سابق صدر پر مقدمات ختم کرکے انکو مکمل آزادی دی جائے؛ مقررین کا مطالبہ
سڈنی (ٹریبیون انٹرنیشنل رپورٹ، بروز اتوار 6 اپریل): سابق صدرِ پاکستان ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پر آئین توڑنے کا مقدمہ بنائے جانے اور انکو پاکستان سے باہر جانے پر پابندی کے خلاف سڈنی شہر کے مرکز میں یہاں پر بسنے والے پاکستانیوں نے احتجاج کیا۔ سڈنی میں آج وقفہ وقفہ سے بارش کا موسم تھا لحاظہ عام طور پر ایسے موسم میں لوگ گھر سے نہیں نکلتے مگر پرویز مشرف کے ہمدردوں اور وہ پاکستانی جو یہ سمجھتے ہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دراصل پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کو بدنام کرنے کی سازش ہے، نے بھرپور جوش و جذبہ کا مظاہرہ کرتےہوئے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ سڈنی کے مشہور ٹائون ہال پر جمع ہو کر اپنا احتجاج رقم کرایا۔ پاکستانی عورتیں ، بچے اور بڑے ہاتھوں میں پلےکارڈ لئے تھے جس پر انگلش اور اردو میں پرویز مشرف کی حمایت اور نواز شریف کی موجودہ حکومت کے خلاف نعرہ لکھے تھے۔ ان نعروں میں خاص کر،ْپرویز مشرف کے ساتھ انصاف کیا جائے’، نواز شریف شرم کرو تم تو خود فوج کی پیداوار اور جنرل ضیا کی باقیات ہو’، ‘بین الاقوامی کمیونٹی حکومتِ پاکستان پر مشرف کے لئے زور ڈالیںٗ، ْسب سے پہلے پاکستانٗ وغیرہ لکھا اور یہ کچھ احتجاج میں شامل پاکستانی نعرہ لگا کر شہر سے گزرتے ہوئے لوگوں کو توجہ کا مرکز بنا رہے تھے۔اسِ احتجاج کا انتظام سڈنی میں رہائش سرگرم پاکستانیوں اور ٹربیون انٹرنیشنل انگلش اخبار نے کیا تھا۔
احتجاج کی کاروائی سڈنی می مقامی اور سرگرم صحافی جنابہ ثروت حسن نے کی۔جبکہ مقررین میں جناب شمس العباس، جناب ریحان شکیل، جناب صفدر سید، اور سید عتیق الحسن شامل تھے۔ ثروت حسن نے احتجاج کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے دس سالہ دورِ اقتدار میں پاکستان میں کی گئی اصلاحاتی ، کاموں، پرویز مشرف کا بین الاقوامی طاقتوں اور پڑوسیوں ممالک سے پاکستان کے مفاد میں روابط، اور پاکستان میں ذرائع ابلاغ سمیت مختلف شعبوں میں کئے گئے مثالی کاموں سے کیا۔ ثروت حسن نے کہا کہ وہ جب آسٹریلیا آئیں تو تین سال کی تھی لحاظہ انہوں سے اپنی زندگی آسٹریلیا میں گزاری ہے مگر پھر بھی وہ اور ان جیسے آسٹریلیا میں بسنے والے پاکستانی نزاد پاکستانی پرویز مشرف کی حمایت کیوں کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انکو اسِ سے کوئی غرض نہیں کہ پاکستان میں سیاستدانوں کی حکومت ہے یا فوجیوں کی حکومت بلکہ انکے لئے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں عام آدمی کے لئے کسِ نے کام کیا ہے ، کسِ نے پاکستان کو ترقی دی ہے۔ اور جب ہم مختلف حکومتوں کے دور کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پرویز مشر ف کا دور ہی ایک دور نظر آتا ہے جب پاکستان میں ترقی ہر رہی تھی۔ انہوں نے کہا یہ جو سیاسی قائدین پاکستان کے مختلف سیٹلائٹ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر پرویز مشرف کے خلاف زہر اگلتے ہیں یہ میڈیا کا انقلاب پرویز مشرف کی ہی دین ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل کمیونٹی کو پاکستانی حکومت پر زور ڈالنا چاہئے کہ وہ فی الفور پاکستان کے سابق صدر سے جعلی غداری کے مقدمات ختم کریں اور انکو ایک آزاد شہری کی طرح سے عزت دیں۔
سرگرم کمیونٹی کارکن اور پاکستانی ہزارہ کمیونٹی کے نمائندے جناب شمس العباس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف نے دہشتگردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کو کنٹرول کیا ہوا تھا۔ پاکستان میں مشرف کے دور میں کوئی دہشتگردی کے دھماکے کوئٹہ، پشاور اور کراچی میں ہو رہے تھے۔ پرویز مشرف کے دور کے ختم ہوتے ہی اور سیاسی حکومت کے آتے ہی طالبان پاکستان کے شہروں میں گھس گئے اور چن چن کے مختلف فرقہ کے لوگوں کو قتل کرنا شروع کر دیا، پاکستان کے فوجی جوانوں کو شہید کرنا شروع کر دیا، آج پاکستان کی حکومت انہی قاتلوں اور دہشتگردوں سے مزاکرات کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف سابق صدر پاکستان پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ بنا کر انکو ذلیل کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انِ حرکتوں کی وجہ سے پاکستان بد نام ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے ساتھ انصاف کیا جائے اگر پرویز مشرف نے آئین توڑا ہے تو ان لوگوں پر بھی پہلے مقدمہ چلائے جائیں جنہوں نے مشرف سے پہلے آئین توڑا تھا۔
پاکستانی کمیونٹی کے ایک اور سرگرم رکن جناب صفدر سید نے کہا کہ پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ پاکستان کی عدلیہ پر ایک دھبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، آسٹریلیا اور دوسرے مہذب ممالک میں لوگ ملک کا مفاد سب سے پہلے دیکھتے ہیں مگر پاکستان میں اسِ وقت ذاتی دشمنیاں نکالی جا رہی ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف کو ذاتی بدلہ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے مگر اسِ عمل سے پاکستان کی فوج اور خفیہ ادارے بدنام ہونگے لحاظہ پرویز مشرف کے خلاف تمام مقدمات ختم کئے جائیں اور ان پر بیرونِ ممالک سفر کی پابندی بھی ختم کی جائے۔
ٹریبیون انٹرنیشنل کے ایڈیٹر، سینئر صحافی اور پاکستانی کمیونٹی کی نامور شخصیت سید عتیق الحسن نے کہا کہ آج نواز شریف کو پرویز مشرف غدار نظر آرہا ہے کیونکہ اس کے پاکستان کے آئین کو معطل کیا اور پاکستان میں ہنگامی حالت نافظ کی ، نواز شریف پاکستانی قوم کو یہ بھی بتائیں کہ 1999 میں کون سی آئین کے شقِ کے تحت 10 سال پاکستان سے باہر زندگی گزانے کا محاہدہ کرکے گئے تھے اور وہ بھی توڑا اور پانچ سال میں ہی لوٹ آئے۔ اسی طرح سے سابق صدر آصف زرداری بھی قوم کو بتائیں کہ وہ پرویز مشرف سے این آر او کسِ آئین کی شقِ کے تحت کرکے ملک میں واپس آئے تھے ۔ انہوں نے کہا سوال کیا کہ کیا پاکستان کی پارلیمنٹ میں بیٹھے جعلی ڈگریوں والے، قرضہ معاف کرانے والے اور روزانہ جھوٹ بولنے والے پاکستان کی آئین کی پاسداری کر رہے ہیں۔یہ سب پاکستان کے آئین توڑنے کے مجرم ہیں لحاظہ سب سے پہلے انِ سب پر غداری کا مقدمہ چلنا چائیے۔
سید عتیق الحسن نے آسٹریلیا سمیت تمام انٹرنیشنل کمیونٹی سے اپیل کی کہ وہ پرویز مشرف کو انصاف فراہم کرنے کے لئے پاکستان کی موجودہ حکومت پر زور ڈالیں۔ پرویز مشرف کی جان کو خطرہ ہے کیونکہ یہ مقدمہ صرف اسِ لئے چلانا چاہتے ہیں کہ پرویز مشرف کو ذلیل کرکے سزا عدالتوں کے ذریعہ ڈلائیں۔ پاکستان میں عدلیہ کا نظام کتنا غیر جانبدار ہے سب کو معلوم ہے۔سید عتیق الحسن نے کہا کہ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں اور نا ہی وہ کوئی سیاسی جماعت میں شامل ہونے جا رہے ہیں وہ صحافی ہیں اور کسی کے ساتھ بھی نا انصافی ہوگی تو اسکے خلاف بلا امتیاز آواز اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی وہ اور انکے سرگرم محب وطن پاکستان سڈنی میں اور احتجاج کا انعقاد کریں گے اور اس تک جاری رکھیں گے جب تک سابق صدر مملکت پرویز مشرف پرسے جعلی مقدمات ختم نہیں کئے جاتے۔
احتجاج میں شامل شرکاء میں خاص بات یہ نوٹ کی گئی کہ اسِ میں سڈنی میں موجود پاکستانی سیاسی جماعتوں کے گروپوں میں سے کسی نے شرکت نہیں کی۔ یہاں پر پی پی پی، پی ایم ایل (ن)، پی ٹی آئی اور ایم کیوایم نے اپنی اپنی جماعتوں کے پلیٹفارم بنا رکھے ہیں جو متحرک ہیں خاص کر ایم کیوایم۔ ایم کیو ایم کے علاوہ دوسری جماعتوں کی عدم شرکت تو ممکنہ تھی مگر ایم کیوم ایم جن کے قائدین میڈیا میں پرویز مشرف کے ہمدردیوں میں کافی قصیدے پڑھتے ہیں اسِ احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔
ایم کیو ایم کا پرویز مشرف کی حمایت میں نکانے جانے والے احتجاج میں شرکت نہ کرنا بہت معنی خیز بھی ہے اور بہت سے شکوک و شبہات کو بھی جنم دیتا ہے جس کا جواب تو ایم کیو ایم کے پاس ہی ہوگا۔
احتجاج میں بچوں کی شرکت بڑی جوشیلی تھی ، جب ایک بچے سے سوال کیا گیا کہ وہ پرویز مشرف کے لئے اسِ احتجاج میں کیوں شریک ہوا ہے تو اس نے کہا کہ پرویز مشرف ایک بہت اچھا لیڈر تھا اور جب وہ بات کرتا تھا تو پاکستان کا صدر لگتا تھا اب کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا۔ احتجاج تقریبا ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہا اس کے بعد لوگ پر امن طریقہ سے منتشر ہوگئے۔