بقلم سید عتیق الحسن ؛
ہم نے ہندوستان میں انگریزوں کی سلطنت میں اپنے بنیادی حقوق کی خاطر انگریزوں اور ہندؤں دونوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے پاکستان بنایا اور پھر آزادی سے آج تک اسیُ انگریز کے ملک میں پناہ کے لئے بھاگتے ہیں اور اپنے جان و مال کےتحفظ کےلئے انگلستان میں رہنا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ ہم نے جس ہندوسامراج سے چھٹکارہ حاصل کرنے لئے ہندوستان کی تقسیم کرکے اپنا علیحدہ وطن بنایا آج اسی ہندوسامراج سے دوستی رکھنے کو امن کی آشا کہتے ہیں۔ ہم نے ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیتی قوم (مسلمان) ہونے کے ناطے اپنے بنیادی حقوق کی آزادی کے لئے پاکستان بنایا مگر اسی پاکستان میں اقلیتی قوموں پر وہ ظلم ڈھاتے ہیں جو شاید پاکستان سے پہلے مسلمانوں پر بھی نہ ڈھائے جاتے ہوں۔ ہماری ایک بڑی مذہبی جماعت نے بانیِ پاکستان کو کافر ِاعظم کہا اور پاکستان کی نظریاتی مخالفت کی پھر قیام پاکستان کے بعد سے آج تک وہی جماعت بانیِ پاکستان کا نام لیکر پاکستان کو اسلام کا گہوارا بنانے کا نعرہ قیام پاکستان سے آج تک لگا رہی ہے اور ہم انہی کے جلسوں میں جاکر اسلام کو پاکستان کا قلعہ بنانے کی باتیں کرتے ہیں۔ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو وقت پر ہسپتال بھی نہ پہنچا سکےاور وہ ایک ناکارہ ایمبولینس میں ہی اسِ دنیا سے رخصت ہوگئے مگر ہم انکی تصویر ہر اعلی کرسی کے پیچھے زیبائش کے لئے ضرور لگاتے ہیں اور پھرہر اسُ کام کو کرنے سے نہیں گھبراتے جو بانیِ پاکستان کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔
ہمارے سامنے بانی پاکستان کے سب سے قریبی تحریکِ پاکستان کے ساتھی اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہعام میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا مگر انُ کو کیوں شہید کیا گیا یہ ہم آج تک معلوم نہ کر سکے۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے سب زیادہ محبت کرنی والی انکی سگی بہن کو ہم نے مادرِ ملت کا لقب دیا پھر ہم نے انکو پاکستان کے سب سے پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ہاتھوں شرمناک شکست سے ہمکنار کیا۔
پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خان نے قائد اعظم کی مسلم لیگ کے دو ٹکڑے کئے اور کنوینشن مسلم کو جنم دیا پھر ذوالفقار علی بھٹو کو کنوینشن مسلم لیگ کو فعال بنانے کے لئے سیکٹری جنرل کے عہدہ سے نوازہ اور مختلف وزارتوں سے نوازہ ۔ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو اینڈ کمپنی نے دس سال پاکستان پر حکومت کی ۔ پھر ہم نے ایوب خان کو تو ‘ایوب کتا’ کے نعرہ لگا کر ملک کی صدرارت چھوڑنے پر مجبور کر دیا مگر ذوالفقار علی بھٹو اور اسکی نئی پاکستان پارٹی پیپلز پارٹی کا پورے مغربی پاکستان میں والہانہ استقبال کیا۔
پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جمہوری انتخابات جو مغربی اور مشرقی پاکستان میں 1970 میں ہوئے ، جس میں مشرقی پاکستان کے مجیب الرحمن اور انکی سیاسی جماعت عوامی لیگ کو سب سے زیادہ نشستیں ملیں اور ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کو نمبر 2 حیثیت ملی ۔ مگر ہم نے مجیب الرحمن کو غدار کہا اور ذوالفقار علی بھٹو جو مشرقی پاکستان ٹوٹنے اور بنگلادیش بننے کی وجوہات میں ایک کردار تھے اور جنہوں نے دنیا کی تاریخ میں خود کو پاکستان کا پہلا سولین مارشل لا کے طور پر رقم کرایا، ہم نے اسے قائد عوام کہا۔ پھر ہم نے اسی قائد ملت کو ایک فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے ہاتھوں پھانسی چڑھایا۔ پھر اسی فوجی آمر کی بنائی گئی نام نہاد سیاسی حکومت کو دس سال پروان چڑھایا اور ضیا الحق کو نیک مومن حکمران کہا۔ پھر اسی نیک مومن ِحکمران کی 15 سے زیادہ اعلی فوجی افسران اور ایک امریکی سفیر کے ساتھ جہاز کے پرُاسرار حادثہ میں ہلاکت ہوئی۔ مگر ہم نے اس حادثہ کی حقیقت آج تک جاننے کی کوشش نہ کی۔ پھر ہم نے اسیُ فوجی آمر کی گود سے جنم لینے والے سیاستدان نواز شریف نے جب اپنی مسلم لیگ (ن)کا نعرہ لگایا تو ہم سب اسکے پیچھے چل پڑے ، کسیِ نے اسُے شیر پنجاب کہا تو کسی نے شیرِ پاکستان ۔ پھر اسُے وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھایا۔ہمارا سفر اور آگے بڑھتا گیا۔
ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو باپ کی موت کا قرض نے نام پر ووٹ دیکرپاکستان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بنایا۔ پھر جلد ہی بدعنوانی کے جُرم میں وزارت عظمی کی کرسی سے اُتار کر نظر بند کر دیا ۔خیر بے نظیر نے بھی اپنے بڑوں کی روایات کو برقرار کھتے ہوئے سیاسی آقاؤں کے ملک کار رخُ کیا ، اور یورپ میں بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ اور ہم نے ایک مرتبہ پھر شیر کو جگایا اور پاکستان کی تقدیر اسکے ہاتھ میں دیکر اسے پھروزیر اعظم بنادیا۔ ہمارے کتے بلی کا کھیل ختم نہیں ہوا ۔ اور ایک مرتبہ پھر ایک نئے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے تاریخ کو دھرایا اور مارشل لا لگا دیا۔ ہمارے کچھ سیاستدانوں بالخصوص نواز شریف کے قریبی سیاسی بھائیوں نے اسُ فوجی آمر کو خوش آمدید کہا اور دس سال ایک نئی جمہوری رنگ میں پاکستان کو نہلایا۔پھر جب ہمارا ہمارا دلِ اسُ فوجی جنرل سے بھر گیا اور ہمارے بیرونی آقاؤں کو بھی وہ فوجی راس نہ آیا تو ہمیں شیر دوبارہ یاد آگیا جو سعودی عرب میں سکون کی نیند سو رہا تھا ہم نے اسکو آواز دی مگر وہ نا آیا مگر شیر کی خالہ نے آواز سن لی اور دبئی میں بیٹھ کر قائد عوام کی بیٹی اور جنہوریت کی الم بردار نے فوجی آمر پرویز مشرف سے ڈیل کی اور ہم نے اسے پاکستان میں لبیک کہا۔ اسُ شیر کی خالہ نے شیر کو آقاؤں کے ملک انگلستان میں بلا کر منا لیا اور ایک مرتبہ پھر ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کا اعلان کیا ۔ ہم نے جسے ِدختر پاکستان کہا اس کا پورے پاکستان میں والہانہ استقبال کیان اور پھر اُس دختر پاکستان کو راولپنڈی کے ایک جلسہ میں گولیاںمار کر ہلاک کیا گیا۔ ہم نے سارا منظر ٹی وی پربرائے راست دیکھا مگر ہمیں آج تک اسکے قاتلوں کا پتہ نہیں چلا۔مگر ہم نے پھر اس کی موت کا قرض چکایا اور اسکے شوہر جسِ کو ہم نے ماضی میں مسٹر ٹین پرسینٹ کے لقب سے نوازہ تھا پاکستان کا صدر مملکت بنا دیا۔لیکن ٹہرئیے میں بھول گیااسِ دوران شیر بھی جاگ گیا تھا ہم نے اسے بھی خوش آمدید کہا۔ زرداری اور شریف کی مفاہمت کی سیاست شروع ہوئی ، ہم نے انکے ماضی کے کارنامے بھلا کر خوشیاں منائیں اور چین کی سانس لی کہ ہم نے فوجی آمریت سے تو جان چھڑائی۔ پھر زرداری صاحب نے زر کے کرشمے دکھائے۔ پانچ سال بہت عیش و آرام کئے اور سب کو عیش بھی کرائے کسی بڑی پارٹی کو حکومت سے باہر نہیں رہنے دیا۔ سب کو خوش کرنے کی سیاست چلی اور ہم نے برداشت کیا کہ چلو جمہوریت تو مضبوط ہو رہی ہےنا!
پھر پانچ سالوں میں بہت سی چیزیں ملک میں مضبوط ہوئیں مثلاً مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، چور بازاری، لوٹ مار، ٹارگیٹ کلنگ، بھتہ خوری، فحاشی ، کھاؤ اور کھانے دو کی سیاست وغیرہ وغیرہ مگر ہم نے برداشت کیا کہ چلو کوئی بات نہیں جمہوریت تو پہلی دفع اپنے پانچ سال مکمل کرنے جارہی ہے نا!پاکستان میں ایک نیا ریکارڈ توقائم ہو رہا ہےنا!
پھر ہمارا دلِ زرداری صاحب کی حکومت سے بھی بھرنے لگا، ہم نے ان کے خلاف بہت باتیں کیں بڑے الزامات لگے اور ہم نے کہا کہ بس یہ اپنی کرسی چھوڑیں تو ان کی پکڑ ہوگی ۔آج زرداری صاحب شیر کے گھریعنی اپنے پنجاب میں اپنےنئے محل کے مزے لے رہے ہیں مگر اب ہمیں ان میں کوئی دلچسپی نہیں۔ کیونکہ ہم نے توجمہوریت میں آگے بڑھنا ہے اور اب ہمارا کام تو شیر کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ آج دنیا میں کون نہیں جانتا کہ پاناما میں جن شخصیات کے نام بھی کرپشن میں آئے انُ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا ، دنیا میں کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ پاناما کی شائع کردہ رپورٹ جعلی ہیں، دنیا میں دوسرے ممالک کے وزراء اعظم نے پاناما پر لگے الزامات کے نیتجے میں یا تو استعفی دے دیئے یا پھر اس کے خلاف شواہد عوام کے سامنے پیش کئے۔ ہم عجیب لوگ ہمارے ملک کے وزیر اعظم اور نا صرف وزیر اعظم بلکہ اسکا خاندان کرپشن کا مرتکب پایا گیا ہے مگر ہم انتظار میں ہیں کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ ہم ایسے عجیب لوگ ہیں کہ ہم ایسے بے غیرت اور بے شرم شخص کو ملک کا وزری اعظم تسلیم کر لیتے ہیں تو اپنے اوپر لگے بین الاقوامی الزامات پر پارلیمنٹ میں جھوٹ بولتا ہے ، قومی ٹی وی پر جھوٹ بولتا ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ ہمیں مزید ثبوت اور فیصلہ عدالت سے سننا ہے۔
آج کم سنِ اور نابالغ بچیوں کے ساتھ زیادتیاں ہوری ہیں اور مجرم پکڑے بھی نہیں جاتے مگر ہم کیا کر سکتےہیں۔ آج وڈیرے کا بیٹا سرے عام ایک نوجوان کو گولیاں مار کر مقتول کے لواحقین سے سودا بازی کر لیتا ہے مگر ہم کیا کر سکتے ہیں۔
ہم نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیا اور اسے مسلمانوں کے اتحاد اور قوت کا نمونہ کہا مگر ہم نے کسی مسجد کے باہر لکھا کہ یہاں صرف اہلِ حدیث نماز پڑھ سکتیں ہیں، اور کسی مسجد کو کہا کہ یہ صرف سنیوں کی مسجد ہے اور کسی کے لئے کہا کہ یہاں صرف شیعہ آسکتے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ ہم سب پاکستانی ہیں مگر پھر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آپ سندھی ہیں یا مہاجر، پنجابی ہیں یا سرائیکی، پٹھان ہیں یا ہزارہ، بلوچی ہیں یا مکرانی، گجراتی ہیں یا کچھی وغیرہ وغیرہ۔
کیونکہ ہم ہیں عجیب لوگ۔۔۔ مگر ٹہریئے؛ ہم شاید عجیب لوگ نہیں، بہت عجیب اور منفرد بھی ہیں۔۔۔
ہم اپنے وطن پاکستان سے کسی دوسرے ملک میں ذریعہ معاش یا تعلیم یا کسی اور وجہ سے کوچ کر تے ہیں تو ہر چیز کو بھول سکتے ہیں مگر اپنی پسندکے سیاسی لیڈر اور سیاسی پارٹی کونہیں لحاظہ دیار غیر میں بھی اپنے لیڈر اور پارٹی کے پیغام کو پھیلانے مشن جاری پھر چاہے کرکٹ میچ کے گراؤنڈ ہوں یا پھر قومی دنوں کی تقریبات ہم بانیِ پاکستان کے قول و فعل کو یاد رکھیں یا نہ رکھیں ،اپنے لیڈر کے پیغام کو ضروریاد رکھتے ہیں اور اس کے ہر عمل کا دفع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ہم سب ایک ہی رنگ کا پاسپورٹ لیکر اپنے وطن کو خیرآباد کہتے ہیں مگر دیار غیر میں جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور دوستیوں کے نئے رشتے قائم کرتے ہیں تو ایک دوسرے کے علاقے، زبان اور فرقہ کے متعلق بہت محتاط رہتے ہیں۔ ہم دیار غیر میں اگر کوئی تنظیم یا سماجی گروپ بھی بناتے ہیں تو ہمارے لئے پاکستانی شناخت ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ علاقہ ، زبان ، برادری، سیاسی وابسطگی وغیر وغیرہ بھی جاننا ضرروی ہوتا ہے ۔ اسی لئے ہم ایک ایسوسی ایشن یا تنظیم پر ہم انحصار نہیں کرتے اور نا ہی اپنا ایک محبت وطن ، قابلِ رشک اوراعلی تعلیم یافتہ نمائندہ چنتے ہیں بلکہ ہم اپنی اپنی پسند اور وابسطگی سے لحاظ سے بہت سی تنظیمیں بناکر سیاست بازی میں وقت بسر کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہم پاکستان میں افسر شاہی ، کرپشن اور اقربا پروری پر اپنے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر اپنے دوست احبات کے ساتھ بہت بحث و مباحثہ کرتے ہیں مگر پھر اسیُ طرح کے سفارتکار کے ساتھ کھڑ ے ہوکر فوٹو کھنچوانے کو خوش نصیبی اور فخر سمجھتے ہیں۔
ہمیں منافقت اور مفاہمت میں یا حسد اور رشک میں یا قومی رہنما اور سیاسی مداری میں فرق سمجھنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں قومی تشخص، قومی شناخت اورایک قوم جیسے لفظوں سے کیا لینا دینا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ بس ٹھیک ہے ۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ سچائی کیا ہے، ہم سچھ سننا چاہتے ہیں، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت کیا ہے مگر ہم سچ کہنا نہیں چاہتے، کیونکہ ہم ہیں عجیب و غریب لوگ ۔۔۔ بقلم سید عتیق الحسن سڈنی آسٹریلیا