سید عتیق الحسن
یہ جو کبھی منیِ لندن کہلاتا تھا ، علم و ادب جس کی پہنچان تھی ، جس کے قہوہ خانوں میں شعر و ادب کی محفلیں سجتی تھیں ، فن او ر فنکارجہاں کی میراث تھے، ہائے اسِ شہر کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔ میں مختصر سے حالیہ دورۂ کے دوران جب شہر کراچی کی شاہراہوں سے گزرا تو دلِ خون کے آنسو رو رہا تھا۔ کیا یہ وہی شہر ہے جہاں میں رات کے پچھلے پہر بلا کسی خوف و خطر کے محض رات کی چاندی سے لطف اندوز ہونے کے لئے لمبی سیر پر نکل جاتاتھا۔ ساحل سمندر پر بیٹھ کر اپنے دوست احباب کے ساتھ گھنٹوں سیاسی، ادبی، سماجی اور مستقبل کی باتیں کرتا تھا۔ آج کراچی میں سوگ اور وہشت کا عالم ہے۔ ہر آدمی اسِ خوف میں مبتلا ہے کہ نا جانے کب کسِ گزرگاہ پر موت سے آمنا سامنا ہو جائے۔
کراچی کو پاکستان کی شہ رگ کہا جاتا ہے۔ ہر لمحے برھتی ہوئی آبادی کے اسِ شہر کے طول و عرض میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایک علاقہ دوسرے علاقہ سے اتنا الگ تھلگ لگتا ہے جیسے کسی دوسرے صوبہ یا دیس میں آگئے ہوں۔ لوگوں کا پہنا اوڑھنا ، کھانا پینا ، زبان اور سیاسی وابسطگیاں ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی کتنی مختلف ہو گئیں ہیں ۔ کراچی شہر اب کئی نسلوں ، فرقوں ، زبانوں اور قبیلوں میں بٹھا ہوا ایسا علاقہ نظر آتا ہے جہاں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہاں اگر پرواہ ہے تو اپنی جان بچانے کی۔ نا جانے کب اور کیسے موت آجائے ہر ایک کو ایسا دھڑکا سا لگا رہتا ہے مگر پھر بھی لوگ زندگی کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے جارہے ہیں۔ جہاں چوراہوں اور بازاروں میں بھیک مانگنے والے سفید پوش والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہیں دوسری جانب بڑی بڑی ریسٹورینٹس میں لوگوں کاہجوم نظر آتا ہے۔ رات تقریباٌ دس بجے کا وقت تھا میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ کراچی کے پان کھائے عرصہ گزر گیا خیر پان کے کیبن پر کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک برقعہ پوش خاتون جس کے ساتھ کوئی سات یا آٹھ سالہ بچی تھی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہہ بھیا ہمیں پیسہ نہیں چائیے آپ ہمیں تھوڑا سا دودھ اور ناشتہ کے لئے ڈبل روٹی وغیرہ دلا دیں بچے صبح اسکول جانے سے پہلے ناشتہ کر لیں گے۔ میرے پیروں کے نیچے سے جیسے زمیں نکل گئی۔ یہ خاتون سچی تھی یا جھوٹی مجھے اسِ سے فرق نہیں پڑتا مگر میرے لئے حیرانگی کا مقام یہ تھا کہہ یہ ہے شہر کراچی جیسے معراعات کا شہر کہا جاتا تھا۔ ایک طرف تو لوگ جگہ جگہ بھیک مانگتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف شہر میں جگہ جگہ خفیہ شراب کی دکانیں بامِ عروج پر ہیں جو غیرمسلم کے نام پر لائنس سے مسلمانوں کو شراب بیچنے میں مگن ہیں۔
ایک طرف تو اسکولوں اور طلباء کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے تودوسری جانب طلباء اور اساتذدہ میں لحاظ، تہذیب، ترییت اور نظم و ضبط کا فقدان نظر آرہا ہے۔ بازاروں اور عوامی مقامات پر جہاں پردہ دار خواتین کی تعداد میں اضافہ نظر آتا ہے وہیں فحاشی اور مغربی طرزِ کے روابط بھی عام نظر آتے ہیں۔
آئے دن ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے واقعات اب لوگوں کی زندگی کا معمول بن گئے ہیں ۔ ایک دو لوگوں کی اموات کے واقعات کا تو لوگااب ذکر بھی نہیں کرتے۔ اگر ایک شاہراہ پر کوئی دہشتگردی کا واقع پیش آگیا تو لوگ اس شاہراہ سے راستہ تبدیل کرکے دوسری سڑک پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔آئے دنِ اسکولوں کے بند ہونے کی وجہ سے ننھے منے بچے گھروں پر یا تو کارٹون دیکھ کر اپنا وقت گزارتے ہیں یا پھر ، جرم بولتا ہے، یا سرئے عام جیسے جرائم پر مبنی سلسلہ وار ٹیلی ویزن شوز دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اگر باہر سے کوئی دھماکہ کی آواز سنائی دے تو یہ بچے اب اتنے ماہر ہوگئے ہیں کہ دھماکے کی آواز سے بتا دیتے ہیں کہ یہ شادیانوں کے پٹاخے ہیں یا پھر گولیاں چلنے یا بم پھٹنے کی گرج ۔ پولس ہو یا رینجرز یا کسی سیاسی پارٹی کے کارکن سب ایک کھیل کے کردار نظر آتے ہیں۔پڑھے لکھے لوگوں کے چہروں پر مایوسی آنے والے مزید طوفا ن کا پیش خیمہ لگتی ہے۔عام آدمی کے لئے نا کوئی رہبر ہے اور نا کوئی منزل۔ عام شہری کو نا تو انتخابات میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ اسِ میں کہ کونسی سیاسی جماعت شہر کراچی کا کنٹرول سنبھالتی ہے۔
ایک طرف تو اعلی تعلیم یافتہ اور تجر بہ کار پرفیشنلز اور کامیاب کاروباری حضرات کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نا جانے کب کسِ گینسٹر کی طرف سے کوئی پرچی کے ذریعے ڈیمانڈ آجائے یا پھر کسی شاہراہ پر سفر کرتے وقت کوئی ٹارگیٹ کلر گولی کا نشانہ بنادے ، دوسری جانب بے روزگار اور مزدور طبقہ اپنے بال بچوں کو پالنے سے قاصر ہے او ر جیسے تیسے اس آس پر وقت گزار رہا ہے کہ شاید اللہ کی طرف سے کوئی معجزہ ہو جائے۔
ہفتہ میں کئی دنِ پیٹرول، گیس اور سی این جی کے بند ہونے کی وجہ لوگوں کے کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ جب سی این جی یا پیٹرول کی ناغہ ہوتی ہے تو ٹیکسی اور رکشہ ڈرائیور منہ مانگے دام مانگتے ہیں۔ ایک دنِ سی این جی بند تھی مجھے گلشن اقبال سے ڈیفنس ٹیکسی میں جانا پڑگیا جس کا معمول کا کرایہ زیادہ سے زیادہ 200 روپے ہے مگر ٹیکسی ڈرائیور منت سماجت کرکے 500 روپے کرائے پر جانے کو تیار ہوا۔ میں راستہ بھر یہ سوچتا رہا کہ میں نے تو پانچ سو روپے ادا کردئیے کیا ہوتا ہوگا انِ لوگوں کا جو یہاں اسِ بے روزگاری کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔
پرائیوٹ ٹیکسی ڈرائیور سے باتوں کے دوران پتہ چلا کہہ وہ ایک دنِ کسی بلوچستان کی سیاسی شخصیت کو کراچی سے بلوچستان لیکر لیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے انتخاب میں کھڑا ہونے کے لئے کاغذات جمع کراسکے۔ ڈرائیور نے بتایا کہہ اس نے پانچ دنِ جو بلوچستان میں گزارے وہ اس کی زندگی کے خطرناک ترین شب و روز تھے۔ سیاسی شخصیت نے اسکو سختی سے منع کر رکھا تھا کہ بلوچستان میں کسی سے بات نہ کرے کیونکہ اگر کوئی بلوچی یا سندھی کے علاوہ کوئی اور زبان بولتا ہوا پایا گیا تو اسے گولی مار دیتے ہیں۔ ڈرائیور نے بتایا کہہ اس کو یوں لگ رہا تھا کہ وہ کسی دشمن ملک کے علاقے میں قید ہے جہاں سے اب جان بچا کر نکلنا مشکل ہے۔ ڈرائیور نے زیادہ وقت اسِ سیاسی شخصیت کے ایک مکان یا پھر کار میں گزارا اور جب اللہ اللہ کرکے واپسی کا سفر شروع ہوا اور جیسے ہی کراچی کی سرحد شروع ہوئی تو اس نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔یہ وہی بلوچستان کے لوگ ہیں جو ایک وقت میں گھومنے پھرنے کراچی آیا کرتے تھے اور کراچی کے باشندوں سے بڑی تمیز اور عزت سے پیش آتے تھے ۔
میں نے جس جگہ قیام کیا وہ چھ مالے پر ایک فلیٹ تھا جہاں سے مجھے کراچی کے مختلف علاقے نظر آسکتے تھے۔ فلیٹ کی بلڈنگ کے سامنے ایک شادی ھال تھا۔ رات کا اگلا پہر تھا میں نے دیکھا کہ شادی ھال کے باہر لوگ دولھا کی گاڑی کے آگے بھنگڑے ڈال رہے ہیں پھرآتش اور پٹاخے بازی شروع ہوگئی۔ سڑک کی دونوں جانب ٹریفک معمول کے مطابق رواں دواں تھا اور آتش بازی اور پٹاخوں کے شور و غل سے لا تعلق تھا ۔ یکایک دور ایک اور علاقے پر چھائے اندھیرے میں یکایک آسمان کی طرف چنگاریاں اٹھتی ہوئی نظر آئی اور ساتھ ہی گن مشین کی گولیوں جیسی آوازیں سنائی دیں۔ صاحبِ خانہ سے پوچھا تو انہوں نے حیران ہوئے بغیر اعتماد سے فرمایا یہ کراچی ایسٹ کا علاقہ ہے جہاں رینجرز کا آپریشن ہورہا ہے اور جواب میں لوگ فائیرنگ کر کے رینجرز کو علاقے سے نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔لگتا یوں تھا جیسے صاحبِ خانہ کو سب معلوم تھا کہہ وہاں کیا اور کیوں ہو رہا ہے۔مگر میں ایک ہی شہر کے دو علاقوں میں یہ دو منفر د منظر ایک طرف شادی کی خوشیاں اور کچھ کلو میٹر دور جنگ کا سماں دیکھ کر کراچی کے باشندوں کی عقل اور عمل پر حیران تھا۔
ایک زمانہ تھا کہہ اگر کسی ٹریفک حادثہ میں بھی کوئی شخص کسی گاڑی کے نیچے آکر ہلاک ہوجائے یا پھر حکومت کی طرف سے کوئی ایسا اقدام ہو جو شہر کراچی، صوبہ، یا ملک و قوم کے لئے سودمند نہ ہو تو سارا کراچی ایک جان دو قالب کی طرح کھڑے ہوجاتے ہیں۔چاہے سیاسی وابسطگی کسی سیاسی پارٹی کیوں نہ ہو لوگ عوامی اور شہری مفاد کے لئے یکجا ہو کر احتجاج کر تے تھے۔کراچی سیاسی تحریکوں کا محور کہلاتا تھا۔ پھر آج کراچی دہشتگردی کا گہوارا کیسے بن گیا۔
ہائے اسِ شہر کے لوگوں کو کیا ہوا۔ یہ کیسا سماں ہے کہہ ہر ایک کو صرف اپنی پڑی ہے۔ کوئی شادی رچا رہا ہے تو کوئی موت اور زندگی سے جنگ لڑ رہا ہے۔ بارحال میرے پاس کوئی حتمی جواب نہ تھا مگر جن لوگوں کے پاس میں قیام کر رہا تھا ان لوگوں کو میری پریشانکن سوچ سے کچھ لینا دینا نہیں تھا وہ تو بس میرے قیام کی خوشی میں اور میری میزبانی میں مگن تھے ہاں اگر ان لوگوں کے پاس میرے لئے کوئی مشترکہ سوال تھاتو وہ یہ کہہ کسی طرح سے وہ یا انکے بچے بھی پاکستان سے باہر جاسکتے ہیں اور آسٹریلیا میں سیٹ ہو سکتے ہیں۔