سید عتیق الحسن
گھوم پھر کر وہی چند خاندان اور وہی پرانے چہرے پھر انہیں آزمائی ہوئی سیاسی پارٹیوں کے پلیٹفارم سے جیت کر قومی ایوان میں بیٹھ کر یہ دعوے کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام کے ترجمان ہیں۔ کیا انِ سیاسی لیڈران کے دعوے درست ہیں۔ آج یہ بہت بڑا سوال اسِ لئے اٹھتا ہے کہ پاکستان میں پچھلے پانچ سال سے جمہوریت قائم ہے اور دوسری طرف پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
آج کیا پاکستان کے کسی بھی سرکاری ادارے کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ مستحکم ہے اور ترقی کر رہا ہے۔ زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیں کہ آج پاکستان کے اہم ادارے یا تو تیزی سے تباہی کی طرف جا رہے ہیں یا پھر بدترین کارکردگی کا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔
پاکستان میں ہونے والے تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات کے نتائج یہ بتا رہے ہیں لوگ پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی اور ،متحدہ قومی مومنٹ سے خوش ہیں کیونکہ انہی سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے ضمنی انتخابات میں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا ان ، سیاسی پارٹیوں اور انکے نمائندوں کی کامیابی صحح جمہوری نظام کی عکاسی کر تی ہے۔ تو اسِ کا جواب انِ انتخابات میں ووٹرز کا ووٹ ڈالنے کا تناسب دے سکتا ہے۔ پاکستان کے دو بڑے صوبے، پنجاب میں 36 فیصد کے لگ بھگ اور سندھ میں37 فیصد کے لگ بھگ لوگوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ باقی دو صوبوں اور گلگت بلتستان ملا کر مجموعی قومی ووٹرز کا تناسب نکالا جائے تو چالیس فیصد سے کم لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ پھر اگر انِ چالیس فیصد ووٹرز کے ووٹوں کو تقسیم کیا جائے ان ووٹوں پر جو الیکشن میں حصہ لینے والے نمائندوں نے حاصل کئے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیس فیصد ووٹ حاصل کرنے والا نمائندہ الیکشن میں جیت سے سرفراز ہو ا۔ کیا یہ بیس فیصد ووٹ حاصل کرنے والا اور اس کی جماعت یہ کہنے کی اہل ہے کہ وہ پاکستان کے اکثریتی عوام کی ترجمان ہے۔ کیا یہ سیاسی پارٹیاں کہہ سکتی ہیں کہ وہ اسی فیصد لوگ جو ووٹ ڈالنے گھر سے ہی نہیں نکلے ان سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادت کو پسند کر تی ہیں اور اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر یہ ووٹ ڈالنے اپنے گھروں سے کیوں نہیں نکلتے۔
حقیقت یہ ہے پاکستان کی اکثریتی عوام انِ سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈران سے بیزار ہیں۔ پاکستان کی اکثریتی عوام جمہوریت کے نام پر اسِ بدعنوانی اور کرپشن سے لبریز نظام سے تنگ آچکے ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں اسِ نظام نے صرف لیڈران کے جلسے و جلوس ،گھراؤ جلاؤ، ایک دوسرے پر الزامات لگانے، عوام کو جھوٹے وعدہ دینے اور ملک کے عوامی اداروں میں لوٹ مار کرنے کے سوا ملک و قوم کو دیا بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ذرائع ابلاغ عوامی رائے بذریعہ عوامی سروے، انٹرویوز اور دستاویزی رپورٹس منظر عام پر لا تا ہے تو اکثریت میں لوگ ان سیاسی پارٹیوں اور انکے لیڈران پر لان تان کرتے نظر آتے ہیں۔آج انِ سیاسی پارٹیوں کے لئے شرم کی بات یہ ہونی چائیے کہ کیوں اکثریت میں لوگ ووٹ ڈالنے گھروں سے نہیں نکلے مگر یہ لیڈران تو یہ دعوے کر رہے کہ پاکستان کی عوام نے انِ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اور یہ ہی عوام کے حقیقی نمائندہ ہیں۔ لوگ کیوں گھر سے ان کو ووٹ دینے نہیں نکلتے؟اسِ بات کو سمجھنے کے لئے مجھے کوئی لمبے چوڑے دلائل دینے کی ضرورت نہیں ہونی چائیے کیونکہ کہ کوئی بھی ذی شعور آدمی سمجھ سکتا ہے۔ ہاں اگر اسِ کے جواب میں یہ سیاسیی پارٹیاں کہ سکتی ہیں کہ پھر یہ تیس سے چالیس فیصد لوگ کون ہیں جوووٹ ڈالنے اپنے گھروں سے بڑے جوش و خروش سے آتے ہیں۔ تو اسِ کا جواب ہے انِ سیاسی پارٹیوں کا نظام اور کاروبار چلانے کا طریقہ کار ہے ۔ دراصل آج اگر ان بڑی پارٹیوں کی حالت کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر پارٹی اور اسکے قائدین نے اپنے گرد اپنے حامیوں گھیرا زبان،قبیلہ ، علاقہ ، فرقہ اور خاندان کی بنیاد پر پھیلایا ہوا ہے۔ زبانی کلامی اور پاکستانی کے جھنڈے اٹھا کر پاکستان کے لئے باتیں بہت کی جاتی ہیں مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ ان ہی سیاسی پارٹیوں نے پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام کو تقسیم کیا ہے اور قومی تشخص کو دفن کر دیا ہے۔آج انہوں نے لوگوں کو پاکستانی نہیں، پنجابی، سندھی، سرائیکی، بلوچی، پٹھان اور مہاجر دیا ہے۔
اپنے آپ کو پاکستان سب سے بڑی جماعت کہلوانے والی پاکستان پیپلز پارٹی سند ھ میں زبان کی بنیاد پر، پنجاب میں برادریوں کی بنیاد پر اور بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں قبیلیوں کی بنیاد پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کئے ہوئے ہے۔ اسِ پارٹی کے جیالے وہ لوگ ہیں جن کو نہ تو پارٹی کے ایجنڈہ سے کوئی غرض ہے نہ ہی ناقص کر کارگردکی کی کوئی فکر، یہ لوگ آنکھ بند کر کے پارٹی کے نمائندوں کو ووٹ دیتے ہیں۔
ُُُپاکستان مسلم لیگ (نواز شریف گروپ) دراصل پنجاب کی سیاسی پارٹی ہے، ایک طرف پاکستان اور قومی یکجہتی کی الم بردار دوسری طرف ووٹ حاصل کرنے کے لئے سندھ اور بلوچستان میں ان قوم پرست جماعتوں سے الحاق جو نظریہ پاکستان کے ہی خلاف ہیں اور جن کے لیڈران ماضی میں یوم پاکستان پر پاکستان کے جھنڈے جلاتے رہے ہیں۔ کرسی کی خاطر یہ پارٹی اور اسکے قائد کسی بھی وقت کسی سے بھی ہاتھ ملانے پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ شریف خاندان پارٹی کی سیاح سفید کے مالک ہیں ، خاندان کے لوگ پارٹی کی تمام اہم عہدوں کے مالک ہیں، مگر دوسری طرف باتیں کی جاتی ہیں جمہوریت کی۔یہ پارٹی بھی اپنے گرد تیس فیصد سے بھی کمِ ووٹرز کو گھیرے رکھتی ہے جو کہ برادری اور ذاتی مفاد پرستی کے اصولوں پر اسِ پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں اور یہ ہی وہ تیس فیصد لوگ ہیں جو الیکشن کے دنِ ان کو ووٹ ڈالنے گھروں سے نکلتے ہیں۔
متحدہ قومی مومنٹ سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی، حیدرآباد، میر پورخاص، اور سکھر کی پارٹی ہے۔ یہ پارٹی زبان کی بنیاد پر اردو بولنے والوں کے حقوق کا نعرہ لے کر وجود میں آئی اور آج بھی الیکشن کے نتائج بتاتے ہیں کہ آج تک انہیں لوگوں کی ترجمانی کر رہی ہے جو کہ پاکستان کی مجموعی آبادی کا بیس فیصد کے لگ بھگ ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کو لیں تو تاریخ گواہ ہے کہ باچہ خان سے لیکر ولی خان تک ، اس پارٹی کے قائدین نے کبھی نظریہ پاکستان کی کھل کر وکالت نہیں کی۔ باچہ خان نے پشاور کی بجائے کابل کو ہمیشہ فوقیت دی۔ ان کو پاکستان یا خیبر پختون خواہ کی اکثریتی عوام کی حمایت کبھی بھی حاصل نہیں رہی۔ ہاں اسِ پارٹی کو بھی تیس فیصد کے لگ بھگ وہی حامیوں کی حمایت رہی جو انِ کے فلسفہ کے پجاری ہیں اور انِ کو ووٹ ڈالنے بھی نکلتے ہیں مگر اسِ پارٹی نے بھی تیس فیصد سے کم ووٹرز کی حمایت سے الیکشن جیت کر پورے پختون خواہ کی ترجمانی کے دعوے کئے ہیں۔
عمران خان کی نئی پارٹی تحریک انصاف صرف عمران خان کے گرد گھومتی ہے۔ عمران خان کے تبدیلی کے نعرہ بہت کششِ رکھتے ہیں ، شہری علاقوں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کے لئے یہ پارٹی بہت سی دلچسپی کے سامان پیدا کر رہی ہے،مگر کیا عمران خان روائتی خاندانی اور قبائیلی سیاست کو ختم کر پائیں گے یہ اب ایک اہم سوال بنتا جا رہا ہے، کیونکہ حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ عمران خان نے بھی پاکستان میں تبدیلی کی بجائے الیکشن جیتے کی حکمت عملی پر زیادہ عمل کیا ہے اور وہی روائتی سیاست شروع کر دی ہے جو کہ دوسری پارٹیاں کر رہی ہیں ۔ اب عمران خان کے پاس بھی وہی بیس سے تیس فیصد لوگ ٹھہرتے نظر آرہے ہیں جو اسِ امید پر ہیں کہ انکا حامی نمائندہ بھی ایک دنِ الیکشن جیت کر اسمبلی میں بیٹھا ہوگا تاکہ انکے کاروبار چل سکیں۔ اسکی وجہ خود عمران خان کا وہ قول ہے کہ کرپٹ نظام کا حصہ بن کر کبھی بھی کرپشن کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔گھوم پھرکے وہی سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کی جیت یہ پیغام دے رہی ہے کہ پاکستانی عوام یا تو اپنے حالات سے مطمعین ہیں یا پھر ان میں قومی احساس اور ذمہ داری دفن ہو چکی ہے۔یہ مجموعی عوام کا بیس سے تیس فیصد حمایت سے چلنے والی پارٹیاں عام آدمی کے لئے کچھ کریں نہ کریں لیکن الیکشن کے دنِ کسِ طرح سے اپنے حامیوں سے ووٹ ڈلوانا ہے اور عام آدمی کو خوف دلا کر یا مایوسی پھیلا کر گھروں میں قید رکھنا ہے بہت اچھی طرح جانتی ہیں۔ انِ تمام پارٹیوں کے پاس ہتھیار کی نمائش اور ان کا استعمال کرکے طاقت کا مظاہرہ کرنا اور شریف لوگوں کو اس کھیل سے دور رکھنااب اسِ جمہوری نظام کا ایک حصہ ہے۔
کسی بھی ملک کے لئے نظام وہ اچھا ہوتا ہے جس سے اس ملک اور قوم کے حالات میں بہتری آئے، عام آدمی کا معیار زندگی بتدریج بلند ہو اور ملک ہر شعبہ اور ہر محاذ پر ترقی کر رہا ہو، نیز بیرونی دنیا سے ملک کے رشتہ مضبوط ہو رہے ہوں دنیا میں ملک کی عزت اور اہمیت میں اضافہ ہو رہاہو۔ پاکستان کی بات کریں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہورہا۔ پاکستان کی اہمیت آج دنیا میں کچھ نہیں بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اقوام عالم پاکستان کے حالات سے فکر مند ہے، اور پاکستان میں دہشتگردی کے ہولناک واقعا ت دیکھ کر پاکستان کے وجود سے خوف کھاتی ہے۔کیا پاکستان آج سے دس یا بیس سال پہلے تک ایسا ہی تھا۔ یقیناًیہ حالات بتدریج بد سے بدتر ہوئے ہیں۔ کسِ حکومت یا ملک کی باگ دوڑ چلانے والے نے پاکستان او ر قوم کے مفاد کو رکھ کر فیصلہ کئے۔ ماضی میں اگر پاکستان کی سالمیت اور قومی مفاد کو سامنے رکھ فیصلہ کئے جاتے تو پاکستان ان مایوس کن حالات تک نہیں پہنچتا۔اگر انِ پارٹیوں کی تشکیل اور انِ کو چلانے کے قوانین سخت کئے جاتے تو آج انِ پارٹیوں کی بدمعاشیاں اور عام آدمی کا ان سے دور رہنا ایک المیہ نہ بنتا۔یہ پارٹیاں جمہوریت کی الم بردار ہیں مگر اپنی پارٹی میں کوئی شفاف جموری عمل نہیں رکھتی، ایک ہی خاندان کے افراد پارٹی کے مالک ہیں۔ان کے نمائندہ جعلی ڈگری رکھنے والے، ٹیکس چور، سزا یافتہ یا پر اسرار قسم کے کاروبار میں ملوث نظر آتے ہیں۔ملک قرضوں میں اسِ طرح سے ڈوبا ہوا ہے کہ قرض ادا کرنے کے لئے بھی قرضے لینے پڑھ رہے ہیں۔آج کونسا ادارہ ہے جس کے متعلق یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں کام کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر پارٹی اور اس کے قائد کے لئے اس کی پارٹی اور اسکا مفاد سب سے اول ہے، ملک اور قوم کی فکر کسِ کو ہے۔
جمہوریت کے نام پر ایک کرپٹ اور ناقص نظام نافظ کرکے اسے جموریت نہیں کہا جا سکتا۔پاکستان میں جو نظام اس وقت رائج ہے وہ چند خاندانوں کی میراث ہے ،جمہوریت کے نام پر پاکستان کے ہر صوبہ میں چند خاند ان دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کر رہے ہیں۔ جمہوریت ہو ،بادشاہت ہو یا پھر فوجی حکومت سب سے اہم بات یہ ہے کہ کیا عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت قائم ہے، کیا ایک عام آدمی کے لئے باعث عزت روزگار میسر ہے، کیا ایک عام آدمی کو بنیادی ضروریات زندگی کی سہولیات درکار ہیں، کیا ایک عام آدمی کو انصاف مل رہا ہے۔ کیا ماں یا بیٹی یا بہو ایک شاہراہ پر بلا خوف پیدل چل سکتی ہے۔ اگر جواب نہیں تو پھر کیا ایسے نظام کو جہوریت کہنا شرم کا مقام نہیں۔
لفظ جمہوریت بنا ہے جمہور سے، جس کے معنی ہیں عوام۔ لحاظہ جمہوریت کا مطلب تو ایک ایسا نظام ہے جو عوام کے مفاد میں ہو مگر پاکستان کے اسِ جمہوری نظام میں تو یہ صرف اور صرف بد عنوان افسران، رشوت خوروں، بد کردار سیاستدانوں ،جابر جاگیرداروں، ظالم چودھریوں ، جنگجو قبائیلی سرداروں یا پھر طاقتور بزنس امپائزز کے لئے ہر طرح کے مواقع ہیں اور غریب اور عام آدمی کے لئے صرف فریاد!
ذرا سوچئے۔
1 Comment
Comments are closed.