بقلم سید عتیق الحسن
پاکستان کو معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے آج تک اتنے زخم دئیے گئے ہیں کہ اب وہ زخم سرطان بن کر پورے جسم میں پھیل گئے ہیں ۔پاکستان کی قوم یکے بعد دیگرے چوٹ پہ چوٹ کھا کر اب اتنی بے حسِ ہو چکی ہے یا پھر ہر دھوکہ، فریب اور مجبوری کی عادی ہوگئی ہے کہ ہر کچھ برداشت کرکے دنِ کے گزر جانے کی دعا کرتی ہے۔ کیا اب پاکستان کا علاج ہو سکتا ہے ، معاشرہ صحتمند ہو سکتا ہے، دنیا سے لئے گئے قر ضوں سے نجات مل سکتی ہے، جعلی ، نا اہل اور بد عنوان سیاستدانوں، افسرشاہی اور حاکم جرنیلوں سے جان چھوٹ سکتی ہےاسِ پر قصیدہ تو تحریر کیا جا سکتا ہے مگر علاج نظر نہیں آتا۔
پاکستانیوں کو اللہ تعالی نے ایک سچا ، ایماندار اور مخلص قائد دیا جس نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور اصولوں پر جدوجہد کرکے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک آزاد ریاست دلائی۔ جس کے قیام کے بعد وہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان بن گئی۔ مگر قائد اعظم محمد علی جناح اور انکے ساتھی بانیانِ پاکستان جن کے حوالے ملک کرکے گئے انہوں نے کیا کیا:
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کوہنگامی طور پر ہسپتال جانے کے لئے ٹھیک ایمبولینس بھی فراہم نہ کر سکے۔
بانی پاکستان کے سب سے قریبی ساتھی اور پہلے وزیر اعظم کو۱۶ اکتوبر ۱۹۵۱ کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام میں شہید کر دیا گیا اور پاکستانی حکمران قاتلوں کا پتہ بھی نہ لگا سکے۔
لیاقت علی خان کے شہید ہونے کے بعد ۱۹۵۱ سے۱۹۵۷ تک پاکستان میں جمہوریت پروان چڑھ رہی تھی۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے ارکانِ اسمبلی پر مشتمل پاکستان کی قومی اسمبلی پاکستان میں جمہوری اقدار مضبوط کر رہی تھی۔ ۱۹۵۱ سے ۱۹۵۷ تک سات اسمبلی کے قائدین وزیر اعظم بنے۔ جن میں سر خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، حسین شہید سہروردی، اور ابراہیم اسمعیل چندریگر کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور چودھری محمد علی، اور سر فروز خان نون کا تعلق مغر بی پاکستان سے تھا۔ مشرقی پاکستان کے رہنمائوں کے کچھ عوامی مطالبات تھے جو کہ پارلیمنٹ میں لا کر طے ہونا چائیے تھے۔ مثال کے طور پر مشرقی پاکستان کے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں چاہتی تھیں کہ بنگالی کو بھی پاکستان کی قومی زبان بنایا جائے۔ یہ مطالبہ انکا میرٹ پر بالکل درست تھا، مشرقی پاکستان آبادی کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی ، اور پالیمنٹ میں نشستیں بھی مغربی پاکستا ن سے زیا دہ تھیں، پھر پاکستان کی جدو جہد میں مشرقی پاکستان کے لوگوں نے زیادہ موثر طریقہ سے بنگال میں تحریک چلائی تھی جس میں مجیب الرحمن، محمد علی بوگرا، اور حسین شہید سہروردی پیش پیش تھے۔مگر مغربی پاکستان کے سیاستدان جن میں زیادہ تر سندھ اور پنجاب کے جاگیردار اور چودھری، سرحد کے قبائیلی سردار تھے بنگالیوں سے بغض رکھتے تھے۔مشرقی پاکستان کے لیڈران کے جائز مطالبات ماننے کو تیار نہیں تھے۔ ان کے نزدیک پاکستان کا استحکام اور سالمیت سے زیادہ ان کو مغربی پاکستان کی مشرقی پاکستان پر حاکمیت عزیز تھی۔ پھر پاکستان کی فوجی جرنیل جس میں اکثریت مغربی پاکستان کے فوجیوں کی تھی نہیں چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان کا فوج میں زیادہ عمل دخل رکھا جائے۔ بارحال جب یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور مغربی اور مشرقی پاکستان کے لیڈران میں تنائو بڑھتا گیا، تو اسکندر مرزا نے ۱۹۵۸ میں جب وہ پاکستان کے صدر تھے فوجی جرنیل ایوب خان کو ملک کا اقتدار ہاتھ میں لینے کی دعوت دی اور یوں ۱۹۵۸ میں پاکستان کی ابھرتی ہوئی جمہوریت کا قتل کرکے فوجی حاکمیت نافظ کر دی گئی۔ یہ پاکستان کو دئیے گئے زخموں میں سب سے بڑا زخم تھا جو پھیلتا گیا اور فوج نے پاکستان پر اپنی حاکمیت مستقل بنیادوں قائم کردی ۔ آج پاکستان کی خارجہ پالیسی ہو یا داخلہ پالیسی نام نہاد جمہوریت میں بھی بغیر فوج کی مرضی سے کوئی سول حکومت کوئی فیصلہ سادر نہیں کر سکتی ۔ آج کی دورِ حکومت میں بھی چاہے عمران خان یہ کہیں یا نہ کہیں فوج کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ عمران خان اپنی ذات میں ایک ایماندار انسان ہیں، لیکن بدعنوان نظام کے خاتمہ کےلئے اور پاکستان میں مکمل ریفارم کے لئے جو قائد کو آزاد اختیارات چائیے ہوتے ہیں جو عمران خان کے پاس نہیں ہیں۔
عمران خان کے پاس بہت اعلی خیالات ہیں، عوام کی امنگوں کے مطابق نعرہ بھی ہیں تقریریں بھی مگر آج وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ عمران خان کے پاس اعلی ، دوراندیش اور تجربہ کار لوگ نہیں ہیں جن کے پاس عمران خان جیسا جذبہ قوم کے لئے ہو۔ صرف امراٗ، بڑے کاروباری لوگ اور بیرونِ ملک سے سرمایہ داروں کی ٹیم بنانے اور انتخابات جیتنے کے لیے الیکٹیبل کو جماعت میں ڈالنے اور اہم عہدوں پر بٹھانے سے عوامی ایجنڈے کی تکمیل نہیں ہو ہو سکتی۔ اسیِ لئے آج عمران خان ایک الجھن میں پھنسے ہوئے لیڈر نظر آتے ہیں ، انکی اپنی باتوں میں تضاد نظر آتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان خود اپنے منتخب کئے ہوئے ساتھیوں کے ہاتھوں یرغمال نظر آتے ہیں۔
پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں کے علاوہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون کی سیاسی جماعتیں جو اکثریت میں جاگیرداروں، اور قبائلیوں سرداروں پر مشتمل ہیں پاکستان کے ساتھ صرف اس لئےکھڑی ہوتی ہیں اور اس وقت تک کھڑی رہیں گی جب تک انکو پاکستان کا خزانہ لوٹنے کے مواقع میسیر رہیں ہیں۔ جب بھی انِ پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے یہ پاکستان کی سالمیت کی دھمکیاں دینی شروع کر دیتے ہیں۔ دوسری جانب مذہبی جماعتوں نے بھی عوام کا بیڑا غرق کیا ہے، فرقہ بندیوں اور الزامات کے علاوہ انکی تقریروں میں کوئی تعمیری کام نظر نہیں آتا۔
قائد اعظم محمد علی نے قیام ِ پاکستان کے بعد اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ آج سے پہلے ہم بنگالی، پنجابی، سندھی اور پٹھان تھے اگر کسی چیز نے ہمیں جوڑا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ لحاظہ اب ہم سب پاکستانی ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ جولوگ پاکستان کو توڑنے جرم میں شامل رہے، جن لوگوں کے رابطہ پاکستان دشمن غیر ملکی ایجنسیوں سے رہے، جو سیاستدان نظریہ پاکستان کے خلاف رہے انُ کو آج پاکستان کے قائدین مانا جاتا ہے۔قائد اعظم پاکستان انِ وڈیروں، جاگیرداروں اور قبائلی سرداروں کو لینڈ ریفارمز کے ذریعہ ختم کرنا چاہتے تھے مگر اللہ نے ان کو وقت نہیں دیا۔ یہ پاکستان کے آنے والے حاکموں کی ذمہ داری تھی کہ وہ قائد اعظم اور نظریہ پاکستان کو ریاستِ پاکستان کا نظام بناتےمگر ایسا نہیں کیا گیا۔ ملک میں صوبائی خودمختاری، کوٹہ سسٹم، این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم جیسی لعنتوں کو نافظ کیا گیا اور پاکستان کی سالمیت کو دائو لگا دیا گیا۔
آج اگر پاکستان کو قائم و دائم رکھنا ہے تو پاکستان کو قائد اعظم کے بتائے گئے راستے پر ڈالنا ہوگا۔ ریاستِ مدینہ تو دور کی بات اگر نظریہ پاکستان ، مقاصدِ پاکستان اور بانی پاکستان کے بتائے گئے مقاصد کے تحت پاکستان میں ریفارم لایا جائے تو ہی پاکستان کی بقا اور استحکام ممکن ہے۔ اس کے لئے پاکستانی عوام کو موجودہ جعلی اور اپنے مفاد کو پورا کرنے کی خاطر اقتدار میں آنے والے سیاستدانوں اور انکی جماعتوں کو چھوڑنا ہوگا۔ اور ایسے نظام کے لئے آواز بلند کرنی ہوگی جس کی تشکیل نظریہ پاکستان اور بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے بتائے ہوئے راستہ پرہو۔(سید عتیق الحسن سڈنی میں مقیم سینئر صحافی، تجزیہ نگار اور کمیونیٹی لیڈر ہے)