بقلم سید عتیق الحسن
میرا تجزیہ غلط ہو سکتا ہے میری تحریر میں ذاتی پسند یا ناپسند شامل ہو سکتی ہے مگر پچھلے تیس سال کے وہ حقائق اور واقعات غلط نہیں ہو سکتے جسِ نے سندھ کی تاریخ میں بھیانک سیاست رقم کر دیا ہے۔ 1988 سے 2013 تک کے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سیاسی جوڑ توڑ ، دونوں پارٹیوں کے قائدین کے درمیان خفیہ ملاقاتیں اورپھر عوامی جلسوں میں ایک دوسرے کو اخلاق سے گریِ ہوئی حد تک برا بھلا کہنا ، پھر سندھ کے پارلیمان میں کبھی ایک ساتھ بیٹھنا اور کبھی مخالفت کرنا، کبھی ایوان میں کسی مسودہ پر مخالفت کا ڈرامہ رچانہ اور پھر منظور بھی ہو جانا، کبھی سندھ کے گورنر کا اچانک ملک سے چلے جانا، کبھی ایم کیو ایم کےقائد کا پیپلز پارٹی کو چھوڑنے کی دھمکی دینا اور کبھی پیپلز پارٹی کےقائدین کا اچانک لندن میں خفیہ ملاقاتیں کرنا ، کیا یہی سیاسی جماعتوں کا طریقہ کار ہوتا ہے اپنی عوام کے مفاد میں کام کرنے کا؟
کتنی مرتبہ پاکستان مسلم لیگ نے کانگریس سے مسلمانوں یا پاکستان کے لئے خفیہ ملاقاتیں کی تھیں، کتنی مرتبہ محمد علی جناح نے موہن داس کرم چند گاندھی سے خفیہ ملاقتیں کیں تھیں اور کتنی مرتبہ ایک دوسرے کو برا بھلا کہا تھا اور پھر ایک دوسرے کے ساتھ ہوگئے تھے؟ جو غلط ہوتا ہے وہ کمرہ کے اندر بھی غلط ہوتا ہے اور کمرہ کے باہر بھی غلط رہتا ہے۔سلسلہ وار یکہ بعد دیگرے حالات اور واقعات کو اگر پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کے رشتہ اورہونے والے محاہدوں اور اختلافات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سندھ میں اپنے اپنے سیاسی حلقوں میں سندھ میں حکمرانی کے لئے ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، جس کے لئے ان دونوں جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ کبھی دوستی اور کبھی دشمنی کا ڈرامہ کیا جائے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے دونوں میں ایک یا پھر دونوں کبھی اقتدار میں اور کبھی حزب اختلاف کی نشستوں پر جمے رہیں گے اور کوئی تیسری سیاسی قوت نہیں ٹھہر پائے گی۔ اگر فرق پڑتا ہے تو صرف
صرف سندھ کی عوام کو پڑتا ہےجس کو پچھلے تیس سالوں میں سوائے دلاسوں کو کچھ نہیں ملاِ۔ چاہے اردو بولنے والوں ہوں یا سندھی بولنے والے اپنے جذباتی عمل سے انِ دونوں پارٹیوں کے استحصال کا شکار رہے ہیں۔ ایک جماعت بھٹو ازم کے نام پر اور بھٹو زندہ ہے کا نعرہ لگا کر سندھ کے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے ، تو دوسری جماعت تحریک کے نام پرسندھ اور پاکستان کی محبت وطن اردو بولنے والی قوم کو دیوار سے لگا ئے جارہی ہے۔
اگر سندھ کے عوام چاہے اردو بولنے والے ہوں یا سندھی بولنے والےاپنے جذبات اور ذاتی پسند یا نا پسند کو ایک طرف رکھ عام آدمی ، سندھ اور پاکستان کو سامنے رکھ کر ماضی کا مطالعہ کریں تو یہ کوئی مشکل چیز نہیں جو سمجھ میں نا آسکے کہ سندھ کی حکمرانی کے لئے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم آپس میں گٹھ جوڑ جسے عام زبان میں آج کل ْ ٹوپی ڈرامہٗ کہا جاتا ہےکئے ہوئے ہے۔ یہ دونوں جماعتیں سندھ میں پچھلے تیس سال سے حکمرانی کرتی چلی آرہی ہیں، اور ویسے تو آج کل قومی سیاست میں بھی ملک پر حکمرانی کا یہی طریقہ اپنایا جا رہا ہے کہ اندر سے کمروں میں بیٹھ کر سودے بازی کرو اپنے اور اپنی جماعت کے مفاد میں اور باہر عوام میں آکر وہ کچھ کہوں جو اندر طے کیا تھا کہ عوام کوکیسے اور کیا بتانا ہے!
1972 میں سندھ میں پیپلز پارٹی نے لسانی بلِ سندھ اسمبلی میں لا کر سندھ کی عوام کو زبان کی بنیاد پر پہلی مرتبہ تقسیم کیا اور پھر سندھ دیہی اور سندھ شہری کی بنیادپر سرکاری نوکریوں اور اعلی تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کی لعنت متعارف کراکر سندھ کی عوام کو تقسیم کیا۔ الطاف حسین نے کرُتا پاجاما پہن کر مہاجر پانچویں قومیت کا نعرہ لگا کر کراچی کے نشتر پارک سے8 اگست 1986 سے اپنی اور ایم کیو ایم کی سیاست کا آغاز کیا اور پھر آج سندھی ٹوپی اور اجرک کا ڈرامہ رچاکر سندھ کی دھرتی کا سپوت ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کیا سندھ سے وفادری اور زمینی رشتہ کے لئے کوئی مخصوص لباس پہن کر ثابت کرنا ضروری ہے؟
ایم کیو ایم نے 1987 میں لوکل باڈیز کے الیکشن سے اپنی سیاست کا آغاز کیا اورکراچی اور حیدرآباد کی مقامی کونسلوں میں بھاری تعداد میں کامیابی حاصل کرکے اپنے کونسلرز اور میئر لانے میں کامیاب ہوگئ۔کیونکہ ایم کیو ایم سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن میں رجسٹر نہیں تھی لحاظہ 1988 کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے حق پرست کے نام سے بحیثیت آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیا اور سندھ کی شہری سیاست میں کلیدی کرادر ادار کیا ،جماعت اسلامی اور جمیت علما اسلام کا مذہب کے نام پر ووٹ کو لسانی بنیاد پر ووٹ بینک میں تبدیل کر دیا۔الطاف حسین کے حق پرستوں کو سندھ کے اردو بولنے والوں کا ووٹ مِلنا ، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی کی طرف سے ْسندھیٗ کی بنیاد پر سیاست کرنا ایوان میں لسانی بلِ لانا اورکوٹہ سسٹم نافظ کرنے پر ردعمل سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔
1988 میں الطاف حسین اور بے نظیر کے درمیان سب سے پہلے ایک 59 نکاتی محاہدہ کیا گیا جسے کراچی محاہدہ کا نام دیا گیا اور یہ وعدہ کیا گیا کہ محاہدہ میں شامل نکات پانچ سال میں نافظ کئے جائیں گے۔ یہی آج کے وزیر اعلی قائم علی شاہ
انُ افراد میں سے ایک تھے جو بے نظیر اور الطاف حسین کی جوڑ توڑ میں اسُ وقت پیش پیش تھے اور پی پی پی اور ایم کیوایم کے اتحاد کی وجہ سے سندھ کے اسُ وقت پہلی مرتبہ وزیر اعلی بنے۔اسُ 59 نکاتی محاہدہ میں سے کسی ایک پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا مگر اسُ محاہدہ کے بعد ایم کیو ایم کے کئی افراد جن میں عظیم طارق بھی شامل تھے قتل کر دیے گئے جن کے قاتلوں کا آج تک پتہ نہیں چل سکا، خیر قتل تو اور بھی بہت سی شخصیات ہوئی آج تک کسِ کے قاتلوں کا پتہ چلا ہے۔1988 میں الطاف حسین نے بے نظیر کو ملک کی پہلی وزیر اعظم بننے اور پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے میں بالکل اسی طرح ساتھ دیا جس طرح سے 2007 میں آصف علی زرداری کو اور اسُ کی پیپلز پارٹی کو سابق صدر پرویز مشرف سے اقتدار لینے اور ملک کی حکمرانی کرنے میں دیا۔ ایک سال بعد ہی یعنی 1989 میں الطاف حسین نے بے نظیر کو چھوڑ دیا یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے بے نظیر نے الطاف حسین کو چھوڑ دیا کیونکہ بات ایک ہی ہے اور حزبِ اختلاف کا کردار اپنا لیا۔1992 میں الطاف حسین نے پاکستان سے لندن کا رخُ کیا اور وجہ رخصتی علاج معالجہ بتائی گئی۔
1993 میں پاکستان میں انتخابات ہوتے ہیں ایم کیو ایم فیصلہ کرتی ہے کہ قومی انتخابات میں بائیکاٹ کریگی اور صوبائی میں حصہ لے گی اور ویسا ہی کیا گیا۔ا یم کیو ایم یہ انتخابات مہاجر اور مہاجر قومیت کے نام پر لڑا ۔ دوسری طرف بےنظیر نے مظلومیت اور بھٹو ازم کے نام پر سندھی ووٹ لئے ۔ ایم کیو ایم نے 27 نشستیں حاصل کیں اور پی پی پی نے 56 نشستیں حاصل کیں۔ اسِ صوبائی انتخابات کے بعد ایم کیو ایم میں اندورنی انتشار پیدا ہوا اور ایم کیو ایم سے ایم کیوایم حقیقی کا جنم ہوا۔ دونوں گروپوں کے درمیان خونریز لڑائیاں ہوئیں اور اس ُ وقت کی خبروں مطابق مختلف واقعات میں 1800 سے زیادہ لوگ مارے گئے جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ان ہی واقعات میں یکم مئی 1993 میں اسُ وقت کے چئرمین ایم کیو ایم عظیم طارق کا پر اسرار قتل بھی تھا۔پی پی پی سندھ میں اقتدار میں رہی اور ایم کیو ایم حزب اختلاف کی نشستوں پر۔ دونوں جماعتوں کےقائدین کی طرف سے مسلسل متعصبانہ تقاریر اور اردو اور سندھی بولنے والوں کو تقسیم کرنے سیاست عروج پر رہی۔پھر بے نظیربھٹوکی حکومت پر کرپشن کا الزام لگا کیونکہ انکے شوہراور سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری جو مسٹر ٹین پرسنٹ کہلاتے تھے کے کارنامے بین الاقوامی سطح پر منظر عام پر آنے لگے تھے۔ بے نظیر کی حکومت ختم کر دی گئی اور ملک میں 1997 میں پھر انتخابات کا انعقاد ہوا۔ انتخابات میں بے نظیر کی پی پی پی کو نواز شریف کی مسلم لیگ کے ہاتھوں شکست ہوتی ہے اور بے نظیر بھٹوپاکستان چھوڑ کر خود ساختہ جلاِ وطنی پر ملک سے چلی جاتیں ہیں۔ ادُھر لندن سے بیٹھ کر الطاف حسین نے اب مہاجر، کرتا پاجامہ اور پانچویں قومیت مہاجر کی سیاست کو بند کرنے کا فیصلہ کیا اور قومی دھارے کی سیاست میں شامل ہونے کا نعرہ لگا کر مہاجر قومی مومنٹ کا نام متحدہ قومی مومنٹ رکھ دیا۔مگر پہلے بھی ایم کیو ایم تھی اور تبدیلی کے بعد بھی ایم کیو ایم۔ مگرماضی کے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان کراچی والوں کے لئے محاہدے ، کوٹہ سسٹم سب کو اب بالائے طاق رکھ دیا گیا ۔کیونکہ اب انِ مسائل پر سیاست کرکےپارٹی کو زندہ رکھنا مشکل نظر آرہا تھا۔ دوسری جانب تین سال کی سابقہ ایم کیو ایم دشمنی اب بے نظیر کے لئے پرانے سکے کی طرح تھی لحاظہ ایک مرتبہ پھر 180 ڈگری کا موڑکاٹا گیا ، دوستی کی باتیں کی گئیں، سندھی عوام کی یکجہتی کے راگ الاپے گئے۔ نواز شریف کے دورِ حکو مت میں کراچی میں فوجی آپریشن، ایم کیو ایم الطاف اور ایم کیو ایم حقیقی کے درمیان جھڑپوں میں ہلاکتیں، 17اکتوبر 1998 کو حکیم سعید جیسے نامور شخصیات کا پر اسرار قتل ایسی حقیقتیں تھیں کہ اب پیپلز پارٹی سےمخالفت اور نوازشریف کی حکومت اور اتحاد میں رہ کر انتخابات میں جانا اور ووٹ مانگنا الطاف حسین کے لئے اگلے الیکشن میں مشکل نظر آرہا تھا ۔
1997 میں متحدہ قومی مومنٹ نے حسبِ روایت سندھ کی شہری نشستیں اردو بولنے والوں کے ووٹ بینک سے حاصل کیں اور قومی سیاست میں حصہ لینے کا آغاز کیا۔ مگر اردو بولنے والوں کے روزِ اول کے مسائل اب تک جوں کے توں تھے مگر اب ایم کیو ایم کے لئے انُ پر بات کرنا قومی دھارے کی سیاست کے لئے کارآمد سیاست نہیں تھی ورنہ ایم کیو ایم سے پہلے جماعت اسلامی اور جمیت علما اسلام جو سندھ کے شہری علاقوں کی من پسند جماعتیں تھیں یہ کام کر چکی ہوتیں۔
نواز شریف کی حکومت کو سابق جنرل پرویز مشرف نے ختم کرکے ملک میں ہنگامی حکومت یا فوجی حکومت نافظ کر دی جس کی اپنی وجوہات ہیں جو اسِ وقت موضوع بحث نہیں ہے بارحال پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو الطاف حسین نے لبیک کہا اور اس کا بھر پور ساتھ دیا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی ایم کیو ایم کو سہارا دینے اور طاقتور بنانے میں کوئی کمی نہ اٹھائی۔ پہلی مرتبہ ایم کیوایم کا گورنر سندھ عشرت العباد کو تعئنات کیا گیا جو آج بھی قائم و دائم ہیں۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایم کیوایم کو پورا موقع ملاِ کہ وہ ان مسائل اور معاملات پر کام کرتی جس کی بنیاد پر سندھ کے اردو بولنے والوں کے ووٹوں سے ایم کیو ایم پروان چڑھی تھی اور ساتھ ہی مجوعی طور پر سندھ کے تمام طبقوں کے لئے اصلاحاتی کام کرتی۔ ایم کیو ایم کو گورنر سمیت خاص وزارتوں سے نوازہ کیا ۔ مگر افسوس کے صرف اور صرف سیاست کی گئی اپنی جماعت کو مضبوط کیا گیا۔ بالکل اسیُ طرح جیسے آج پی پی پی سندھ میں کر رہی ہے۔کراچی ، حیدرآباد اور سکھر کے مئیر ایم کیو ایم کے تھے انِ شہروں میں کیا انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں اور کنتا کچھ اسُ 59 نکاتی کراچی ایجنڈہ پر کام کیا گاجو ابتدا میں کیا گیا تھا؟ کراچی کے مئیر مصطفے کمال کی تعریفوں کے پلُ باندھے جاتے ہیں تو اس کا جواب سیدھا اور آسان یہ ہے کہ سنگا پور، ملیشیا، بنکاک کو دیکھ لیا جائے جو ایک زمانے میں کراچی سے بہت پیچھے تھے اسے کہتے ہیں انقلابی ترقی اور لوگوں کے لئے سہولیات کی فراہمی۔
2008 کے نتیجہ میں آصف زرداری اور اسکی پی پی پی کو اقتدار میں آنے کےلئے ایک مرتبہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی ضرورت تھی۔ آصف علی زرداری نے پہلے لندن اور پھر فیڈرل بی ایریا کراچی نائن زیرہ پر جاکر جئے الطاف کا نعرہ لگایا، الطاف حسین نے زرداری کو فون پر بڑا بھائی کہا جو ساری عوام نے سنا۔ دونوں پارٹیوں نے ایک مرتبہ پھر سندھ کے عوام کے مفاد اور سندھ کی یکجہتی کے قصیدے پڑھے۔ ایم کیو ایم کو کچھ وزارتیں دی گئیں ، سندھ حکومت میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مگر اردو بولنے والے یا سندھی بولنے والے عام آدمی کو کیا ملاِ۔ کیا ان کی زندگی میں کچھ بہتری آئی ہاں بدلائو ضرور آیا کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ پس ماندگی کا شکار ہوئے اور آپس کے خلیج میں اضافہ ہوا۔
معاشرے کے مختلف طبقوں میں ہم آہنگی تقریروں ، نعروں ، سیاسی محاہدوں اور اقتدار یا حزبِ اختلاف کی نشستوں پر بیٹھنے یا پھر جلسے جلسوں، ہڑتالوں، ریلیوں، خطابوں یا پریس کانفرنسز سےعام آدمی کی زندگی بہتر نہیں ہوتی بلکہ عملی طور پر عام آدمی کے مفاد میں اصلاحات نافظ کرنے سے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری آتی ہے۔آج سندھ کے عوام دو پارٹیوں کے ہاتھوں میں یر غمال ہیں اور یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہہ اگر انہیں ووٹ نہیں دیا تو پھر اس سے زیادہ موت ہے۔یہ کسی بھی قوم کا وہ ذہنی اسٹیج ہوتا ہے جب وہ جیتے جی مر چکی ہوتی ہے۔ سندھ کے اردو بولنے والوں کو پچھلے تیس سالوں میں اگر کچھ ملاِ ہے تو صرف دلاسے، آنسو، خوف اور عدم تحفظ۔ سندھ کے سندھی بولنے والوں کو اگر کچھ ملاِ ہےتو صرف اور صرف دھوکہ بازی اور فریب۔ اگر کوئی بے حال ہے اور جیتے جی مر چکا ہے تو وہ سندھ کا عام آدمی ہے چاہے سندھی بولتا ہویا اردو ۔
اردو بولنے والوں کو پانچویں قومیت سے شروع کرکے آج کسی قومیت کا بھی نہیں چھوڑا اور سندھ کے سندھی بولنے والوں کو بھٹو ازم اور روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیکر ان سے روٹی کپڑا اور مکان چھین لیا گیا ۔
کاش کہہ یہ بات سندھ کی بھولی عوام کو سمجھ میں آتی۔ بدقسمتی سےپچھلے تیس سالوں میں سندھ کی انِ دو لسانی قوتوں کو جو کینڈا کی طرز پر سندھ کا عظیم کلچر ، ثقافت اور تہذیب ہو سکتی تھی جس کے پیچھے پاکستان کی بنیاد کی عظیم تاریخ ہے مگر آج انِ دوجماعتوں نے انِ کے درمیان ایک ایسی سیاسی تقسیم کر دی ہے جو اب شاید ختم نہ ہو سکے۔ فیصلہ سندھ کے عوام نے کرنا ہے، ایک ساتھ رہ کر سندھ کی ترقی اور اپنی بہتری کے لئے کام کرنا ہے یا پھر تقسیم کی سیاست کرکے سندھ کو دو حصو ں میں تقسیم کرنا ہے جس طرح سے مشرقی پاکستان الگ ہوا ادھرِ تم اور ادھر ہم کے نعرہ لگائے گئے۔ اگر دھیان اور جذبات سے ہٹ کر غور کیا جائے تو آج بھی ان ہی کرداروں باقیات سرگرمِ عمل ہیں۔