یومِ پاکستان –  آئیں عہد کریں

Pakistan Dayسید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء

ہم پاکستانی آئیں عہد کریں کہ؛

ہم پاکستان کے قیام کے مقصد  کا  تمام تعصبات  اور گروہ بندیوں سے بالاتر ہوکر مطالعہ کریں گےاور ایک محب وطن شہری ہونے کا عملی ثبوت دیتے ہوئے اپنی قومی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔

ہم پاکستان کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والوں کی قربانیوں کو را   ئیگاں نہیں ہونے دیں گے اور پاکستان کے لیے ہر سیاسی تفرقات سے بالا تر ہوکر سوچیں گے اور اپنا فرض  ادا  کریں گے۔

ہم پاکستانی انُ لوگوں کا خود محاسبہ کریں گے جنہوں نے سیاست، مذہب اور فرقہ بندیوں کے نام پر اپنے مقاصد تو پورے کرلئے ، اپنی جائدادیں، دولت اور دوسرے ممالک کی شہریتیں حاصل کرلیں لیکن نا تو پاکستانیوں  کو پاکستان کے نام پر متّحد کر سکے اور نا ہی پاکستان کو دنیا میں عزت  دلا سکے۔

ہم پاکستانی سچے دلِ اور ایمانداری کے ساتھ اپنے ضمیر کی آواز کو سنیں گے تمام سیاسی ، مذہبی اور فرقہ بازیوں سے بالاتر ہوکر خود اپنا محاسبہ کریں  گے   اور  دیکھیں گے کہ کیا ہم جن کے پیچھے چل رہے ہیں ، جن کو ہم اپنا مذہبی پیش  یا سیاسی قائد مانتے ہیں اُس نے خود اپنی زندگی میں کیا حاصل کیا، پاکستان کے لئے کیا نام روشن کیا اور پاکستانی عوام کو سّچا پاکستانی بنانے میں   کیا کردار کیا۔

ہم پاکستانی غیر جانبدار ہوکر سوچیں گے کہ آج پاکستان جس مقام پر پہنچا ہے جس دہشتگردی، لوٹ مار اور معاشی بدلی کا شکار ہے کہیں اس میں قصور ہمارا اپنا تو نہیں اور کیا قصور ان شخصیات کا تو نہیں جن کو آج تک ہم اپنا لیڈر مانتے  آئےہیں۔

ہم پاکستانی صدقہ دل سے جانچیں گے کہ کیا وہ شخصیات جن کو ہم اپنا لیڈر مانتے اور ان کی بنائ  ہوئی  جماعتوں کو قومی سیاسی جماعتیں کہتے ہیں انہوں نے ہمیں یکجا کیا ہے  یا ہمیں سیاسی  و لسانی گروہوں، صوبایت اور مذہبی جنونیت کا پیکر بنا دیا ہے۔

ہم پاکستانی اپنے ضمیر کو جھنجوڑیں گے اور اپنے آپ سے سوال کریں گے کہ ہم نے خود بحیثیت پاکستانی کتنا اپنے وطن کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ ہم بیشتر وقت شوشل میڈیا پر بیٹھ کر دوسروں کے متعلق کہانیاں سننے اور اسکو باٹنے میں صرف کرتے ہیں مگر کیا ہم ترقی یافتہ ملکوں کے شہریوں کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ لوگ اپنی قومی ذمہ داریاں کسِ طرح پوری کرتے ہیں۔

ہم بیرون ِ پاکستانی سوچیں گے کہ کیا وجہ ہے کہ جن ممالک میں   ہم بستے  ہیں وہاں بے تہاشہ دوسرے ممالک کے لوگ بھی آباد ہیں وہ کیوں اپنے اپنے ممالک کی سیاسی  یا مذہبی فرقہ  پرست جماعتوں  کی  شاخیں نہیں  کھولتے ۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست  ہےکیوں بھارتی امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں کانگریس  یا  بی جے پی کی شاخیں نہیں قائم کرتے اور ان کے پروگراموں کا انعقاد نہیں کرتے۔ کیوں ہم پاکستانی پاکستان میں صحح جمہوریت نافظ نہ ہونے کے باوجود بھی جن ملکوں میں آباد ہیں وہاں پاکستان کے جھنڈے سے زیادہ اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں  اور انکے لیڈاران کی  تصاویر  اٹھائے پھرتے ہیں، کیا ہم خود ہی تو پاکستان کو  رُسوا  کرنے کے ذمہ دار نہیں؟

ہم آسٹریلیا میں بسنے والے پاکستانی سنجیدگی کا ثبوت دیتےہوئے سوچیں گے کہ جب ہم پاکستان سیاسی جماعتوں کی پروموشن کے لئے اپنا قیمتی وقت صرف کرتےہیں سیاسی پارٹیوں کے پروگرام منعقد کرتے ہیں پاکستان کے قومی دِن  پربھی   سیاسی جماعت کے پرچم تلے  پاکستانی قومی پروگرام منعقد کرتے ہیں  تو کیا ہم خود ہی تو پاکستان اور پاکستانیوں کو تقسیم کرنے کے مرتکب نہیں ہو رہے ؟ کیا ہم منافقت کا شکار تو نہیں؟ کیا ہمارے قول و فعل میں تضاد تو نہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو کیوں نا ہم یوم پاکستان کے تاریخی دن سے ایک نئی اور تعمیری سوچ کا آغاز کریں۔ اپنے آپ کو اپنی ذات، پاکستان میں اپنے علاقے ، برادری یا زبان کے بجائے پاکستانی بن کراپنی شناخت کرائیں۔ آسٹریلیا میں عرصہ دارز سے رہنے کے باوجود پاکستان کے اندر قائم تقسیمی نظام کو یہاں پر جاری رکھنے سے پرہیز کریں۔ اپنے اندر ان لوگوں کو دیکھیں  جو پاکستان کی صحح ترجمانی  کرسکتے ہیں جو اس قابل ہیں ،جن ِ کا ماضی بے داغ ہے، جن کے عمل میں قول و فعل میں  پاکستانیت نظر آتی ہے ناکہ اس ِ بناء پر   لوگوں کوپاکستانی کمیونٹی کا لیڈر    بنالی کیونکہ وہ  آپ کے علاقے کا ہے، آپ کی زبان بولتا ہے ، آپ کے فرقہ کا ہے ، آپ کی برادری کا ہے یا پھر آپ کے کام کا ہے۔

اگر ہم یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تو ہم کچھ نہیں کر رہے صرف اور صرف وقت برباد کر رہے ہیں اور یا تو پاکستان کی بربادی میں حصہ داری کر رہے ہیں یا پھر ایک  تماشبین کر کردار ادا کر رہے ہیں۔

اللہ تعالی پاکستان میں امن قائم کرے اور پاکستان سے تمام نا م نہاد ، نااہل ، کرپٹ شخصیات  کا صفایا کرے اور پاکستان کی باگ دوڑ ایسی شخصیات اور اداروں کے ہاتھ میں دے جو کہ پاکستانی عوام کو پاکستان قوم بنادے اور پاکستان کو ایک مضبوط اور محفوظ ریاست بنادیں۔

Recommended For You

About the Author: Tribune