سید عیتق الحسن، سڈنی آسٹریلیاء
کراچی کے مرکزی حلقہ 246 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں اگر تحریک انصاف نششت لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے یا متحدہ قومی مومنٹ اپنی نششت برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے یا پھر نتائج حیرانکن ہوئے اور جماعت اسلامی یہ نششت جیت جاتی ہے کسی بھی صورت میں کراچی شہرکے موجودہ نظام میں اور عام شہریوں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں۔ مگر اس ِ ایک حلقہ میں ہونے والا انتخاب جن حالات میں ہو رہا ہے اور جس حلقہ میں ہورہا ہے یہ کراچی کے عوام بالخصوص اردو بولنے والوں کے لئے بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ الیکشن کراچی شہر کے دلِ میں بسنے والی عوام کے لئے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ ایک زمانہ تھا جب یہ کہا جاتا تھا کہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام موروثی سیاست ، پیری مریدی ، جاگیرداری ، ذات برادری سے آزاد ہیں اور سیاسی بنیادوں پر اہلیت کے لحاظ سے جماعت اور اسکے امیدوار کا انتخاب کرتے ہیں۔ پھر متحدہ قومی مومنٹ کے قائد الطاف حسین نے
یہ نعرہ لگایاکہ وہ موروثی سیاست ، جاگیرداری اور ہر قسم کے جانبدارانہ نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں اور قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر عام لوگوں کو پارلیمنٹ میں لانا چاہتے ہیں۔ مگر پچھلے تیس سال میں الطاف حسین نے کراچی اور حیدرآباد کی عوام میں اسیُ موروثی اور پیری مریدی کی سیاست کے کلچر کو پروان چڑھایا۔ آج متحدہ قومی مومنٹ اور الطاف حسین کے پاس عوام سے ووٹ لینے کے لئے کوئی بھی ایسی اصلاحات ، ترقیاتی پروگرام یا معاشرتی ترقی نہیں ہے جس کی بنیاد پر وہ عوام سے ووٹ مانگ سکیں، اگر کچھ ہے تو صرف ایک جذباتی نعرہ مہاجر کا اور دوسرا بھائی کا۔ آج عزیز آباد اور لیاقت آباد کا نوجوان اگر متحدہ قومی مومنٹ کو ووٹ دینے کی بات کر رہا ہے یا اگر آج کنور نوید یا متحدہ قومی مومنٹ کے الیکشن مہم ساز اردو بولنے والوں سے ووٹ مانگ رہے ہیں تو اسُ کی وجہ صرف یہ بتا رہے ہیں کہ عزیز آباد اور لیاقت آباد ان کا گڑھ ہے ، الطاف حسین انُ کا قائد ہے ،روحانی پیشوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی باتیں متحدہ قومی مومنٹ سے پہلے سندھ کے دھی علاقوں میں سننے میں آتی تھیں کہ یہ مخدوم والوں کی سیٹ ہے، یہ تالپور والوں کی سیاسی ملکیت ہے، یہ بھٹو کا علاقہ ہے ، یہ جتوئی کا گائوں ہے وغیرہ وغیرہ۔ آج کراچی سینٹرل کا نوجوان صرف اور صرف ایک جذباتی نعرہ کے پیچھے الطاف حسین اور متحدہ قومی مومنٹ کے پیچھے ہے۔ دوسری جانب الطاف حسین اور متحدہ قومی مومنٹ کی اپنی حالت ایسی ہے کہ وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ایک کے بعد ایک مقدمہ کھو لا جارہا ہے اور ہر عقلمند آدمی کو نظر آرہا ہے کہ لندن سے کراچی تک اب الطاف حسین اور متحدہ قومی مومنٹ کا گہرہ تنگ کیا جارہا ہے اور جس پر شاید پاکستان کی ساری جماعتیں اور فوجی قیادت ایک ہیں۔ زمینی حقیقت اور تیس سال کی الطاف حسین اور متحدہ کی سرگرمیوں کا سفر یہ بتاتا ہے کہ آج جن حالات کا شکار الطاف حسین اور انکے ساتھی ہیں اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں۔ کبھی زرداری کے پیچھے، کبھی فوج کے پیچھے، کبھی برطانیہ سے مدد کی درخواست ، کبھی بھارت سے ہمدردی کی مانگ، کبھی اقوام متحدہ میں جانے کی دھمکی، کبھی مہاجر قومی مومنٹ سے متحدہ قومی مومنٹ بنا کر سارے پاکستان کے مظلوموں کی بات کرنا تو کبھی کراچی اور مہاجر کی واحد جماعت کا نعرہ لگا کر کراچی پر صرف اپنا حق جتانا۔ جس جماعت یا لیڈر کی ایک پالیسی نہیں ہوتی اس کی دراصل کوئی پالیسی نہیں ہوتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کراچی اور حیدرآباد کی عوام کو قلم کی اہمیت بتائی گئی ہوتی نا کہ گھر کا سامان بیچ کر بندوق خریدنے کی تلقین، آج یہ انہیں کی اولادیں ہیں جو لوگوں کو مارنے کی قیمت وصول کرکے اسلحہ خریدتے ہیں۔ ہر روز کراچی کے نوجوان مختلف مقدمات میں رینجرز کے ہاتھوں اٹھائے جارہے ہیں، ان کے خلاف مقدمات جھوٹے ہیں یا سچے اس سے درکنار حقیقت یہ ہے کہ یہ اردو بولنے والے ہی ہیں جن کے محفوظ مستقبل کے نام پر الطاف حسین نے انُ سے جماعت اسلامی اور جمیت علمہ اسلام چھوڑنے کو کہا تھا اور کہا تھا کہ آئو تمھارا مستقبل ایم کیو ایم کے پیچھے چلنے میں ہے۔ آج کراچی کے نوجوان کو اسِ بات سے کتنی آگاہی ہے کہ الطاف حسین نے لوگوں کو کیا کہہ کر یہ جماعت بنائی تھی اور انُ مسائل پر ایم کیو ایم نے کتنی کامیابی حاصل کی۔ یقینا آج الطاف حسین اور انکے ساتھی ضرور آج یہ سمجھ گئے ہونگے کہ قلم اور بندوق کی سیاست میں کیا فرق ہوتا ہے۔
کیا کوئ کراچی کا باشندہ اسِ زمینی حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ آج سندھ میں اگر کوئی معاشی یا معاشرتی طور پر بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے تو وہ اردو بولنے والا طبقہ ہے جو آج سے تیس برس پہلے معاشی، تعلیمی، اور معاشرتی لحاظ سے بہت بہتر مقام پر تھا۔ سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والوں کے ساتھ سندھ کی سرکاری ملازمتوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں تعصب کے ایک مسلہ کو لیکر کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے اردو بولنے والوں کو پہلے تو باقی تمام طبقوں سے الگ کرایا اور انکو یہ سبق پڑھایا کہ تم مہاجر ہو، تمھارے ماں باپ نے پاکستان بنایا تھا جس کی سزا تمہیں دی جا رہی ہے۔ مگر اسِ کے بعد کرنا کیا ہے کسی کو نہیں بتایا اور اگر بتایا بھی توچند سرکردہ لوگوں کو تصویر کاایک رخُ دکھایا اور باقی پیچھے چلنے والوں کو کوئی اور سبق پڑھایا۔ بقول متحدہ قومی مومنٹ کے کہ کراچی اور حیدرآباد میں بیس ہزار سے زیادہ لوگوں کا قتل کیا گیا، تو بیس ہزار جانوں کے جانے کے بعد حاصل کیا ہوا۔
246 کی نششت پرعمران خان نے عمران اسمعیل کو کھڑا کر کے تحریک انصاف کے لئے سیاسی اعتبار سے ایک بہت بڑا مارکہ ذمہ لے لیاہے۔ تین دھائیوں سے متحدہ قومی مومنٹ نے جہاں سیاسی راج کیا اور جماعت اسلامی اور جمیت علمہ اسلام جیسی طاقتور مذہبی و سیاسی جماعتو ں کو انکے اپنے سیاسی گھر سے نکال باہر کیا ۔ وہاں پر عمران خان نے اپنی سیاسی طاقت جمانے کا پروگرام بنایا ہے۔ مگر عمران خان کو یہ بات یاد رکھنی چائیے کہ اگر تحریک انصاف کو سندھ کے شہریوں بالخصوص کراچی کے اردو بولنےوالوں کے دلِ جیتنے ہیں اور انکے دلوں سے الطاف حسین کو باہر نکال پھینکنا ہے تو عمران خان کو سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل پر کھُل کر میدان میں آنا ہوگا اور کوٹہ سسٹم سمیت ہر متعصبانہ نظام کے خلاف اپنی جماعت کی پالیسی واضح کرنا ہوگی۔ کراچی شہر کے لئے ایک جامع پروگرام کا اعلان کرنا ہوگا۔صرف اور صرف الطاف حسین پر لان تان کرنے اور متحدہ قومی مومنٹ کے خلاف باتیں کرنے سے کراچی کے لوگوں کے لوگوں سےووٹ حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں نے پچھلے تیس سالوں میں بہت ستم سہے ہیں ، ایک پوری نسل برباد ہو چکی ہے ، نہ نوجوانوں کے لئے تعلیم ہے، نہ لوگوں کے لئے روزگار۔ لحاظہ عمران خان کے لئے ایک بہت ہی سنہری موقع ہے کہہ وہ کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کے لئے اپنے جامع منصوبوں کے اعلان سے لوگوں کے دلِ جیت سکتے ہیں اور ووٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
اسی طرح سے اگر جماعت اسلامی اپنا کھویا ہوا سیاسی مقام کراچی میں واپس حاصل کرنا چاہتی ہے تو جماعت اسلامی کو بھی کراچی کے لئے جامع پروگرام کا اعلان کرنا ہوگا۔ کراچی کے شہریوں کے مسائل پر بات کرنا ہوگی۔پیپلز پارٹی کے معتصبانہ نظام کے خلاف کھل کر بات کرنا ہوگی۔ مرکزی اور صوبائی سرکاری نوکریوں بالخصوص پولس، کسٹم، ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ، پی آئ اے میں سیاسی بنیادی پر تقرریوں کے خلاف اپنی پالیسی واضح کرنی ہوگی ۔ اور ایک ایسے ایجنڈے کا اعلان کرنا ہوگا جس کے تحت کراچی کے نوجوانوں کو پھر سے کوئی مہاجر اسٹوڈینٹس فیڈریشن نہ بنانی پڑے، اور نا ہی کوئی مہاجر قومی مومنٹ یا مہاجر کے نام کوئی اور نعرہ لگانا پڑے۔