:سیدعتیق الحسن
پچھلے 24 گھنٹوں سے پاکستان کے بین الاقوامی ٹیلویزن چینلوں پر ایک خبر شہ سرخیوں میں دکھائی جا رہی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے آرمی چیف جناب اشفاق پرویز کیانی صاحب نے کہا ہے کہ وہ 29 نومبر کو اپنے عہدہ سے ریٹائر ہو جائیں گے کیونکہ ان کی مدتِ ملازمت ختم ہو رہی ہے۔ آرمی چیف صاحب کے اسِ اعلان پر بڑے بڑے فوجی ، دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگار تبصرے کر رہے ہیں ، وزیر ِ اطلات سے لیکر نامی گرامی وزیر و مشیر جنرل پرویز کیانی کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں کہ کیا عظیم بات ہے صاحب ، جنرل پرویز کیانی صاحب نے تو سب کےدعوؤں کو غلط صاحب کر دیا ۔بیرونی ذرائع ابلاغ سے لیکر پاکستان کے مبصرسب کو غلط ثابت کر دیا وغیرہ وغیرہ۔ جیسے ہم عجیب لوگ ہیں ہماری خبریں بھی ویسی ہی عجیب ہیں! دنیا میں جو ایک معمول کا عمل ہوتا ہے وہ ہمارے یہاں ایک خبر ہوتی ہے۔ اور جو دنیا میں خبر ہوتی ہے ہمارے یہاں زندگی کا معمول۔
کراچی میں ایک اعلی پولس ِ آفیسر شاہد حیات صاحب کو کراچی سے دہشتگردوں، کرائے کے قاتلوں، بھتہ خوروں اور ڈاکوؤں کو ختم کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ جناب شاہد حیات صاحب نے کہا کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر مجرموں کو ختم کرکے دم لیں گے۔ بس پھر کیا تھا ، پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں یہ ایک بڑی خبر بن گئی۔ تجزیہ نگار، مبصرین، ٹی وی ٹاک شوز سجانے والے اینکرز شاہد حیات کے اسِ اعلان پر اس کی تعریف کرتے تھک نہیں رہے کہ کیا بات ہے صاحب، کیا نیک، ایماندار اور نڈر پولس افسر ہے۔ خبر تو جب بننی چایئے تھی اگر کوئی پولس افسر شاہد حیات جیسا نہیں ہوتا۔مہذب دنیا میں ہر پولس افسر کو ایسا ہی ہونا چائیے اور اگر کوئی ایسا نہیں ہوتا ہے تو وہ پھر ذرائع ابلاغ کی زینت بنتا ہے مگر ہمارے یہاں خبر اس پولس افسر کی بنتی ہے جو اپنا کام اسُ طرح سے کرتا ہے جس طرح اس کو کرنا چائیے اور جس کے لئے اس کو سرکاری خزانے سے پیسے اور مراعات ملتی ہیں۔
ہاں آج ایک اور خبر پاکستانی میڈیا کی زینت بنی کہ وزیر اعظم پاکستان نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات ایک ہفتہ تاخیر کے ساتھ الیکشن کمیشن کو بھجوادی ہیں ۔ کیا بات ہے صاحب ۔ خبر تو یہ بہت پہلے شائع ہونی چاہے تھی کہ نواز شریف صاحب نے وزارتِ عظمہ کا حلف لیتے ہوئے یہ قسم کھائی کہ وہ ملک و قوم سے کوئی چیز نہیں چھپائیں گے مگر انہوں نے اپنا ذاتی حساب کتاب سرکاری اداروں کو ابھی تک بتایا۔
مہذب دنیا میں یہ خبر بن جاتی ہے اگر کوئی سیاسی شخصیت وقت پر ٹیکس ادا نہ کرے اور رہی الیکشن کمیشن کو اثاثوں کی تفصیل جمع کرانے کی بات تو مہذب دنیا میں توکوئی امیدوار الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے سکتا اگر اس نے اپنا مالی حساب کتاب ظاہر نہیں کیا ہو۔ وزیر اعظم نواز شریف صاحب کا کاروبار دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ اربوں روپے کا کا روبار کرنے والے لوگوں کے پاس تومالی کھاتوں اور اثاثوں کے حساب کتاب کے لئے پورے پورے شعبہ اور ماہر ہوتے ہیں جو ہر وقت حساب کتاب تیار رکھے جاتے ہیں۔ خبر تو یہ بننی چاہیے تھی کہ نواز شریف اینڈ کمپنی نے ابھی تک اپنے ذاتی اثاثوں کی فہرست نہیں بنائی یا پھر یہ کہ نواز شریف اینڈ کمپنی کو ابھی تک معلوم نہیں کہ انکےاثاثے کتنے ہیں ۔ جس ملک کا وزیر اعظم اپنے ذاتی اثاثوں کی تفصیل سرکار کو جمع نہیں کرا سکتا وہ کسِ طرح سے ملک کے اثاثوں کا حساب کتاب ٹھیک رکھ سکتا ہے۔ خبر تو یہ بننی چاہے تھی کہ ملک کی ایک سیاسی شخصیت کو جیل میں اسِ لئے ڈال دیا گیا کہ اس نے وقت پر ٹیکس نہیں دیا یا یہ کہ اپنے ذاتی اثاثے ظاہر نہیں کئے۔ خیر موجودہ وزیر اعظم اور انکے اثاثوں کو تو ایک طرف رکھیں ،خبر یں تو ہم برسوں سے یہ بھی سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان کو مزید قرضہ آسان شرائط کے ساتھ مل گیا اور یہ کہ ہم پاکستان کے بیرونی قرضے اگلے پانچ سالوں میں اتار دیں گے۔
خیر جی آوا کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، بڑے لوگوں کی باتیں چھوڑیں یہاں تو عام آدمی بھی اب الٹا سوچتا اور الٹا کر تاہے۔ اگر کسی پڑھے لکھے کو میرٹ پر اچھی نوکری مل جائے تو خاندان کے لئے یہ ایک خبر بن جاتی ہے۔ اگر کوئی دکاندار مناسب دام پر کوئی اشیا فروخت کر رہا ہو تو خبر بھی آج کی تازہ خبر ہے۔ اور اگرکبھی سارے دنِ بجلی غائب نہ ہو تو لوگوں کے لئے یہ بھی موبائل فون پر ایک ایس ایم ایس خبر ہے۔ اگر کسی علاقے میں سرکاری نلکے سے پانی آرہا ہو تو بھی ایک اچھی خبر ہے۔ اگر کبھی ٹھیک وقت پر ریل گاڑی منزل پر پہنچا دے تو مہمان کے لئے میزبان کو دینےکے لئے ایک بہتریں خبر ہے۔ آج کی بریکنگ نیوز تو یہ بھی ہے کہ اگر کسی ڈاکہ کی کاروائی میں پولس ملزم کو رنگے ہاتھوں پکڑ لے۔ اور اگر کسی گرجہ گھر کو دہشتگردی کا نشانا بنایا جاتا ہے تو میڈیا کے پاس نشر کرنے کو یہ خبر بھی ہے کہ ہم سب ایک پاکستانی ہیں اور ہم میں کوئی تفریق نہیں مسلمان ہوں یا عیسائ ۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسی خبروں کے ساتھ زندہ رہ پا ئیں گے اور ہراگر رہ پائیں گے تو کیا دنیا میں ایسی خبروں کے ساتھ سر اٹھا کر عزت سے چل پائیں گے ۔
کیا پاکستانی میڈیا پر کبھی یہ خبریں بھی دیکھنے کو ملیں گی کہ ایک فوجی جنرل کو اسکی خراب کارکردگی کی بنیاد پر فوج سے نکال دیا گیا۔ کیاکبھی یہ بھی سننے کو ملے گا کہ ایک اعلی پولس افسر کو جیل میں ڈال دیا گیا کیونکہ وہ رشوت لیتے ہوئے پکڑا گیاتھا۔ کیا کبھی ہم پاکستانی ٹیلویزن اسکرین پر یہ دیکھ سکیں گے کہ کچھ دہشتگردوں کو ایک مشہور چوراہےپرسرے عام لٹکایا گیا۔کیا یہ خبر بھی لوگوں کو سننے اور پڑھنے کو ملی گی کہ کسی معصوم کے ساتھ زیادتی کرنے پر مجرم کو علص صبح پھانسی دیدی گئی۔ کیا کبھی یہ خبریں بھی پڑھنے کو ملیں گی کہ ایک جج کو اسکے عہدہ سے اسِ لئے فارغ کر دیا گیا کیونکہ اسکی عدالت میں ایک کیس ایک سال سے لٹک رہا تھا۔
کیا پاکستان قوم کے لئے ایسی خبریں بھی کبھی جنم لیں گی کہ پاکستانی روپے کی قیمت میں اضافہ ہو گیا۔ اسِ سال پاکستان کی بر آمداد میں ریکارڈ اضافہ پایا گیا۔ پاکستان میں شرح خواندگی کی شرح خطہ میں سب سے زیادہ ہو گئی۔ پاکستان نے دوبارہ کھیلوں میں اپنا کھویا ہوا مقام پا لیا۔ پاکستان کا شمار دنیا کے خوشحال اور پر امن ممالک میں ہوگیا۔ اور یہ کہ پاکستان غیر ملکیوں کے لئے ایک بہترین سیاحت کا مقام ہے اور کاروبار کے لئے بہترین ریاست۔