بڑے دکھ کی بات ہے کہ اب تو پاکستان کی عدالت عظمی میں بیٹھے انصاف دینے والے بھی پاکستانیوں کی دوھری شہریت پر باتیں کر رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہہ پاکستان میں انُ لوگوں کو دوھری شہریت سے نفرت ہے جنہیں خود زندگی میں دوھری شہریت کے لئے کسی ملک نے پیشکش نہیں کی۔ کیا ہمارے اعلی تعلیم یافتہ اور اعلی منصب پر بیٹھے عزت دار شخصیات کو دوھری شہریت اور غیر ملکیوں میں کوئی فرق سمجھ میں نہیں آتا۔
جب ایک امریکی غیر ملکی، ریمنڈ ڈیوسِ، لاہور کی شاہراہ پر پاکستانیوں کا قتل کرتا ہے تو اس کو عدالت سے بری کراکر با عزت طور پر رخصت کر دیا جاتا ہے اور مقتولین کے لواحیقین کی آوازیں بند کر دی جاتیں ہیں اس وقت ہمارے انصاف دینے والوں کو پاکستان اور غیر ملکیوں میں فرق نظر نہیں آیا اور نہ ہی اعتراض ہوا؟
کیا آج تک ان لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا جن کے پاس دوھری شہریت تو نہیں مگر انہوں نے پاکستان کی قومی دولت لوٹ کر دوسرے ملکوں میں اپنی جائدادیں ضرور بنا ئیں اور وہ آج پاکستان کے سب سے اعلی منصب پربیٹھے اپنے مزید محلات بنانے میں مگن ہیں۔ کیا کبھی انُ لوگوں کو سزا ملی جو ملک سے اپنے جان بچانے کے لئے اسُ فوجی آمر کے خلاف تقریریں کرتے پھرتے ہیں جن سے محاہدہ کرکے بمعہ اہل و عیال دوسرے ملک میں پناہ حاصل، پھر محاہدہ کو پاکستان کی عوام سے خفیہ رکھا اور آج ایک مرتبہ پھر شرافت کا لبادہ اوڑ کر وزات عظمی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ کیا اب پاکستان میں سچ بولنا ، انصاف کے لئے آواز اٹھانا اور عوام کے حقوق کی بات کرنا ایسا جرم ہے ۔
بڑے شرم اور المیہ کی بات یہ ہے کہہ آج ان لوگوں پر انگلیاں اٹھائی جا رہیں جنہیں دوسرے ملکوں نے عزت دی ، اپنی شہریت سے نوازہ اور بدلہ میں ان لوگوں نے پاکستان کا نام اور پیغام دوسرے ممالک میں روشن کیا۔
آج ایک محب وطن پاکستانی جو اپنے وطن سے کوچ کرنے پر اسِ لئے مجبور ہوا کہ وہ وہ اپنے خاندان اور اپنے لئے کچھ کر سکے اور جو پاکستان کے نام کودوسرے ملک میں روشن کرتا ہے مجرم بن گیا ہے؟
اگر آج کوئی محب وطن پاکستانی ہے تو وہ تاریکِ وطن ہیں جن کے پاس دوسرے ملک کی شہریت تو ہے مگر ان کا دلِ و دماغ صرف پاکستان کی سالمیت اور ترقی کے لئے دھڑکتا ہے۔ مگر وہ لوگ کیا سمجھیں گے جو محب وطن کو صرف ایک نعرہ سمجھتے ہیں جس کو استعمال کرکے اپنی دکان چمکاتے ہیں؟ ذرا سوچئے!
سید عتیق الحسن، دوھری شہرت رکھنے والا ایک محب وطن پاکستانی