بقلم سید عتیق الحسن
سندھ حکومت کی ناکامی، عوام کے لئے بنیادی ضرورتوں کا فقدان، انسانوں کی ہولناک ہلاکتوں پر ہر اعلی عہدے پر فائز حکمران کی بے حسی ، شرمناک معذرت ، اور ہٹ دھرمی ایک مرتبہ پھر پاکستانی نیوزمیڈیا اور ٹی وی ٹاک شوز کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ کیا اسِ بحث و مباحثہ اور وزیروں و مشیروں کے بے غیرتی سے لبریز جوابات سے سندھ میں کچھ بدلنے والا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دوسرے صوبوں کا حال بھی کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں۔ اب تو وہی پرانے دُکھڑے بار بار لکھ کر بھی دل بھر گیا ہے۔ایسا لگتا ہے ایک پرانے مضمون کو دوبارہ تحریر کر رہا ہوں۔ عوام ، حکمران اور حکومتوں کی حالت زار ایسی شرمناک کیوں نہ ہو؟
جو قوم اپنے محبِ وطن قائدین اور بدعنوان سیاستدانوں میں تمیز نہ کر سکے وہاں پھر یہی کچھ تو ہونا تھا۔ جہاں معاشرہ اسِ حد تک بگڑ گیا ہو کہ حلال و حرام میں فرق تو دور کی بات ہر دوسرا شخص بس ایک موقع کی تلاش میں ہو کہ اسے کسی طرح آسانی سے پیسہ کمانے کا موقع مل جائے وہاں اللہ کا عذاب نہیں آئے گا تو پھر اور کیا اس کی رحمت برسے گی ؟ آج ہم ایک آزاد ملک میں رہ کر بیرونی طاقتوں کے مقروض ہیں!
غرض کہ ایک لمبی کہانی بیان کرنے کی بجائے اگر ہم صرف اسِ بات کا ہی جائزہ لے لیں کہ کیا پاکستان جس مقصد اور اصولوں کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اس پر ہم سب نے عمل کیا اور پھر انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں تو ہم سب اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ہاں آج پاکستان کی بیس کروڑ کی عوام جس کرب سے گزر رہی ہے ہم سب اسی لائق تھے۔ ہم کب تک اپنے آپ کو دھوکا دیتے رہیں گے؟
پاکستان بنانے کی ضرورت ہمارے بانیانِ پاکستان کو اسِ لئے پیش آئی تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ ہم ایسی ریاست میں رہیں جہاں اسلام ہماری زندگی کے کاروبار میں شامل ہو، جہاں ہر ایک کو بلا تفریق انصاف ملے، جہاں صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت سے پاک ایک اسلامی معاشرہ ہو۔ جہاں ہر امیر و غریب کو فوری انصاف ملے۔ محض ریاستِ مدینہ کا نام لینے سے ریاست مدینہ تو دور کی بات پاکستان بھی قرار دادِ پاکستان اور نظریہ پاکستان کے اصولوں پر قائم نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے ملک کا مشرقی حصہ ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھا کر کھو دیا اور مغربی حصہ میں صوبائیت کو پروان چڑھایا اور ایک پاکستان کی بجائے صوبائی حقوق کی جنگ میں مبتلا ہوگئے اور ہم بات کرتے ہیں پاکستان کو مستحکم کرنے کی۔ اگر ہمیں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کی ہی بات کرنی تھی تو پاکستان بنانے کیا ضرورت تھی یہ صوبے تو قیامِ پاکستان سے پہلے بھی صدیوں سے قائم تھے۔آج ہم پاکستان کے معنی و مفہوم سے بھٹک چکے ہیں۔
پاکستان مشرق اور مغرب دو حصوں پر مشتمل ایک ریاست بنائی گئی تھی۔جہاں پاکستان ایک اکائی کا نام تھا۔ جہاں ہر شہری پاکستانی تھا نہ کہ بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچی، پختوں اور مہاجر ۔ مگر آج بات ہوتی ہے صوبوں کے حقوق کی جوکہ نظریہ پاکستان کے خلاف کاروائی ہے۔
پاکستان ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک ضرورت تھی جس کو ایک ایسی ریاست بننا تھا کہ جہاں ہر شہری کو تعلیم حاصل کرنے، کاروبار کرنے اور ملازمت کرنے کے برابری کے مواقع میسر ہوں۔ جہاں ہر شخص اپنے حصہ کا ٹیکس دیانتداری سے ادا کرے، لوگ حلال کمائیں اور حلال اپنے بچوں کو کھلائیں، ہر شہری کے لئے با آسانی مفت علاج دستیاب ہو۔ بے روزگاروں کی دیکھ بھال ریاست کی ذمہ داری ہو۔تمام عوام ایک پاکستانی قوم بن کر اپنے وطن پاکستان سے پیار کریں ناکہ صوبوں میں تقسیم ہوکر اپنے صوبے کو اپنے ملک پر ترجیح دیں۔ پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ جنم لے جہاں لوگوں میں سیاسی شعور ہو، معاشرتی ذمہ داری ہو، سیاسی لیڈر کا چنائو کرتے وقت پاکستان اور نئی نسل کا مستقبل سامنےرکھا جائے۔ کیا اسِ میں سے ہم کچھ بھی کر پائے؟ اگر آپ کا جواب ایمانداری سے نہیں میں ہے تو پھر باقی بحث فضول ہے۔ جب تک ہر ایک پاکستانی اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے ساتھ انصاف نہیں کریگا اس کو نہ کوئی انصاف دیگا اور نہ سماجی تحفظ۔