:سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
پاکستان کے میڈیا میں چرچے ہیں کہ کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کی اعلانیہ ہڑتال برُ ی طرح ناکام ہوئی ہے، رینجرز نے بھی ایم کیو ایم کی کال پر لوگوں کا توجہ نہ دینے اور ہڑتال کی ناکامی پر ایک سیاسی نمُا بیان داغ دیا جو ایک خطرناک عمل ہو سکتا ہے ، کیونکہ سندھ میں آرمی کا کردار کسی ایک جماعت کے خلاف پارٹی بننا نہیں ہونا چائیے جس طرح کے رینجرز کے بیان نے تاثرچھوڑا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کراچی سمیت سندھ میں کونسا ایسا ذمہ دار شہری ہوگا یا کاروباری شخص ہوگا جو یہ نا چاہے گا کہ سندھ میں کاروبار معمول کے مطابق چلتا رہے۔ کیا ہڑتال کی کامیابی یا ناکامیابی سے کراچی اور سندھ کے عوام کے دیرینہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ پاکستان آرمی اور رینجرز کو یہ سمجھنا چاہئے کہ انکے لئے عام لوگوں کے بلا امتیاز دلِ و دماغ جیتنے کی ضرورت ہے نا کہ بندوق کے زور پر۔ مگر ہاں یہ ضرور ہے کہ جرائم پیشہ افراد کے خلاف بندوق اٹھانے کے سوا دوسرا راستہ اختیار کرنا بے سود ہوگا۔
سندھ کا مسلہ پچھلے چالیس سال سے متعصبانہ اور بدعنوانی پر مبنی نظا م ہے۔الطاف حسین نے مہاجر قومی مومنٹ کے قیام سے لیکر آج کی متحدہ قومی مومنٹ تک کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے اردو بولنے والوں کے لئے ایک تحریک ضرور چلائی مگر اپنی تحریک کا رُخ سندھ کے اقتدار میں شریک کار رہنے اور اپنی جماعت کو ایسی طاقت بنانے پر مرکوز رکھا کہ جس کے ذریعہ سندھ کے شہری علاقوں پر کنٹرول قائم رکھا جائے ، اردو بولنےوالے نوجوان طبقے کے ذہن نسلی بنیادوں پر خریدے جائیں، اورجب تک مسائل رہیں گے تب تک لوگوں کے دلِ و دماغ میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم رہے گی کے فارمولے پر عمل کیا اور اسی کی خاطر ۱۹۸۸ میں بے نظیر سے لیکر چند عرصہ قبل آصف علی زرداری سے قُربتیں اور سیاسی ملاپ قائم رکھا۔ سندھ میں یوم اجرک منانے سے لیکر پارلیمنٹ میں اسِ بات پرتمام اراکین کے استعفی دلا نے تک کہ الطاف حسین کی تقریر پر سے پابندی اٹھائی جائے الطاف حسین کی سیاست اسِ سے سوا کچھ نہیں کہ صرف ایک دُکھ بھری داستان ہے جو شاید اب اپنا اثر کھو رہی ہے! آج اگر الطاف حسین پاکستان میں ہوتے تو شاید ان کی حیثیت اور قد و قامت کچھ اور ہوتا مگر افسوس کہ حکومت برطانیہ جس نے انکو برطانوی شہریت عطا فرمائی اور انہوں بڑے ناز سے اپنے برطانوی پاسپورٹ کے ساتھ فوٹو کھنچوایا مگر اسُ برطانوی پاسپورٹ کو اُنکی اپنی حرکتوں کی وجہ سے برطانوی حکومت نے ضبط کر لیا اور پاکستان کی حکومت انُکو پاکستانی پاسپورٹ جاری نہیں کر رہی کیونکہ پاکستانی حکومت کو یہ خطرہ نہیں کہ وہ پاکستان آئیں گے بلکہ اُنکو خطرہ یہ ہے کہ وہ جنوبی افریقہ سمیت کسی اور ملک نہ چلے جائیں، لحاظہ بے چارے ذہنی پریشانی کا شکار ہیں، کبھی زرداری کی طرف دیکھتے ہیں کام نہیں بنتا تو زرداری کے خلاف مہم چلاتےہیں، کبھی نواز شریف کی طرف دیکھتے ہیں کام نہیں چلتا تو استعفوں کی سیاست کھیلتے ہیں اور کبھی فوج کے خلاف دھمکی آمیز بیا ن دیتے ہیں اور کبھی جنرل راحیل شریف سے ہی پندرہ منٹ مانگنے کی فریاد کرتے ہیں؛ ہر نسخہ استعمال کر لیا مگر ہاں آج تک کبھی کُھل کر کوٹہ سسٹم کے خلاف یا سندھ میں نئے انتظامی نظام کے لئے استعفی نہیں دئیے اور نہ ہی اسُ وقت کوئی ہڑتال کی تحریک چلائی جب کوٹہ سسٹم کی معیاد میں توسیع پارلیمنٹ سے منظور کرائی گئی۔ خیر آگے کیا ہونے جارہا ہے یہ تو وقت ہی بتائے مگر یہاں الطاف حسین یا ایم کیو ایم سے کہیں زیادہ اہمیت سندھ کے اردو بولنے والوں کے ساتھ بات ہے انصاف کی جو ہر طرح سے ِپس رہے ہیں ایک طرف الطاف حسین کے رحم و کرم پر ہیں تو دوسری طرف اب رینجرز کے۔
آج اگر پاکستان میں عام آدمی فوج کےسپہ سالار جنرل راحیل شریف کے گنُ گا رہا ہے تو جنرل راحیل شریف کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چائیے کہ ان کے لئے سنہری موقع ہے کہ وہ سندھ سمیت پاکستان سے متعصبانہ نظام کے خاتمہ لئے موجودہ حکومت پر ضرور دیکر اپنا نام تاریخ میں رقم کرا سکتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ پاکستان سے فوری طور پر کوٹہ سسٹم ختم کرنے کے لئے نواز حکومت پر ضرور ڈالیں ۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں پر ضرور ڈالیں کہ تمام سرکاری اداروں میں نوکریاں اور اعلی تعلیمی اداروں میں داخلے صرف اور صرف میرٹ پر دیئے جائیں۔ سندھ ایک کثیرالثقافت صوبہ ہے یہاں پاکستان کی مختلف زبانیں بولنے والے شہری آباد ہیں لحاظہ ایک ہر شعبہ میں منصفانہ نظام کے لئے بھی ایک آپریشن شروع کیا جائے۔ سندھ کے اردو بولنے والوں نے کبھی اپنے لئے الگ کوٹہ کی بات نہیں بلکہ اُن کا مطالبہ صرف اور صرف سندھ میں ہر شعبہ میں میرٹ کے نظام کا قیام ہے۔ بدقسمتی سے الطاف حسین نے بھی نعرہ تو یہ ہی لگایا تھامگر اِس نعرہ کے پیچھے جو مقاصد تھے اُس کو حاصل کرنے کے لئے غلط راستہ چنُا ایک ایسا راستہ جس سے فائدہ سندھ کے اُسی طبقہ کو ہوا جو اسِ کرپٹ نظام کا بانی اور پروان چڑھانے والا ہے۔زبان کےنام پر سندھ کے قبائیلی وڈیروں اور قوم پرست سیاستدانوں نے سندھ کے عوام کو تقسیم کیا تو الطاف حسین نے بھی مہاجر کے نام پر صرف اور صرف اپنی ذاتی شخصیت کو پروان چڑھایا۔
سندھ میں ہر وہ شخص سندھی ہے جو سندھ میں پیدا ہوا ہےیا پھر یہاں ہجرت کرکے آیا ہےاور مستقل آباد ہو گیا۔ اور اگر کوئی کہتا ہے کہ پاکستان کے قیام کے وقت یا اسکے بعد جو سندھ میں آکر آباد ہوا تو غیر سندھی ہے یا مہاجر ہے تو پھر سندھ میں ہر وہ قبیلہ چاہے بھٹو قبیلہ ہو، زرداری، چانڈیو، تالپور، آفندی، یا کوئی اور جن کے آبا و اجداد محمد بن قاسم کے ساتھ یا اس کے بعد سندھ میں آکر آباد ہوئے غیر سندھی ہیں ۔ اگر سندھ سے غیر سندھی کے نام پر کسی طبقہ کو نکالنے کی بات ہوگی تو پھر سندھ سے سب کو جانا ہوگا کسی کو ہندوستان ، تو کسی کو ترکی، عرب، یمن یا کسی اور دیس۔ مگر یہ تمام باتیں فضول کی باتیں ہیں۔
سندھ اُسی کا ہے جو سندھ میں مستقل آباد ہےچاہے سندھی، اردو، پٹھان، بلوچی، سرائیکی یا پنجابی کوئی بھی زبان بولتا ہو۔ اگر سندھ کے موجودہ صوبہ کا انتظامی ڈھانچہ چلانا مشکل ہے اور یہاں میرٹ کا نظام قائم نہیں کیا جاسکتا تو پھر سندھ کو تین انتظامی صوبوں میں تقسیم کر دینا چائیے جن کے نام بھی انتظامی لحاظ سے ہونے چائیے اور اس میں کسی سیاسی جماعت کو کوئی کریڈٹ نہیں لینے دینا چائے کیونکہ یہ انِ سیاسی جماعتوں نے سندھ کی عوام کو زبان، قبیلہ اور فرقوں کے نام پر تقسیم کیا ہے۔