کراچی میں امن و امان کے مسئلے پر سیاسی پارٹیاں اور حکومتی قائدین ایک مرتبہ پھر نئی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کی باتیں کر رہےہیں؛ جو لوگ خود مسائل کا حصہ ہوں کیا وہ مسائل حل کر سکتے ہیں؟نیز یہ کہ جس نظام کی بنیاد تعصب، لسانیت، اورتقسیم پر رکھی گئی ہو اس نظام کو اوپر سے لپِا پوتی کرنے سے ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔سیاسی بنیاد وں، رشوت کے عوض ِاورکوٹہ سسٹم کی بنیادپر اہم انتظامی محکموں کے اعلی عہدوں پرتقرریوں سے اگر شہر کا نظام تباہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا! آج یہ کہا جارہا ہے کہ کراچی شہر میں طالبان کی آمد کی وجہ سے شہر کا نظام بد امنی، لوٹ مار، اور ٹارگیٹ کلنگ کا شکار ہواہے، تو اسِ سلسلہ میں عرض یہ ہےکہ طالبان تو کراچی سے زیادہ پشاور اور راولپنڈی میں ناصرف آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں بلکہ موجود ہیں وہاں پندرہ سے بیس لوگ روز روزانہ کیوں ہلاک نہیں ہو رہے۔اگر انِ سیاسی پارٹیوں کے اپنے قول و فعل کی بات کریں تو چند مہینے پہلےتک انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر دہشتگردی کے الزامات لگا رتے رہے ہیں اور آج ایک ساتھ بیٹھ کر کراچی میں امن قائم کرنے کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں ۔ ملک کے وزیر اعظم صاحب کہتے وہ تو الیکشن کے دوران کی باتیں تھی اب ہم سب کراچی کے لئے امن چاہتے ہیں؛ تو وزیر اعظم صاحب پہلے اقرباء پروری خود اپنی جماعت کے اندر سے ختم کیجئے آپ نے تو خو د اپنی جماعت ایک فیملی لمٹیڈ کمپنی بنائی ہوہی ہے۔ انِ تمام مداریوں کی کراچی سے سنجیدگی دیکھئے کہ ابھی پہلا اقدام یہ کیا گیا کہ نئے آئی جی کو لانے کے احمکامات جاری کئے گئے ہی تھے کہ اس پر صوبائی حکومت نے اعتراض کر دیا کیونکہ آئی جی کا تعلق پنجاب سے تھا ۔جب تک یہ تعصب کی فضا رہے گی کیا پاکستان میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے؛ خیر یہاں میں بات کررہا ہوں کراچی کی تواصل حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں ایسے نا اہل سیاسی بنیادوں پر تعئینات بد عنوان افسران اعلی عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جو موقع ملے تو پاکستان کو طالِبان تو کیا یہودیوں کو بھی بیچ دیں! زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ سیاسی پارٹیاں جو آج حکومت میں شامل ہیں یا حکومت سے باہرہیں بل واسطہ یا بلا واسطہ نا صرف کراچی اور سندھ میں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں،عدل و انصاف فراہم کرنے میں اور لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ یہ خود مسائل کا حصہ رہے ہیں۔ زبان، رنگ، نسل ، فرقہ واریت اور قوم پرستی کی بنیاد پر سیاست کرنے والی یہ سیاسی پارٹیاں اپنی پارٹی کی بقا اور اس کا مستقبل پہلے اپنے سامنے رکھتی ہیں پھر کراچی یا سندھ کےمسائل کو حل کرنے کی تجاویز پیش کرتی ہیں۔کہا جارہا ہے کہ کراچی کا مسلہ بہت پیچیدہ ہے ، ہاں کراچی کا مسلہ بہت پیچیدہ ہےبلکہ کراچی ہی نہیں پورے سندھ کا مسلئہ پیچدہ ہے اور وہ اسِ لئے کہ انِ سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے اور کراچی یا سندھ کے مسائل کے حل ایک ساتھ طے نہیں ہو سکتے؟
کراچی اور سندھ کے مسائل پرمیں بہت کچھ اردو اور انگلش میں لکھ چکا ہوں اور مختلف وقتوں میں شائع بھی ہو چکا ہے، نیز میں اپنے ریڈیو پروگراموں میں بھی بارہا کراچی کے مسلہ اور اس کا پس منظر پیش کر چکا ہوں ۔لحاظہ آج میں کراچی بشمول سندھ کے مسائل، امن و امان، لوگوں کی جان و مال کی حفاظت اور انکو بنیادی حقوق سے متعلق حل پیش کر رہا ہوں جو کہ میں نے سب سے پہلے ۱۹۸۶ میںسندھ کی سیاست کے عنوان سے قلمبند کئے تھے۔ آج سے تقریباٌ تیس سال پہلےمیں نے جاری جن نا انصافیوں اور لوٹ مارکے نتیجے میں ہونےوالے خطرات کا اظہار کیا تھا آج سچ ثابت ہو رہی ہیں اور تجاویز نا تو نہیں ہیں اور نا ہی ایسی ہیں جن پر عمل درآمد ممکن نہیں بس نیک نیتی،وطن و قوم سے محبت دلِ میں چائیے!
آئیے ایک محبِ وطن پاکستانی اور سیاست سے بالاتر ہوکر کراچی ، سندھ یا پاکستان کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے میری انِ تجاویز پر غور کیجئے اور اسِ پر عملدرآمد کے لئے آواز اٹھائیے ۔ یاد رکھئے کراچی پاکستان کا دلِ ہے اگر کراچی برباد ہوگیا تو پاکستان برباد ہو جائے گااور ہم سب چاہے کوئی بھی زبان بولتےہوں، کسی بھی فرقہ سے تعلق ہو اور پاکستان کے کسی بھی حصہ میں رہتے ہوںمحفوظ نہ رہ پائیں گے۔
کراچی کا حل: کراچی کا نظام دنیا کے باقی بین الاقوامی شہروں کی طرز پر بنانے کی ضرورت ہے؛ جس میں:
۱) کراچی شہر کی شہری پولس ہونا چائیے جس کا سربراہ پولس کمشنرہو اور اس کا تعلق اہلیت کی بنیاد پر کراچی ہو،اسِ شہری پولس میں ٹریفک پولس بھی شامل ہونی چائیے اور کراچی پولس کو ان تمام وسائل اور اختیارات دینے چائیں جو کہ ایک بین الاقوامی شہر کے قانون نافظ کرنے والے اداروں کو ہوتے ہیں۔ شہری پولس میں مقامی لوگ بھرتی کئے جائیں نا کہ دوسرے علاقوں سے سیاسی رشوت کے طور پر بھرتی ہوں۔ اور ہر علاقے میں کمیونٹی پولس کا نظام رائج کیا جائے تاکہ علاقوں میں ہونے والے چھوٹے موٹے جرائم سے لیکر شہر میں بڑے ہونے والے بڑے جرائم، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کو روکا جاسکے۔
۲) کراچی شہرکی سرحدوں یعنی شہر کے اندر آنے والے راستون پر سخت اور جدید آلات سے آراستہ ناکے ہونا چائیں، اور ہر اس شخص کے داخلہ کا ریکارڈ ہونا چائیے جوکراچی کا رہائش پذیر نہ ہو
۳) کراچی میں مربوط اورآزادانہ شہری نظام ہونا چائیے جس میں میڑو شہر کی بنیادپر آزادانہ مضبوط لوکل باڈیز نظام ہو جس کے کونسلرز اور مئیر کا انتخابات منصفانہ جمہوری انتخابات کے ذریعہ علاقے کے شہری کریں۔ کراچی کے ہر علاقے یا قصبہ کی اپنی کونسل ہو جس کے پاس علاقے کی تعمیر و ترقی کے لئے اسکا اپنا بجٹ ہو ۔ یہ بالکل اسی طرح کا نظام ہو جو کہ آج کی دنیا کے کامیاب بین الاقوامی شہروں کا ہے۔
۴) کراچی شہرکی ہر کونسل میں ایک شہری کورٹ ہو جو مقامی مقدمات فوری طور پر نمٹائیں اور لوگوں کو فوری عدل و انصاف فراہم کریں، اس کورٹ میں لوگ میرٹ کی بنیاد پر مقامی ہونے چائیں۔
۵) کراچی شہر میں صنعقت و تجارت کرنے والوں پر اضافہ شہری ٹیکس لاگو ہونا چایئے، جو کراچی میں صنعت و تجارت کے فروغ کے لئے اور اس سے منسلک لوگوں کو اسپیشل مراعات دینے اور شہر کی تعمیر و ترقی پر خرچ ہو ،جس میں بالالخصوص عظیم شاہراہوں کی تعمیر ، پل،اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے پر خرچ ہونا چائیے۔ ضرورت اسِ بات کی ہے کہ اسِ بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو شہر پاکستان کو ساٹھ فیصد سے زیادہ روپیہ کما کر دیتا ہو اس شہر پر خرچ بھی اتنا ہی ہو؛ نہ کہ سندھ کی نام نہاد قوم پرستی کے نام پر نام پر کراچی سے سب کچھ لیا تو جائے مگر خرچ کچھ نہ کیا جائے!
۶) کراچی شہر کے مئیر کا رتبہ اور اختیارات ایک صوبے کے وزیر اعلی جیسے ہونے چائیں جس کے پاس شہر کے نظام کو چلانے کے مکمل اختیارات ہوں۔آج بڑے افسوس کا مقام ہے اورشرم کی بات ہے کہ کراچی صوبہ سندھ کا دارالخلافہ تو ضرور ہے مگر نہ اسِ شہر کاوزیر اعلی بنایا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی اہم وزارتیں اسِ شہر کو دی جاتی ہیں اور پھر سوال یہ کیا جاتا ہے کہ آخر اس ِ شہر کے لوگوں کا مسلہ کیا ہے!
۷) کراچی مئیر، کراچی پولس کمشنر، صوبائ وزیر اعلی، گورنر، آئی جی پولس جیسے اہم لوگوں پر مشتمل ایک ہائی کمانڈ کونسل یا کمیٹی ہو جو شہر میں کسی بھی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لئے اعلی طریقہ سے اور بغیر کسی سیاسی دباو کے فیصلے کرسکے۔
۸) کراچی میں سرکاری اور نیم سرکاری محکموں اور اعلی تعلیمی اداروں میں کسی تقرریاں صرف اور صرف میرٹ کی بنیاد پر ہونے چائیں۔ کوٹہ سسٹم جیسی بد نام زمانہ سسٹم کی لعنت کو نا صرف کراچی بلکہ پورسے سندھ میں سندھ دہی اور سندھ شہری کیتفریق کو ختم کرنا ہوگا جس کا اثر کراچی میں بل واسطہ ہورہا ہے۔نیز کراچی کےتمام تعلیمی ادارےجن میں یونیورسٹیز اور پروفیشنل کالجیز شامل ہیں ہر طرح کے کوٹہ سسٹم اور سیاسی دباو سے آزاد ہونا چائیے اور داخلہ صرف اور صرف میرٹ پر ہونے چائیے۔ وزیر اعظم نواز شریف صاحب آج کراچی کا امن بحال کرنے اور جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کے لئے نئے قوانین پاس کرنے کی بات کرتے ہیں مگر انکو یہ کوٹہ سسٹم نظر نہیں آتا جس کی مدت میں انہوں نےخود خوشی خوشی توسیع کی تھی۔یہی وہ منافقت ہے کہ کراچی کا نوجوان آج قلم کی جگہ بندوق کو فوقیت دے رہا ہے۔
۹) کراچی میں قائم اہم مرکزی ادارے جن میں پی آئی اے، کے پی ٹی، شپنگ اتھارٹیز وغیرہ شامل ہیں تمام سیاسی پارٹیوں کی مسلحط سے آزاد ہونا چائیے۔ یہاں تقرریاں صرف اور صرف اہلیت ، تجربہ اور میرٹ کی بنیاد پر اور پاکستان بھر میں مقابلہ امتحان کی بنیاد پر ہونا چائیے چاہے اس میں پھر پاکستان کے کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھنے والا کامیاب ہوکر آئے۔
۱۰) کراچی شہر کا ترقیاتی بجٹ سندھ کے بجٹ سے الگ ہونا چائیے کیونکہ شہر کراچی کی ضروریات اور تقاضات وہ نہیں ہیں جو دوسرے شہروں کے ہیں اور یہ بجٹ کراچی شہر کی کونسل کے پاس ہونے چائیں۔
یہ دس نکاتی ایجنڈا کوئی نیا نہیں، میں خود اس کو پچھلے بیس سالوں میں کئی مرتبہ میڈیا میں لا چکا ہوں۔ اس ایجنڈے کو کراچی ہی نہیں سندھ اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی نافظ کیا جا سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کریگا کون ؟ یہ سیاسی جماعتی اور انکے قائدین جو خود پاکستان کے مستقبل کے حوالے سےایک سوالیہ نشان ہیں!
جس قوم میں غیرت ، حب الوطنی اور قو ی ذمہ داری زندہ ہوتی ہے وہ اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اپنے اندر سے ایسی قیادت کو سامنے لاتی ہے جو قوم کو اس کی منزل تک پہنچانے کی ضمانت ہو ۔آج پاکستانی عوام بہت سی سیاسی پارٹیوں کے جھنڈوں تلے تقسیم ہیں اور اپنے قائدین کی پوجا کرتے ہیں ! کاش یہ عوام بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی سے کچھ سبق حاصل کرکے اپنے لیڈران کا انتخاب کرتے؟