سید عتیق الحسن، سڈنی آسٹریلیا
پاکستان میں لوگ جتنی گفتگو سیاست پر کرتے ہیں اور پاکستانی میڈیا میں جتنی کوریج سیاسی خبروں اور سیاستدانوں کو دی جاتی ہے اتنی دنیا میں کسی اور ملک میں نہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے نظام میں ہر سطح پر غیر جمہوری عمل نظر آتا ہے۔ انصاف کے کٹہرے میں انصاف نہیں، قانون کے محافظ کے پاس تحفظ نہیں، سیاستدان کے پاس منزل نہیں، بزرگ کے پاس دانش نہیں، نوجوان کے پاس سلیقہ نہیں، تعلیم یافتہ کے پاس شعور نہیں، قابل کے پاس کام نہیں، افسر کے پاس ایمان نہیں، استاد کے پاس وسائل نہیں، صحافی کے پاس قومی ذمہ داری نہیں،
مولوی کے پاس ہم آہنگی نہیں،عام آدمی کے پاس حق گوئی نہیں، اور فوجی کے پاس ہمت نہیں ؟
کیوں پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں آمرانہ رویہ اور موروثی حاکمیت ہے؟ کیوں پاکستان کے عوام جب کسی سیاسی جماعت سے جڑُ جاتے ہیں تو ایسا رویہ اپناتے ہیں کہ جیسے اُن پر ایمان لے آئے ہوں کہ انکی جماعت کا ہر فیصلہ صحح اور انکے قائد کا ہر عمل سچا؟ ایسا کیوں ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک میں تو جمہوریت نافظ کرنے کی بات کرتی ہیں مگر انکی اپنی جماعتوںمیں جموریت نہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ مذہب کے نام پر بننے والی جماعتیں مذہبی کام کم اور سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ، ایسا کیوں ہے کہ ایک مذہبی رہنما مذہب کو اسکی روح کے مطابق پھیلانے کی بجائے اپنے مطلب کا پیغام عام کرتا ہے؟
کیوں پاکستان کے سیاستدان جاگیرداروں، وڈیروں، چودھریوں کے گھروں میں ہی پیدا ہوتےہیں؟ کیوں پاکستان کے سیاستدانوں کا سفر فوجی حکومتوں سے شروع ہوتا ہے اور فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں ختم ہوتا ہے؟ کیوں پاکستان میں سیاسی جماعت ایک وقت میں فوج کو برا کہتی ہے اور دوسرے وقت میں فوج کو ملک کااقتدار سنبھالنے کی اپیل کر تی ہے؟
کیوں پاکستان کی عوام کی زندگی میں صبر اور استقامت پسندی کی جگہ حسد اور دکھاوا نے لے لیا ہے؟ کیوں پاکستان میں مزدور سے لیکر سرکاری افسرتک اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ایک جائز یا ناجائز موقع کی تلاش میں رہتا ہے ؟ کیوں آج پاکستان میں اگر کوئی نوجوان پڑھنے لکھنے میں دلِ لگا رہا ہے تو اسِ لئے کہ وہ جلد سے جلد کسی ترقی یافتہ ملک کو کوچ کر جائے؟
کیوں پاکستان میں آج بد عنوانی کا تناسب تعلیم یافتہ لوگوں میں زیادہ بڑھ رہا ہے؟کیوں آج مذہبی رہنمائوں میں میں فرقہ واریت کا رجحان زیادہ بڑھ رہا ہے اور مسلم امہ کا فلسفہ کم؟ کیوں آج پاکستان میں مساجد بھری ہوئی نظر آتی ہیں مگرمسلمانیت کم نظر آتی ہے؟ کیوں عام لوگوں میں منافت زیادہ نظر آتی ہے اور سچ بات کہنے کی ہمت کم؟
کیوں آج پاکستان میں موبائل فون کال کی قیمت روٹی کی قیمت سے کم ہے؟ کیوں آج پاکستان میں ہر ایک کے پاس موبائل فون تو ہے مگرنوکری نہیں؟ ڈگری تو ہے مگر تعلیم نہیں، عقل تو ہے مگر شعور نہیں، سمجھ تو ہے مگر سلیقہ نہیں؟ مسلمان تو ہیں مگر ایمان نہیں؟ کیوں آج ماں باپ غلط حرکتوں پر اولاد سے سوال کرنے میں ڈرتے ہیں؟
کیوں سمندر، دریائوں، زرخیز زمینوں، اور معدنی وسائل سے مالا مال ملک پاکستان، بجلی، پانی، گیس سے محروم ہے؟ کیوں آج دس لاکھ فوج اور جدید ہتھیار رکھنے والے ملک کی سرحدیں دشمنوں کے لئے آزاد ہیں؟ کیوں آج شہروں کی نگہبانی کرنے والے دہشتگردوں کے آگے زیر نظر آتے ہیں؟ کیوں آج پاکستان میں کسی بے گناہ کا قتل اور کسی معصوم کی عزت دری ایک میڈیا کی خبر کے سوا کچھ نہیں؟
کیوں پاکستان میں انٹرنیٹ (گوگل ) پر دنیا میں سب سے زیادہ عریاں اور جنسی فلمیں کی تلاش کی جاتی ہے؟کیوں پاکستانی ہی شوشل میڈیا پر سب سے زیادہ سیاسی و مذہبی جنونیت پر بحث بازی کرتے سب سے زیادہ نظر آتے ہیں؟
کیوں پاکستان کے حالات بد سے بدتر ہونے کے باوجود، قتل و غارتگری کا گراف دنیا میں سب سے زیادہ ہونے کے باوجود، مہنگائی اور لوٹ مار عروج پر ہونے کے باوجود، عدل و انصاف اور قانون کی عدم دستیابی کے باوجود، پاکستان کی عوام چپ ہے؟ کیوں پاکستان کا آپ آدمی آج خاموش ہے؟
کیا پاکستان کا عام آدمی انِ حالات سے مطمعین ہےیا پھر عام آدمی نے بے غیرتی کی زندگی گزارنے کو ہی اپنا مقدر سمجھ لیا ہے ؟
کیا کبھی پاکستان میں حالات بدلیں گے؟ اگر بدلیں گے تو کون بدلے گا؟ یہ نااہل، منافق، بدکار، بدعنوان اور ضمیر فروش سیاستدان یا پھر یہ ناجائز طریقوں سے بننے والے سرمایہ دار، یا پھر رشوت خور اور نا اہل افسران، یا پھر ظالم و آمر چودھری ، وڈیرے اور قبائلی سردار اور یا پھر امریکی اور برطانوی آقائوں کی بات سننے والی پاکستان کی افواج؟
اور اگر کوئی انِ میں سے ہی پاکستان کے حالات تبدیل کر سکتا ہے تو اس نے اب تک کیا کیا ہے؟ کیا اسُ کا ماضی بے داغ ہے؟
دراصل آج پاکستان کی کیفیت اُس بیمار فرد کی طرح ہے جسے کبھی ایک معمولی سا زخم جسم کے کسی حصہ پر ہوا تھا، مگر اُس نے نا اُس زخم پر توجہ دی اور نا ہی علاج کی طرف دھیان دیا، پھر وہ مرض بڑھ کر ایک بڑے زخم کی شکل اختیار کرگیا ، لوگوں نے مشورہ دیا کہ اسِ کا علاج کرائو تو اُس نے ہنس کر جواب دیا خود ہی صحح ہو جائے گا، مگر زخم بڑھتا گیا، پھر وہ ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا، یہ پھر ڈاکٹر کے پاس با حالتِ مجبوری گیا ااور ڈاکٹر سے دوا بھی لی مگر اس کا استعمال نہیں کیا، ناسور بڑھتا گیا اور پھر سارے جسم میں پھیل گیا۔ پھر جب چلنے پھرنے کے قابل بھی نا رہا تو پڑوسیوں نے ہسپتال پہنچا دیا مگر ڈاکٹروں نے کہا ک اب اسِ کا علاج نہیں ہو سکتا بس اسِ کے حق میں دعا کریں شاید اللہ کوئی معجزہ دکھا دے۔اب اس کے تمام واقفکاراُس کے مرض کے متعلق طرح طرح کی کہانیاں سناتے ہیں اور طرح طرح کے علاج اور ٹوٹکوں کا مشورہ دیتے ہیں ۔ آج پاکستان کی کیفیت اور پاکستانی عوام کی حالت بھی اس مریض جیسی ہے ۔
آج پورے پاکستان میں طالبان موضوع بحث ہیں، کوئی کہتا ہے انِ سے مزاکرات کرنے چائیں ، کوئی کہتا ہے اِن کے خلاف اعلان جنگ کرنا چائیے ۔ مگر کیا ملک کی باگ دوڑ چلانے والوں نے، سیاسی پنڈتوں نے اور پوری قوم نے پہلے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ یہ طالبان دراصل ایک ذہنی کیفیت اور سوچ کا نتیجہ ہیں ۔ یہ ایک انتہا پسند ایک فلسفہ کی پیدار ہیں جو انِ میں آج سے تیس سال پہلے یہ انِ میں افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف جہاد کے نام پر ڈالا گیا تھا اور بد قسمتی پاکستان کے دفاعی اور خفیہ ادارے امریکہ کی خواہش کے مطابق ایک کردار کا حصہ تھے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ‘اسِ طرح تو ہوتا ہے پھر اسِ طرح کے کاموں میں’۔
طالبان پاکستان کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں، پاکستان میں قائم کرپٹ نظام کا رد عمل اور شدد پسند سوچ کا نتیجہ ہے۔اور یہ مرض کئی دھائیوں میں اب ایک ناسور کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ شمالی وزیرستان میں تو ٹینک ، توپوں اور جنگی ہیلی کاپٹروں سے پہاڑوں میں آپریشن کیا جا سکتا ہے، مگر اُس طالبانی سوچ کا کیا ہوگا جو کراچی سے لیکر پشاور تک مذہب کے نام ناسور کی طرح پھیلا دی گئی ہے۔ اسِ سوچ کے مطابق ہر اس شخص کو مارنا جہاد ہے جو انِ کے اسلام کے منافی ہے۔ لحاظہ میرے کہنے کا لببے لباب یہ ہے کہ پاکستان کی دفاعی طاقت، اسلامک اسکالرز، محبِ وطن دانشوروں ، سول سوسائٹی کی اعلی شخصیات اور عام آدمی کو ملِ کر پاکستان سے اسِ شدد پسند سوچ کو ایک دیرینہ حکمتِ عملی کے تحت ختم کرنا ہوگا۔ اور اسِ مہم میں آج کے سیاسی قائدین اور سیاسی اور فرقہ واریت مذہبی جماعتوں کو بھی رد کرنا ہوگا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ آج مسلہ صرف پاکستان کے شمالی یا جنوبی طالبان کا نہیں، جتنا نقصان پاکستان کو طالبان نے پہنچایا ہے اتنا ہی انِ نام نہاد اور بد عنوان سیاسی پنڈتوں اور انِ کی جماعتوں نے پہنچایا ہے فرق صرف واردات کرنے کا طریقہ مختلف ہے۔ ایک معصوم عوام کو گولیوں سے مار رہے ہیں تو دوسرے بھوک، افلاس اور لوٹ مار سے مار رہے ہیں۔ ایک ملک میں گولی کے ذریعہ لاقانونیت پھیلا رہے ہیں تو دوسرے ملک کا خزانہ لوٹ کر پاکستان کو بینک رپٹ کر رہے ہیں۔ جو بھی پاکستان کو کمزور اور بدنام کر رہا ہے وہ سب برابر کے مجرم ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر بے نظیر، زرداری، نواز شریف، الطاف حسین یا عمران خان انِ لوگوں کی پاکستان اور پاکستانی قوم کے مسائل کم کرنے میں کیا کردار رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انِ سب نےپاکستانی عوام صرف تقسیم کیا ہے اور عوامی مسائل پر لوگوں کو اپنی جماعتوں میں اکٹھا کیا ہے ۔کسِ سیاسی جماعت نے پاکستان اور عوام کو خوشحالی دی ہے۔
جب قومیں تباہ ہوتی ہیں اور تباہی انجام بن جاتی ہے تو پھر اُس ریاست میں سڑکوں پر قتل۱ ور گھروں میں ماتم ہوتے ہیں؟ لوگ رونے کے عادی ہوجاتے ہیں اور دوسروں سے بھیک مانگنے کو اپنا مقدر سمجھتے ہیں؟ دنیا کے سامنے وہ ایک سبق بن جاتے ہیں اور مایوسی انکا اوڑھنا بچھونا؟ چور لٹیرے حاکم بن جاتے ہیں اور غلامی منطقی انجام!
لحاظہ اگر انِ تمام منفی اور بدعنوان عناصر سے پاکستان کو بچانا ہے پاکستان کی عوام نے دنیا میں آزادی اور عزت کے ساتھ رہنا ہے اور پاکستان کو قائم و دائم رکھنا ہے توعام آدمی کو پاکستان کی فوج کے ساتھ ملِ پاکستان اندورنی اور بیرونی دشمنوں سے جنگ لڑنی ہوگی۔ نام نہاد جموریت کو دفن کرنا ہوگا اور ایک اسُ شخص اور جماعت کا احتساب کرنا ہوگا جس سے صرف اور صرف پاکستان اور عوام کو استعمال کرکے اپنے مفادات کی تکمیل کی ہے یا کرنا چاہتے ہیں۔