السلام عليکم
بيمار قوم يا کسی بھی بيمار شخص کا علاج اس وقت تک نہيں ہوسکتا جب تک اس مرض کی صحيح تشخيص نہيں ہوجاتی۔
ہمارے ملک پاکستان ميں برائيوں کی اصل ذمہ دار حکومت نہيں بلکہ خود پاکستانی قوم ہے۔ قائد اعظم سے لیکر آج 2014 تک ايک بھی صدر يا وزيراعظم ايسا نہيں آيا جس نے کوئی ايک بھی ايسی پاليسی بنائی ہو جسکی وجہ سے پاکستانی قوم بڑے بڑے کبيره گناه کرنے پر مجبور ہو۔
پاکستانی قوم يعنی ہم، ان گناہوں ميں مبتلا ہيں جن ميں حکومت کا کوئی ہاتھ نہيں اور جن پر اگر بد ترين عذاب آجائے تو اس ميں حيرت کی کوئی بات نہيں۔ اگر ہميں پاکستان کے مستقبل کی کوئی فکر ہے تو ہمارے اوپر يہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی (عوام کی) ان اصل برائيوں کو دور کرنے کی کوشش کريں جن کی وجہ سے پاکستان
اس مشکل حالات سے گذر رہا ہے۔ پاکستان کے برے حالات کی اصل ذمہ دار حکومت نہيں بلکہ ہم خود ہيں، کيا امير کيا غريب کيا پڑھے لکھے کيا ان پڑھ، گناہوں ميں سب ايک دوسرے کے شانہ بشانہ چل رہے ہيں سوائے چند کے۔ ہرشخص اپنے ہرمسئلے اورہرگناه کی ذمہ داری حکومت پرڈال کرخود مطمئن ہو جاتا ہےاوراپنے آپکو پاکدامن سمجھتا ہے، تعلیم یافته ہو يا غير تعلیم یافته، کسی سے بھی اسکی کسی بھی برائی يا گناه کی وجہ پوچھ ليں وه ہم کوصاف بتاديگا کہ اسکی
ذمہ دار حکومت ہے۔
حيرت کی بات ہے کہ پاکستان کے اکثر، تعلیم یافته لوگ انکے اس بے تکے بہانوں کو قبول بھی کر ليتے ہيں۔ اسکی وجہ ميں يہ سمجھا ہوں کہ آج جب ہم کسی شخص يا قوم کی حالت کو ديکھ کراسکا تجزيہ کرتے ہيں تو ہم يہ تجزيہ ايک غير مسلم کے نقطہ نظر اور انکے نظريات کو سامنے رکھکر کرتے ہيں، حلانکہ ہم پاکستانی
بعد ميں ہيں پہلے مسلمان ہيں، اپنی ہر پريشانی، ہر تکليف، ہردکھ اور ہر مسئلے پرتجزيہ کرنے کيلئے کيا اسلام کی تعليم ہمارے لئيے کافی نہيں ہے؟ اورکيا حالات کا جائزه لينے کيلئے اسلامی نقطہ نظر کے علاوه کسی اور نقطہ نظر کی ہميں ضرورت ہے؟
اگرہم اپنےآپ کو زنده قوم سمجھتے ہيں تو دن رات بری حکومت کا رونا چھوڑکرہم اپنی ان برائيوں کی نشاندہی کريں جن کی وجہ سے الله ہم سے ناراض ہے، اور انکو دور کرنے کی جتنی الله نے ہم کو صلاحيت دی ہے ۔ کوشش کريں۔ اگر ہم سے يہ نہيں ہوسکتا تو اسکا مطلب ہے کہ ہم ايک مرده قوم ہيں۔
فرخ عابدی
10 Comments
Comments are closed.