Hon Victor Dominello, Minister Citizenship & Multicultural Affairs NSW
Abdul Aziz Uqaili Consul General of Pakistan in Sydney
Hon Kate Lunday Federal Minister Multicultural Affairs, other distinguish guests and hosts at Melbourne’s event
سڈنی کی حدود سے نکل کر میلبورن تک دھوم مچانے والا چاند رات عید فیسٹیول فخریہ طور پر صرف عید کی خوشیاں دوبالاکرنے کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ آسٹریلیا کا ایک منفرد فیملی تفریح ایونٹ بن گیا ہے۔ چاند رات عید فیسٹیول میں نوجوان کی اکثریت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہماری نئی نسل کواہمیت دی جائے اور انکے لئے ہماری روایات کے مطابق تفریح فراہم کی جائے تو وہ بڑھ چڑھ کر اس میں شریک ہوتے ہیں۔ چاند رات عید فیسٹیول نے آج آسٹریلیا بھر میں میل و محبت کا پیغام پھیلایا ہے اور یہ بتایا ہے کہ آسٹریلیا کے مسلمان اپنے تہوار دوسرے کے ساتھ منانا چاہتے ہیں اور اسی پیغام کو غیر اسلامی کمیونٹی نے بھی قبول کیا ہے اور وہ بھی مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشیا ں بانٹنے سڈنی کی چاند رات اور میلبورن کے عید فیسٹیول میں شریک ہوتے ہیں۔ چاند رات عید فیسٹیول آسٹریلیا کے کثیر الثقافتی معاشرہ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
چاند رات عید فیسٹیول آسٹریلیا نے اپنے پندرویں سال میں آسٹریلیا میں شہرت کے جھنڈے گاڑ دئیے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا پہلا فیسٹیول ہے جس کا انعقاد آسٹریلیا کے دو بڑے شہروں سڈنی اور میلبورن میں کیا گیا۔ بروز بدھ مورخہ 7 اگست آسٹریلیا میں چاند رات تھی، سڈنی شو گراؤنڈ اولمپک پارک میں بیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسِ چاند را ت کو پاکستان اور بیشتر اسلامی ممالک کی روائتی سرگرمیوں کی طرح منایا۔ ڈیڑھ سوسے زیادہ مختلف قسم کے خوبصورت اسٹالز، 9 میٹر لمبے اور 6 میٹر چوڑے اسٹیج پر سڈنی کے مایہ ناز فنکاروں کے فن کے بھرپور جلوے اور مختلف قسم کے جھولوں نے آسٹریلیا میں مشرقی روایات کی عظیم عکاسی پیش کی۔
شام 5 بجے سے شروع ہونے والے چاند رات فیسٹیول میں لوگ جوگ در جوگ سڈنی کے دور دارز علاقوں سے آنا شروع ہو گئے تھے۔ گو کہ اس دنِ برسات کا آنا جانا لگا ہوا تھا اور کچھ ٹھنڈ بھی تھی مگر چاندرات کے مداحوں نے ثابت کر دیا کہ ان پر موسم یا ویک ڈیز کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور اب چاند رات انکے لئے عید کی تقریبات کا لاز می جز ہے ۔ اسِ سال چاند رات عید فیسٹیول کی ایک خاص بات یہ تھی کہ یہ میلہ چاند رات کو سڈنی سے شروع ہوا اور 10 اگست کو میلبورن کے مشہور اور بڑے مقام سینڈاؤن ریس کورس پر عید فیسٹیول پر اختتام پذیر ہوا ۔
سڈنی میں میلہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس سال میلہ کی جگہ میں مزید اضافہ کی گیا تھا۔ ایک بہت بڑے ہال میں کھانے 15 بڑے اسٹالز سجائے گئے تھے جن میں سڈنی کی مشہور پاکستانی، ہندوستانی، لبنانی، ترکی، بنگلادیشی، افغانی ریسٹورینٹس کے اسٹالز شامل تھے۔ پاکستانی اسٹالز پرڈھول کے ساتھ روائتی رقص جاری تھے جس پر نوجوان بھنگڑا ڈال رہے تھے۔ایک دوسرے بڑے ہال میں جس میں تین سے چار ہزار لوگوں کی بیک وقت گنجائش تھی ڈیڑھ سو سے زیادہ خواتین ، مردوں اور بچوں کی دلچسپی بالخصوص مہندی اور چوڑیوں کے اسٹالز سجائے گئے تھے۔ھال کے اطراف اور باہر کھلی جگہ پر مختلف کمپنیوں ، حکومتی اداروں اور دوسر ی ضرویاتِ زندگی کی چیزوں کے اسٹالز تھے ۔ درمیان میں ایک بہت بڑے گھاس کے لان میں اسٹیج سجایا گیا تھا ۔ جس کے سامنے تین سے چار ہزار لوگوں کے کھڑے ہونے کی جگہ تھی۔ اس کے علاہ ایک اور حصہ میں بڑے اور بچوں کی دلچسپی کیلئے جھولے اور گیمز لگائے گئے تھے۔ غرض کہ پورا سماں صدیوں سے چلی آرہی ثقافت کی عکاسی کر رہا تھا۔ وقفہ وقفہ سے بارش کے باوجود کئی وفاقی اور صوبائی وزیروں اور سیاستدانوں نے بطور مہمانِ خصوصی اس میلہ میں شرکت کی جن میں صوبائی وزیر داخلہ وکٹر ڈومینیلو، سینیٹر لوری فرگوسن، وفاقی میمبر پارلیمنٹ جولی اونز شامل تھیں۔ مہمانوں نے اپنی تقاریر میں کہا کہ چاند رات عید فیسٹیول کا آسٹریلیا کے دو بڑے شہروں میں انعقاد اور اس میں اسلامی کمیونٹی کے ساتھ ساتھ دوسرے عقیدے کے لوگوں کی والہیانہ شرکت نے چاند رات عید فیسٹیول کو ایک قومی تہوار بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاند رات عید فیسٹیول آسٹریلیا کے ملٹی کلچرل معاشرہ میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔مقریرین نے کہا کہ جس طرح سے اسِ کی مقبولیت میں ہر سال غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے وہ دنِ دور نہیں جب یہ آسٹریلیا کے چند بڑے پروگراموں میں سے ایک ہوگا ۔ مقررین نے کہا کہ آسٹریلیا کو اسِ بات پر فخر ہے کہ یہاں مسلمان اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے آزادی کے ساتھ اپنے تہوار مناتے ہیں اور میلے سجاتے ہیں اور ان میں تمام لوگ ہی بلا تفریق شرکت کرتے ہیں۔پروگرام میں پاکستان کونسل جنرل سڈنی جناب عبدل العزیزاوقیلی نے بھی بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ جناب اوقیلی صاحب نے اپنی تقریر میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ چاند رات عید فیسٹیول پر تمام پاکستانیوں کو فخر ہے ، اسِ میلہ نے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ انہوں نے منتظمین بالخصوص سید عتیق الحسن اور ثریا حسن کو چاند رات عید فیسٹیول کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کی۔
فیسٹیول میں تقریباچھ گھنٹے دورانیہ کا رنگا رنگ پروگرام پیش کیا گیا جس میں صوفی قوالی، پاکستانی و ہندوستانی اور فوک گیت پیش کئے گئے۔ اسِ کے علاوہ آسٹریلیا کے اسٹیج کے مشہور مزاحیہ اداکار سیم میکول نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ سیم میکول میری ٹائم نیو ساؤتھ ویلز کے لائف جیکٹ پروگررام پر بھی ایک گروپ کے ساتھ ٹیبلو پیش کیاجس سے پنڈال میں موجود لوگ بہت لطف اندوز ہوئے۔
Comedian Sam McCool performing Maritime Life Jacket demo with a child at Sydney event
People at Downes pavilion in front of Food Stalls at Sydney Event
People watching variety show at Horden Lawns at Sydney Event
People enjoying at Melbourne event
سڈنی کا میلہ رات دیر تک جاری رہا۔ اور پھر لوگوں نے دوسرے دنِ یعنی جمعرات کو عید منائی۔ کچھ لوگوں نے جمعہ کے دنِ بھی عید منائی۔
چاند رات کا میلہ ختم ہوا تو میلبورن کی فضاؤں میں عید فیسٹیول کی آوازیں گردشِ کرنے لگیں۔ سڈنی کی چاند رات کی کوریج میلبورن کے لوگ آسٹریلیا کے قومی ٹی وی پر دیکھ چکے تھے لحاظہ میلبورن کے لوگوں میں عید فیسٹیول کی جستجو عروج پر تھیں۔ لحاظہ بروز ہفتہ مورخہ 10 اگست جب سینڈاؤن ریس کورس کے دروازے عید فیسٹیول کے لئے کھولے گئے تو باہر لوگوں کی لمبی قطاریں اندر آنے کے لئے بے تاب تھیں۔ بچے ، عورتیں، مرد ، بوڑھے غرض سب ہی عید فیسٹیول منانے یہاں پہنچے ہوئے تھے۔ میلبورن میں یہ پہلا موقع تھا کہ اسِ نوعیت کا عید فیسٹیول منعقد ہورہا تھا اس سے پہلے عربی ، ترکی اور افریقی کمیونٹیز عید فیسٹیول معنقد کرتی تھیں مگر پاکستانی یا برصغیر کا روائتی عید میلہ یہاں منعقد نہیں ہوتا ہے۔ میلبورن کے عید فیسٹیول کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں پاکستانیوں کے بعد سب سے زیادہ افغانی موجود تھے، پھر بھارتی
اور دوسری کمیونٹی کے لوگ بھی موجود تھے۔ گو کہ یہ میلہ پہلی مرتبہ ہو رہا تھا مگر پھر بھی ساٹھ سے زیادہ اسٹالز سجائے گئے تھے جس میں 15 کھانے کے اسٹالز تھے جس میں پاکستانی، ہندوستانی، عربی، ترکی کھانوں کے اسٹالز شامل تھے۔ عورتوں کی پسند کے چالیس سے زیادہ اسٹالز ایک بڑے ہال لگائے تھے جس میں کپڑوں، جیولری، چوڑیوں اور مہندی کے اسٹالز نمایا ں تھے۔ہال کے باہر ایک بہت بڑے شیڈ کے اندر ایک بڑا اسٹیج سجایا گیا تھا جس پر رنگا رنگ وارئٹی پروگرام جاری تھا، اس حصہ کے ایک طرف کھانے کے اسٹالز اور دوسری طرف اسپانسرز اور مختلف کمپنیوں کے اسٹالز لگائے تھے۔ میلبورن میں عید فیسٹیول کی خاص بات یہ تھی کہ اسِ میں آسٹریلیا کا قومی ریڈیو اسٹیشن ایس بی ایس اپنی برائے راست نشریات کے لئے منی اسٹیشن گاڑی لیکر آئے ہوئے تھے جس سے اردو، پنجابی اور پشتو میں عید فیسٹیول کی کوریج کی جا رہی تھی۔ اس گاڑی کے اگلے حصہ میں ایک چھوٹا اسٹیج تھا جہاں سے اناؤنسر اپنا پروگرام پیش کر رہے تھے اور لوگوں سے پروگرام کے حوالے تعاثرات لے رہے تھے۔
میلبورن کے اسِ عید فیسٹیول کی مہمان خصوصی وفاقی وزیر ملٹی کلچرل افئیرز کیٹ لنڈی تھیں۔ جنابہ کیٹ لنڈی وزیر اعظم آسٹریلیا کی نمائندگی کر رہی تھیں۔انہوں نے اپنی تقریر کے دوران وزیر اعظم آسٹریلیا کیونِ رڈ کا چاند رات عید فیسٹیول کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔ اسِ پیغٖام میں وزیر اعظم نے مسلمانوں کو عید کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ چاند رات عید فیسٹیول نے سڈنی سے میلبورن تک اسلامی اور غیر اسلامی کمیونٹیز کو ملانے کا کام سرانجام دیا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں کہا کہ چاند رات عید فیسٹیول ہمارے بھائی چارے، دوستی، اور قومی اتحاد کی ترجمانی کرتا ہے۔عید فیسٹیول میں میلبورن کی مقامی تنظیموں بالخصوص پاکستانی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پروگرام کے ڈائیریکٹرسید عتیق الحسن نے کہا کہ میلبورن کے لوگوں نے جس طرح سے چاند رات عید فیسٹیول کو خوش آمدید کہا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے خاص طور پر مقامی پاکستانی تنظیموں اور میلبورن کے کوارڈینیٹر علی اعوان کو ان کی عید فیسٹیول کے انعقاد کے لئے اعلی کارکردگی پر چاند رات ایوراڈ بھی پیش کیا۔
چاند رات عید فیسٹیول کی تیزی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور ایک اسلامی کمیونٹی کا تہوار ہونے کے باوجود غیر اسلامی کمیونیز کا اسِ میں غیر معمولی دلچسپی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے شریک ہونے پر وکٹوریہ کی مشہور ڈیکنِ یونیورسٹی کے شعبہ شہریت ،آرٹس اور ایجوکیشن نے چاند رات عید فیسٹیول کو اپنے ایک ریسرچ پروگرام کا حصہ بنایا ہے۔ اسِ سلسلے میں شعبہ کی ایک ریسرچ فیلو نے سید عتیق الحسن کا چاند رات عید فیسٹیول کے حوالے سے تفصیلی انٹرویو بھی ریکارڈ کیاجس میں چاند رات عید فیسٹیول، اسلامی تہوار، اسلام اور آسٹریلیا کے مسلمانوں کے بارے میں تفصیلات حاصل کیں۔ اس ریسرچ کو ڈیکن یونیورسٹی اپنے بین الاقوامی پبلیکیشن میں شائع
کریگا۔
Comments are closed.