محمد عبد الحميد
ڈھول کي آواز بہت اونچي ہوتي ہے ليکن اندر سے خالي ہوتا ہے? يہي صورت سپريم کورٹ کے بلند باگ دعووں کي ہے? اگر کچھ لوگوں کو ابھي تک خوش فہمي تھي تو وہ دور ہو گئي کہ سپريم کورٹ ميں صرف آئين اور قانون کے مطابق فيصے ہوتے ہيں، “چاہے آسمان گر پڑے?”
عدالت: قادري صاحب کے کسي بنيادي حق کي تلفي نہي ہوئي
عدالت کا کہنا ہے کہ طاہر القادري صاحب کے کسي بنيادي حق کي تلفي نہيں ہوئي? اگر عدالت لکير کي فقير نہيں تو اسے آئين کي دفعہ 17(2) پر غور کرنا چاہيئے? اس دفعہ ميں ہر شہري کو سياسي جماعت کا رکن بننے کا حق ديا گيا ہے? اگر اپني پسند کے اميدوار کو ووٹ دينے کا حق اس ميں شامل نہيں تو پھر سياسي پارٹي کا رکن بننے کا کيا فائدہ ہوگا؟ (يہ تو وفاقي وزير احمد مختار والي بات ہوگي کہ امريکہ کے ڈرون ہمارے ہوائي اڈوں پر اتر تو سکتے ہيں ليکن وہاں سے اڑ نہيں سکتے?)
اگر پسند کے اميدوار کو ووٹ دينے کا حق تسليم کر ليا جائے تو ہر ووٹر کا حق بنتا ہے کہ اليکش کا انتظام کرنے والا کمشن آئيني طريقہ سے قائم ہو، آزاد ہو، بغير تعصب اور طرف داري کے اميدواروں کي اہليت کا جائزہ لے اور پولنگ کا عمدہ انتظام کرے? اگر اليکشن کمشن يہ سب کچھ نہ کرے تو ووٹر کيسے پسند کے اميدواروں کو ووٹ دے سکے گا؟ کيا يہ اس کے بنيادي حق کي تلفي نہيں ہوگي؟ کيا سپريم کورٹ کي سمجھ ميں يہ نہ آيا يا وہ سمجھنا ہي نہ چاہتي تھي؟
بنيادي حق کے ساتھ ہي دفعہ 184 ميں عوامي اہميت کا بھي ذکر ہے? کيا اليکشن کمشن کي صحيح طرح سے تشکيل ملک بھر کے کروڑوں ووٹروں کے ليئے عوامي اہميت کا سوال نہيں؟ عدالت کو يہ کيوں نظر نہ آيا؟
عدالت: قادري صاحب کو اليکشن کمشن پر شک کيسے ہو گيا؟
عدالت نے پوچھا کہ قادري صاحب دسمبر ميں آئے اور آتے ہي انھيں اليکشن کمشن کي تشکيل پر کيسے شک ہو گيا؟ اس ميں حيراني والي کون سي بات ہے؟ ايس? ايم? ظفر صاحب کے سوا يہاں رہنے والے کتنے وکيلوں اور سياست کاروں نے کہا کہ کمشن کي تشکيل صحيح طرح نہيں ہوئي؟ اگر کسي اور نے مصلحت يا لاعلمي کي بنا پر شک ظاہر نہيں کيا تو اس سے قادري صاحب کا کمشن پر اعتراض کيسے ختم ہو جاتا ہے؟ پھر ق ليگ نے حال ہي ميں ہونے والے ضمني انتخابات ميں اليکشن کمشن سے کئي شکايات کيں ليکن شنوائي نہ ہوئي? کيا اس سے ثابت نہيں ہوتا کہ کمشن غيرجانبداري سے کام نہيں کر رہا؟ پھر کيا دوسري سياسي جماعتوں کا اعتراض نہ کرنا کمشن کو صحيح ثابت کرتا ہے؟ کيا سپريم کورٹ اب گيلپ سروے کرا کے کسي کام کے قانوني يا غيرقانوني ہونے کا فيصلہ کيا کرے گي؟
عدالت: قادري صاحب کي نيت پر شک ہے
اگر سپريم کورٹ طاہر القادري يا کسي اور سائل کي نيت پر شک کر سکتي ہے تو کيا خود ججوں کي نيت پر شک نہيں کيا جا سکتا؟ عدالت نے نواز شريف کے ہائي جيکنگ کيس ميں جرم کو نو سال بعد کيسے معاف کر ديا تھا؟ (جرم معاف کرنے کا اختيار عدالت کو ہے ہي نہيں? صرف صدر معاف کر سکتا ہے?) اتني رعائت تو بقول شيخ رشيد عدالتي تاريخ ميں کسي کو کبھي نہيں ملي? اتني دريا دلي کے پيچھے کيا نيت تھي؟
قادري صاحب پر شک کيا جاتا ہے کہ وہ اليکشن ملتوي کرانا چاہتے ہيں? اگر عدالت اليکشن کمشن کي تشکيل نو قومي اسمبلي کے تحليل ہونے سے پہلے کرنے کا حکم دے ديتي تو التوا کا سوال ہي ختم ہو جاتا? اگر اسمبلي کي تحليل سے پہلے نيا کمشن نہ بن سکتا تو آئين سپريم کورٹ کو اپنے ہي کسي جج کو عبوري چيف اليکشن کمشنر مقرر کرنے کا اختيار ديتا ہے? فخرو بھائي سے پہلے جسٹس شکراللہ جان بھي تو قائم مقام بنائے گئے تھے?
اور کس بات سے قادري صاحب کي بدنيتي ظاہر ہوتي ہے؟ کيا سپريم کورٹ نے کوئي آلہ ايجاد کرا ليا ہے جو نيتوں کا حال بتا ديتا ہے؟ اگر يہ بات تھي تو رجسٹرار ہي درخاست واپس کر ديتا کہ سائل کي نيت صاف نہيں? اگر دہري شہريت پر اعتراض تھا تو بھي وہ درخاست رد کر ديتا? اگر درخاست دفعہ 199 کے تحت صرف ہائي کورٹ سن سکتا تھا تو بھي سائل کو بتا کر درخاست واپس کر دي جاتي? جب درخآست سماعت کے ليئے منظور کر لي گئي تھي تو پھر سني کيوں نہيں گئي؟ کيوں تين دن تک قادري صاحب کي کردار کشي کے ليئے ڈرامہ رچايا گيا؟
عدالت: قادري صاحب کي وفاداري منقسم ہے
عدالت نے ڈاکٹر طاہر القادري کي وفاداري کو “منقسم” قرار ديا ہے? عدالت مفروضوں پر فيصلے نہيں کيا کرتي? اسے صاف طور پر بتانا چاہيئے تھا کہ کينيڈہ کي حکومت نے قادري صاحب سے کونسا تقاضہ کيا، جسے پورا کرنے کے ليئے انھيں اپنے وطن سے وفاداري قربان کرني پڑي? تو پھر وفاداري تقسيم کيسے ہو گئي؟
عدالت نے پوچھا، “کيا آپ نے کبھي کينيڈہ کے کسي آئيني ادارہ کو چيلنج کيا؟” عدالت کو معلوم ہونا چاہيئے کہ کينيڈہ ميں آئيني ادارے ہمارے ہان کي طرح وجود ميں نہيں آتے? اور اگر کوئي ادارہ غيرآئيني طريقہ سے وجود ميں آ بھي جائے تو وہاں کي سپريم کورٹ ہماري سپريم کورٹ جيسا فيصلہ نہيں ديتي?
جب قادري صاحب نے ان کے ملکہ الزبتھ سے حلف پر اعتراض کے جواب ميں تصوير دکھائي، جس ميں افتخار چودھري صدر پرويز مشرف سے حلف لے رہے تھے تو چيف جسٹس نے غصہ ميں آ کرسماعت ختم کر دي? بقول شاعر،
آئينہ ان کو دکھايا تو برا مان گئے
دوسري طرف، ججوں کي ملک سے اپني وفاداري کي کيا صورت ہے؟ دو مثاليں:
اول، موجودہ چيف جسٹس نے عہدہ سنبھالنے کے بعد حکم ديا کہ جج شيترواني پہننا ترک کر ديں، جو قومي لباس ہے? اس کي بجائے وہ سوٹ پہنا کريں، جو گوروں کي ثقافت کي علامت ہے? کيا اپني ثقافت ترک کر کے مغربي ثقافت کو اپنانا “منقسم وفاداري” نہيں؟
دوم، آئين کي دفعہ 251 ميں کہا گيا ہے:
251.(1) The National language of Pakistan is Urdu, and arrangements shall be made for its being used for official and other purposes within fifteen years from the commencing day [August 1973].
سپريم کورٹ کي کاروائي ابھي بھي انگريزي ميں ہوتي ہے اور فيصلے بھي قومي زبان کي بجائے اسي غيرملکي زبان ميں لکھے جاتے ہيں? عدالت اپنے اندروني معاملات ميں خودمختار ہے اور کسي نے اسے قومي زبان ميں کام کرنے سے نہيں روکا? کيا تمام جج آئين کي سالہا سال سے خلاف ورزي نہيں کر رہے، جس کي وفاداري کا ان سب نے حلف اٹھايا تھا؟
قادري صاحب کي ذات کا ان کے موقف سے کيا تعلق ہے؟
قادري صاحب کي ذات سے ہزاروں اختلافات ہو سکتے ہيں اور ان کے حکمران بننے کي اہليت پر سينکڑوں شکوک ہو سکتے ہيں ليکن اس کا يہ مطلب نہيں کہ اليکشن کمشن کے بارے ميں ان کا موقف غلط ہے? اب يہ ثابت ہو چکا ہے کہ اليکشن کمشن کے ارکان کے تقرر کے ليئے آئيني تقاضے پورے نہيں کيئے گئے? شاہين صہبائي (دي نيوز، 8 فروري) نے بابر اعوان کے حوالہ سے لکھا ہے کہ خود سپريم کورٹ نے کم از تين کيسوں ميں آئيني تقاضے پورے نہ کرنے پر کاروائي منسوخ کر دي? تو اليکشن کمشن کے بارے ميں اسي بنياد پر فيصلہ دينے ميں کيا رکاوٹ تھي؟ کيا يہ نظريہ ضرورت کي بحالي نہيں، جسے دفن کرنے کے دعوے کيئے جاتے رہَے ہيں؟ عدالت کو ديکھنا يہ چاہيئے کہ کيا کہا جا رہا ہے، يہ نہيں کہ کون کہہ رہا ہے? ليکن اس نے تو بقول قادري صاحب انھيں درخاست کا ايک لفظ پڑھنے نہ ديا? اگر اليکشن کمشن کو ايسے ہي رہنے ديا گيا، اس نے اليکشن بھي کرا ديئے اور بعد ميں اس کي تشکيل غيرآئيني قرار پائي تو اس سے پيدا ہونے والے انتشار کا ذمہ دار کون ہوگا؟
کہتے ہيں انصاف اندھا ہوتا ہے ليکن قادري صاحب کي درخاست کے معاملہ ميں کانا ثابت ہوا? اس نے ايک آنکھ سے تو ديکھ ليا کہ قادري صاحب نے کچھ سال پہلے کينيڈہ کي شہريت اختيار کر لي تھي ليکن دوسري آنکھ کو نظر نہ آيا کہ انھوں نے وہ شہريت ترک نہيں کي، جو پيدائش سے انھيں حاصل ہے اور جس کي بنا پر انھوں نے عدالت سے رجوع کيا?
کيا آئين کے مطابق فصلہ سے آسمان گر پڑتا؟
اگر عدالت درخاست منظور کرتے ہوئے حکم ديتي کہ اليکشن کمشن کي تشکيل نو کي جائے تو بقول وزير اطلاعات کائرہ صاحب (دنيا بنيوز، “کيوں؟”، 15 فروري) تين چار دن ميں نيا کمشن آئيني تقاضوں کے مطابق وجود ميں آ سکتا تھا? حکم دينے کي بجائے درخاست ہي رد کرنے ميں کيا مصلحت تھي؟ کيا آئين کے مطابق فيصلہ دينے سے آسمان گر پڑتا؟
جي ہاں، نواز شريف کے ليئے آسمان ضرور گر پڑتا? آصف زرداري کو تو دوبارہ اقتدار ميں اںے کي خاہش نہيں (اور اب زيادہ اميد بھي نہيں)? انھوں نے اور ان کي پارٹي نے جتني ہو سکي لوٹ مار کر لي اور برسراقتدار لانے والے اْقا (امريکہ) کے کہنے پر جس قدر ممکن تھا ملک کے ہر شعبہ کو تباہ کيا? اب زرداري صرف يہ چاہتے ہيں کہ نواز شريف کو کھلا ميدان نہ ملے?
نواز شريف کے ليئے ساري کسر نکالنے کا يہ آخري موقع ہے? انھوں نے گورے آقائوں کي ہدائت پر عمل کيا کہ زرداري کو آرام سے پانچ سال پورے کرنے ديں؛ اس کے بعد ان کي باري ہوگي? وہ اطمينان سے باري کا انتظار کر رہے تھے کہ پہلے عمران خاں اور پھر طاہر القادري کے سامنے آنے سے انھيں زميں پيروں تلے نکلتي محسوس ہوئي? آن کے ليئے موجودہ اليکشن کمشن آخري اميد ہے? اس کے ہوتے ہوئے وہ دھن، دھونس اور دھاندلي سے ايک بار پھر اقتدار ميں آ سکتے ہيں اور کمشن ان کي کسي حرکت پر انگلي نہيں اٹھائے گا? ليکن اگر نيا کمشن بن گيا، جس ميں ان کي پسند کے ارکان نہ ہوئے اور جامع اور کڑے احتساب کے ليئے اليکشن بھي کچھ عرصہ کے ليئے ملتوي ہو گئے تو مياں صاحب کو زندگي کے باقي دن ياد الہي ميں گزارنے پڑيں گے?
نواز شريف کے برسراقتدار نہ آنے سے سپريم کورٹ کو کيا نقصان ہوگا؟ زبان خلق کہتي ہے کہ چيف جسٹس اميد لگائے بيٹھے ہيں کہ نواز شريف برسراقتدار آ جائيں تو انھيں ملازمت ميں توسيع مل جائے گي? کيا اتنے سالوں کے بعد بھي ان کا جي نہيں بھرا؟ کيا ذاتي مفاد آئيني تقاضہ سے بالا تر ہے؟
سپريم کورٹ کي نام نہاد انصاف پروري نے شيخ رفيق احمد کي ياد دلا دي، جو ذوالفقار علي بھٹو کے دور ميں پنجاب اسمبلي کے سپيکر تھے? ايک عورت نے انھيں اسمبلي کي سيڑھيوں پر روک ليا اور انصاف کي دہائي دي? شيخ صاحب نے اس کي بپتا سن کر کہا، “تمھيں انصاف اگلے جہان ميں ملے گا، اس جہان ميں نہيں?”