئے جس میں کچھ علاقائی ایڈجسٹمنٹ اس انداز میں شامل ہوسکتی ہیں کہ جن علاقوں میں مسلمان اکثریتی تعداد میں ہیں جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی زون میں آزاد ریاستیں ۔
۴) مسلم اکثریتی اکائیوں میں مذہبی اقلیتوں کے مذہبی ، ثقافتی ، معاشی ، سیاسی ، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے ان سے مشاورت کے لئے مناسب ، موثر اور لازمی حفاظتی اقدامات کی پیش کش کی ہو ۔ ہندوستان کے دوسرے حصوں میں بھی مسلمانوں کو اسی طرح کے حقوق دیئے جائیں گے۔
۵) مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی اس قرارداد میں بتائے گئے اصولوں کی بنیاد پر آئینی اسکیم تشکیل دے گی۔
اس تاریخی اجلاس میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے پچیس ارکان نے شرکت کی اور قرارداد کو تمام ارکان نے منظوری ۔ ورکنگ کمیٹی کے حاضر پچیس ارکان یہ تھے؛ قائد اعظم محمد علی جناح ، نوابزادہ لیاقت علی خان ، سر سکندر حیات خان ، سر شاہنواز خان ممدوٹ ، محمود آباد کے امیر احمد خان راجہ صاحب ، شیر بنگال اےکے فضل الحق ، سرعبداللہ ہارون ، الحاج سر خواجہ ناظم الدین ، امجدی بانو بیگم ، مولانا محمد اکرم خان ، چوہدری خلیق الزمان ، نواب محمد اسماعیل خان ، سر کریم بھائے ابراہیم ، علی محمد خان دہلوی ، قاضی محمد عیسی ، سردار اورنگزیب خان ، عبد المتین، چوہدری خلیق الزمان، عاشق محمد وارثی ، حاجی عبد الستار اسحاق سیٹھ ، ایس ایم شریف ، سید عبد الرؤف شاہ ، محمد لطیف الرحمن ، عبد الرحمن صدیقی ، ملک برکت علی ، سعد اللہ خان عمر زئی۔
واضح رہے کہ عظیم اسلامی اسکالر اور مسلم رہنما ، علامہ محمد اقبال ، جن کا خواب تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے آزاد ریاست (پاکستان) کا قیام ہو، اس اجلاس سے دو سال پہلے ہی خالق حقیقی کے پاس جا چکے تھے ، ان کا انتقال 1938 میں ہوگیا تھا ، مگر علامہ اقبال کا خواب قائداعظم محمد علی جناح نے شرمندہ تعبیر کیا۔
لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں ، مستقل جدوجہد اور بے مثال تحریک سے پاکستان ، مغربی اور مشرقی پاکستان کی شکل میں دنیا کے نقشہ پر 14 اگست 1947 کو اُس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست بن کر ایک حقیقت بن گیا۔
بد قسمتی سے قاءد اعظم کو زندگی پاکستان کے ریاستی نظام کو عملی جامہ پہنانے کا موقع نہیں دیا اور انکا انتقال ۱۱ ستمبر ۱۹۴۸ کو انتقال ہو گیا، مگر ق قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے پیچھے ایک اعلی ٹیم پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی قیادت میں چھوڑی جنہوں نے بڑی محنت، لگن اور جذبہ سے پاکستان کا ریاستی نظام، جمہوریت اور قانون سازی کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔
تاہم ، لالچی اور خودساختہ چودھری ، وڈیرے ، مغربی پاکستان کی سیاسی طاقت رکھنے والے قبائلی رہنما ، فوجی حکمرانوں اور پاکستان کی اکءی کے دشمن نےمحب وطن بنگالیوں اور مشرقی پاکستان کی قیادت کو قبول نہیں کیا اور یوں بنگالی قیادت کو دیوار سے لگانے کا عمل شروع ہو گیا۔ اس کے نتیجے میں ، فوج کے آمر حکمران جنرل ایوب خان نے جمہوری حکومت کو ختم کیا اور 1958 میں یعنی پاکستان کے وجود میں آنے کے دس سال بعد ہی پاکستان میں فوجیوں کی حکمرانی نافظ ہو گءی۔ مغربی پاکستان کے حکمرانوں، فوجی اور سیاسی قیادت نے پاکستان کی قرارداد اور مقصد کو بلاءے طاق رکھ کر اپنی من مانی کے فیصلے مشرقی پاکستان کی عوام پر صادر کرنے شروع کر دءے جو بنگالی قیادت کو قبول نہ ہوءے۔بالا ٓخر مغربی پاکستان کے حکمرانوں کا بنگالیوں کے ساتھ تعصب کا انجام مشرقی پاکستان کا پاکستان سے علحیدگی پر ختم ہوا۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن، اور بھارتی فوجیوں کا مشرقی پاکستان میں داخلہ اور جنگ کے خوفناک نتیجہ میں ۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا اور مغربی پاکستان صرف پاکستان رہ گیا۔
اس کے بعد پاکستان کے دوسرے فوجی آمر جنرل یححی خان نے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے زور پر پاکستان سے ون یونٹ ختم کرکے پاکستان میں چار صوبے بحال کر دءیے گءے یعنی پنجاب ، سندھ ، بلوچستان ، اور صوبہ سرحد کی بنیاد پر وفاقی نظام کو صوبائی نظام میں تشکیل دیدیا گیا جس کو ذوالفقار علی بھٹو نے 1973 کے نئے آئین کے تحت آءینی تحفظ دیدیا اور یوں نظریہ پاکستان اور پاکستان کی ایک اکاءی کو دفن کر دیا گیا جو آج تک جاری ہے۔ پھر صوبوں کے حقوق کے نام پر آئین پاکستان میں مزید تبدیلیاں کی گئیں۔ وسائل ، اختیارات اور اہم وفاقی وزارتیں صوبوں کو دیدی گئیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آج سیاسی اور فوج کی قیادت کیا دعوے کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے صوباءیت نافظ کرنے کی وجہ سے آج پاکستانی قوم عملی طور پر خود کو پنجابی ، سندھی ، بلوچی ، پٹھان ، مہاجر کی شناخت کو پاکستانی شناخت پر ترجیح دیتی ہے اور ایک پاکستانی ہونے کی بجائے کسی صوبے کا شہری ہونے کی حیثیت سے زیادہ سے زیادہ حقوق کا مطالبہ کرتی ہے۔ .
مزید مخمصہ یہ ہے کہ یہ صوبے فوجیوں، ایجنسیوں اور ایسے سیاستدانوں کے زیر اقتدار چلتے ہیں جو در حقیقت جاگیردار ، جاگیردار اور قبائلی رہنما ہیں۔ انہوں نے بطور پاکستانی کی بجائے اپنی صوبے کی عوام میں حقوق کے نام پر صوبائیت کو فروغ ۔ آج ، خود غرض سیاستدان تمام پاکستانیوں کو ایک قوم کی حیثیت سے متحد کرنے کے بجائے صوبے کے حقوق کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔ نیز ان حکمرانوں نے سرکاری ملازمتوں اور اعلی تعلیم میں کوٹہ سسٹم جیسے تعصبی نظام کو فافظ کیا۔لحاظہ پچھلے ساٹھ سالوں سے بانی پاکستان محمد علی جناح کی ہدایت اور مقاصد کے خلاف پاکستان میں نظام فافظ کیا گیا۔
بانی پاکستان ، قائد اعظم محمد علی جناح ، مکمل طور پر صوبائیت کے خلاف تھے۔ 21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ، بانی پاکستان ، قائد اعظم نے کہا ، اگر آپ خود کو ایک قوم کی حیثیت سے استوار کرتے ہیں تو صوبائیت کو ترک کرنا ہوگا۔ صوبائیت ایک لعنت رہی ہے ، اور اسی طرح طبقاتی اور فرقہ ورانا تقسیم بھی ایک لعنت ہے ۔
جنوری 1948 کو بار ایسوسی ایشن کراچی سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے صوبائیت کے بارے میں کہا ، ‘میں چاہتا ہوں کہ پاکستانی صوبائیت کی بیماری سے نجات حاصل کریں۔‘
مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں قائداعظم نے ریڈیو تقریر میں کہا کہ ‘اگر ہم خود کو پہلے پنجابی ، سندھی وغیرہ سمجھنے لگے اور انجانے یا جان بوجھ کر مسلمان اور پاکستانی کو بعد میں رکھا تو پاکستان منتشر ہونے کا اندیشہ ہوگا۔ یہ نہ سوچیں کہ یہ کچھ غیر معمولی عمل ہے، ہمارے دشمن اس کے امکانات کے لئے پوری طرح زندہ ہیں جس کے بارے میں مجھے آپ کو خبردار کرنا ہوگا کہ وہ پہلے ہی استحصال میں مصروف ہیں۔ لہذا بانی پاکستان ‘ایک پاکستان’ پر یقین رکھتے تھے اور وہ پوری طرح سے صوبائی خیالات کے خلاف تھے۔
آج پاکستانی عوام کرپشن ، ریاستی نظام کا فیل ہونے، عوامی اداروں کے تباہ ہونے اور بڑھتے ہوءے جراءم اور مہنگاءی کا رونہ روتی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ اس لءے ہے کہ پاکستانیوں نے قاءد اعظم کے اصولوں ، بتاءے ہوءے راستے اور نظریہ ایک طرف رکھ کر جعلی سیاسی پنڈتوں کے پیچھے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم نے پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا۔
کیا کوءی بتا سکتا ہے کہ قرار دادِ پاکستان کو منظور کرنے والے ارکان کی کتنی اولادیں آج سیاست میں ہیں۔ کیا آپ نے بھٹو، زرداری، نواز شریف اور دوسرے آج کے سیاسی پنڈتوں کے باپ دادا کو پاکستان کی جدوجہد میں کہیں پایا۔ ان فراڈیوں کے باپ دادا تو انگریزوں سے جاسوسی اور غلامی کرنے کے وظیفہ لیتے تھے۔ ان فراڈیوں نے باپ دادا نے تو جو آج پاکستان کی سیاست کے ان داتا ہیں انگریزوں کی غلامی کے بدلہ زمینیں اور دولت حاصل ہیں۔
آج پاکستان کی نوجوان نسل تحریک پاکستان کے قاءدین کے متعلق کتنا جانتی ہے۔ آج تحریک پاکستان کے رہنماءوں کے خاندانوں کے کتنے لوگ سیاست میں ہیں۔ کیا ہماری نءی نسل کو تحریک پاکستان کے رہنماءوں کے خاندان کے لوگوں کے بارے میں پتہ ہیں کہ وہ کہاں آباد ہیں؟ جو قوم اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہے وہ خود کہیں تاریخ میں گم ہوجاتی ہے اور تباہی انکا مقدر ہوتی ہے۔
آج ، بنگلہ دیش کی معیشت ، جی ڈی پی ، قومی دولت اور برآمدات پاکستان سے کہیں بہتر ہیں۔ پاکستان معاشی ، سماجی اور اخلاقی بحرانوں کا شکار ہے، ملک کا جعلی جمہوری نظام ، عدلیہ اور قانون نافظ کرنے والے ادارے بد عنوانی کے اڈے ہیں۔ جو قوم اپنے قائد کے اصولوں اور بتاءے ہوءے راستے کو چھوڑ کر جعلی رہنماؤں کے پیچھے دوڑتی ہے تباہی انکا مقدر ہوتی ہے۔
لحاظہ اگر پاکستانی قوم کو پاکستان اور اپنی نسل کو بچانا ہے اور دنیا میں عزت سے سر اٹھا کر چلنا ہے تو نظریہ پاکستان اور قائد کے بتائے گئے راستے پر چلنا ہوگا۔ پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری اسی وقت برقرار رہ سکتی ہے جب تک ہم ان وجوہات کی طرف واپس نہیں جاتے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان تشکیل دیا گیا تھا اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔
پاکستان کے قومی دنوں کو بالالخصوص یوم پاکستان اور یوم آزادی شایان شان طریقہ سے منانا چائیے مگر کیا انِ دنوں پر قومی چھٹی کرکے تفریریح پروگرام منعقد کرنا، میوزیکل نائٹ منعقد کرنا، پاکستان کے جھنڈے کو عمارات اور گاڑیوں پر لہرانا سے قائد اعظم کے بتائے ہوئے مقصد کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ کیا پارلیمان سے لیکر سرکاری دفاتر اور اونچی اونچی عمارات پر پاکستان کا پرچم لہرا کر ہم نظریہ پاکستان اور قراردِ پاکستان کے عمل کی تکمیل کرتے ہیں۔ تمام پاکستانیوں کا فرض ہے چاہے وہ پاکستان میں رہتے ہوں یا کسی غیر ملک میں یوم پاکستان اور یوم آزادی پر اپنی نئی نسل کو بانیانِ پاکستان اور پاکستان کو بنانے والے رہنماؤں بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں بتائیں، ہماری پاکستان بننے کے بعد پیدا ہونے والی نسل کو پتہ ہونا چائیے کہ یہ اسلامی ملک کتنی قربانیوں اور لگن کے بعد وجود میں آیا ہے۔
سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
Mobile +61 479 143 628
Email: shassan@tribune-intl.com